"JDC" (space) message & send to 7575

فریڈم آف انفارمیشن کا حق

کیا آپ کو علم ہے کہ شفافیت کے گن گانے والی مسلم لیگ کی فیڈرل حکومت 2013ء سے خود ایک ایسے ڈرافٹ بل پر دھرنا دے کر بیٹھی ہوئی ہے جس کا مقصد شہریوں کو سرکاری اداروں سے معلومات حاصل کرنے کا حق دلوانا ہے۔ وفاقی کابینہ نے صرف سر ہلانا ہے کہ ڈرافٹ بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے لیکن شائد وہ صاحب جن کے پاس کابینہ ارکان کے سروں کا ریموٹ کنٹرول ہے‘ بٹن دبانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اگلے روز سینیٹر فرحت اللہ بابر پلڈاٹ کی میٹنگ میں رونا رو رہے تھے کہ سینیٹ کی انفارمیشن سٹینڈنگ کمیٹی نے پندرہ ماہ قبل ایک بل ڈرافٹ کر کے یاددہانی کے طور پر حکومت کو بھیج دیا تھا‘ اس کے بعد کابینہ کے چودہ اجلاس ہوئے مگر اس ایجنڈا آئٹم کی باری نہ آئی۔ ہمیں شروع سے اس بات کا زعم رہا ہے کہ بہت سی چیزوں میں ہم ایشیا میں سب سے آگے ہیں چنانچہ 2002ء میں جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے رائٹ ٹو انفارمیشن کا آرڈیننس نکالا تو یار لوگوں نے پھر خوشیاں منائیں کہ ہم انڈیا سے آگے ہیں‘ یہ اور بات کہ جنرل مشرف والا آرڈیننس ہمارے معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لا سکا۔وجہ یہ تھی کہ اس قانون پر عملدرآمد کرانے والا ادارہ قائم نہ ہوسکا۔ انڈیا نے 2005ء میں چیف انفارمیشن کمشنر کا ادارہ قائم کیا جو کامیابی سے اپنے مقاصد کی طرف رواں دواں ہے۔ ہمارے ہاں صوبائی سطح پر پنجاب میں ایسا ادارہ قائم ہو چکا ہے۔ مختار احمد علی صاحب پنجاب کے انفارمیشن کمشنر ہیں لیکن ان کا نام چند روز قبل مجھے پلڈاٹ سے معلوم ہوا اور یہ بات میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب میںعائشہ ممتاز صاحبہ ان سے زیادہ معروف ہیں۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی ایسے ادارے قائم ہو رہے ہیں ۔ خدا کرے کہ وہ لاہور والے ادارے سے زیادہ فعال ہوں۔
کوئی تین سال ہوئے انڈیا کے چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ ایک لیکچر دینے پاکستان آئے تھے۔ انہیں جناح انسٹی ٹیوٹ نے مدعو کیا تھا۔ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں فنکشن ہوا۔ وجاہت صاحب انڈین سول سروس کے مشہور افسر رہے، سات مقامات پر ڈپٹی کمشنر اور کمشنر رہے اور پھر کئی سال مقبوضہ کشمیر کے چیف سیکرٹری رہے ۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت کی تحریک زور سے چل رہی تھی۔ اسی زمانے میں وجاہت صاحب نے کہا تھا کہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے امریکی ثالثی کی ضرورت ہے۔ وہ کچھ عرصہ انڈیا گورنمنٹ کے زیرعتاب بھی رہے۔ وجاہت صاحب نے بتایا کہ انڈیا میں چیف انفارمیشن کمشنر کو جج کے اختیارات حاصل ہیں۔ وہ کسی بھی افسر کو بمع ریکارڈ طلب کر سکتا ہے لیکن صوبائی یا فیڈرل انفارمیشن کمشنرز کے پاس شہری اسی صورت میں جاسکتے ہیں جب ان کے پاس ثبوت ہو کہ کسی سرکاری محکمے نے مانگی گئی معلومات فراہم نہیں کیں اوراگر کی ہیںتو وہ معلومات غلط ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ انڈیا میں اکثر لوگوں کو شکایت رہتی تھی کہ سڑکیں بار باربنتی ہیں اور چند ماہ میں توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ایسا ان مقامات پر اکثر ہوتا ہے جہاں بارش زیادہ ہوتی ہے۔ سرکاری انجینئر اور ٹھیکیدار سارا الزام بارشوں پر لگا دیتے ہیں۔ اس عمل میں ٹھیکیدار اور انجینئرز دونوں کے وارے نیارے ہوتے تھے۔ جب سے رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون آیا ہے لوگوں نے پی ڈبلیو ڈی سے پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں بتایا جائے‘ سڑک پر بجری اور کولتار کا استعمال کس تناسب سے ہوا ہے اور اس کے علاوہ کام کی ٹیکنیکل منظوری دینے والے انجینئر کا نام بھی بتایا جائے۔ جب سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے‘ انڈیا میں سڑکوں کی تعمیر کا معیار بہتر ہو گیا ہے۔
پاکستان میںاس قانون کو لانے کی تاریخ لمبی بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ سب سے پہلے 1990ء میں پروفیسر خورشید صاحب نے سینیٹ میں بل پیش کیا مگر حکومت کی طرف سے اس کی مزاحمت کی گئی۔ دوسری کوشش 1994ء میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ ملک قاسم صاحب نے کی مگر انہیں بیوروکریسی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ بل پارلیمنٹ کے سامنے نہ لایا جاسکا۔ بیورو کریسی کی تربیت کا حصہ ہے کہ بیشتر خط و کتابت پر سیکرٹ کی مہر لگا دی جائے۔1997ء میں ملک معراج خالد کی حکومت تھی۔ موصوف ان گنے چنے سیاست دانوں میں سے تھے جو اپنی ایمانداری کے لئے مشہور تھے۔ فخر الدین جی ابراہیم ان کے وزیر قانون تھے۔ ان کی ایمانداری سے سب واقف ہیں۔ اس عبوری حکومت نے فریڈم ٹو انفارمیشن کا آرڈیننس ایشو کردیا ۔ چند ماہ بعدمسلم لیگ کی ہیوی مینڈیٹ والی حکومت آ گئی جو چاہتی تو بڑی آسانی سے اس آرڈیننس کو قانون میں بدل سکتی تھی مگر اسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا اور آرڈیننس جس پر صدر فاروق لغاری کے دستخط تھے‘ اپنی طبعی موت مر گیا۔
ایک زمانہ تھا کہ ایم این اے وزیروں سے تیکھے تیکھے سوال پوچھتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد میں وزیروں کو حکم دیا گیا کہ وہ متعلقہ سوال کا جواب خود نیشنل اسمبلی یا سینیٹ میں دیں۔ ان کے بعد یہ روایت کمزور پڑنے لگی۔ وزیر اپنے جواب لکھ کر بھیجنے لگے۔ اس زمانے میں ایم این اے اپنے حلقے کے لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ممبر وزراء کو اپنے سوالوں سے پریشان رکھتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد کے لوگ اسد عمر صاحب کو ملنے جاتے ہیں لیکن وہ اپنے حلقے کے لوگوں سے رابطہ نہیں رکھتے۔ ان کا خیال ہے کہ صرف ٹی وی ٹاک شوز میں بول کر وہ اپنا فرض پورا کرسکتے ہیں۔ عمران خان کو آئندہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے جو اپنے مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے عوامی ہوں۔
انڈیا میں 2013ء میںدلچسپ بحث چھڑی کہ عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ سیاسی جماعتوںکو چندہ کہاں کہاں سے ملتا ہے اور اس چندے کا مصرف کیا ہے۔ اس وقت کی حکمران کانگرس پارٹی اور کئی دوسری جماعتوں نے اس مطالبے کی مخالفت کی کہ ایسے معلومات حاصل کرنا صرف الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ دوسرا استدلال یہ تھا کہ سیاسی جماعتوں کے فنڈز سرکاری خزانے سے نہیں آتے۔
آپ نے غور کیا ہوگا کہ پاکستان میںاس قانون کے حامی خود شفاف اور ایماندار لوگ تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قانون مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کیوں پسند نہیں جبکہ ایسا قانون آنے سے صحیح انفارمیشن عوام کو ملے گی اور افواہوں کے بازار گرم نہیں رہیں گے۔ ڈرافٹ بل میں تحریر ہے کہ ہر محکمہ میںایک افسر ایسا ہوگا جس کا کام ہی لوگوں کے سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔ اب مثلاً میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جکارتہ میں جنرل مشرف صاحب کے دور میں بیچی گئی سفارت خانے کی عمارتوں کا کیس کس مرحلے میں ہے تو میں وزارت خارجہ کے کس افسر سے پوچھوں اور جب تک یہ قانون پاس نہیں ہوتا وہ افسر میرے سوال کا جواب دینے کا پابند نہیں ہوگا۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 2009ء کے آخر میں جی 13سیکٹر کے پارک‘ سکول اور کمرشل مرکز میں کٹوتی کرکے درجنوں رہائشی پلاٹ بااثر افسروں میں تقسیم کر دیئے۔ سیکٹر کے مکینوں کو عدالت جانا پڑا۔ ایک درخواست 2012ء میں فیڈرل ہائوسنگ فائونڈیشن کو دی گئی کہ پلاٹ حاصل کرنے والے افسروں کے نام بتائے۔ رجسٹرڈ خط کا جواب آج تک نہیں آیا کیونکہ ان پلاٹوں میں فائونڈیشن سی ڈی اے کا پلاٹ بھی تھا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ سرکاری افسر اس قانون کے کیوں مخالف ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں