"JDC" (space) message & send to 7575

دبئی کا احوال

جب سفر کا پروگرام بن رہا تھا تو میں نے بیگم سے کہا کہ دبئی میں کم از کم دس دن بچوں کے پاس رہنا ہے۔ سوال ہوا کہ بچے اپنی اپنی جاب پر چلے جایا کریں گے، ہم وہاں دس روز کیا کریں گے؟ وقت کیسے گزرے گا؟ میں نے جواب دیا کہ روز کسی نئے شاپنگ مال جا کر ونڈو شاپنگ کریں گے یعنی کم خرچ اور بالا نشین۔ بیگم گویا ہوئیں کہ دبئی کے شاپنگ مال پہلے ہی دیکھے ہوئے ہیں، میں نے کہا کہ دوستوں کو ملیں گے؛ چنانچہ دس روز دبئی کے لیے مختص کر دیئے گئے۔
نومبر سے فروری تک خلیجی ممالک کا موسم بہت اچھا ہوتا ہے۔ مدینہ منورہ سے دبئی پہنچے تو بچے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ دبئی ایئرپورٹ کا نیا ٹرمینل اتنا بڑا ہے کہ آپ ایئر پورٹ کے اندر گھنٹوں پھر سکتے ہیں۔ ٹرمینل کے اندر ٹرین بھی چلتی ہے۔ گھر پہنچے تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور کے لیے میٹر استعمال کرنا ضروری ہے ‘کوئی ٹیکسی والا مسافر لینے سے انکار نہیں کر سکتا؛ البتہ کم از کم بارہ درھم کرایہ دینا پڑتا ہے۔ ٹیکسی، کاریں شاندار معیار کی ہیں۔
بچوں نے والدین کی خاطر ایک ایک دن کی چھٹی لے لی۔ دبئی مال ہم دونوں نے پچھلے سال کئی مرتبہ خوب گھوم پھر کے دیکھا تھا۔ اس مرتبہ گئے تو معلوم ہوا کہ کئی حصے تو ابھی دیکھے ہی نہیں تھے۔ مال میں ہزاروں دکانیں ہیں۔ بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور اور درجنوں اچھے سے اچھے ریسٹورنٹ لیکن صفائی کا معیار نہایت اعلیٰ ہے۔ مجال ہے کہیں کوئی کچرا نظر آ جائے۔ ہر کوئی غیر ضروری چیزیں کوڑے دان میں ہی ڈالتا ہے۔ شاپنگ کے لیے لوکل کرنسی کی ضرورت پڑی تو پتہ چلا کہ سب بڑے بڑے بینک اور صراف یعنی منی چینجر مال میں موجود ہیں۔
ہم دبئی کے کائٹ بیچ) (Kite Beach پر موجود ہیں۔ یہ بیچ بُرج العرب سے زیادہ دور نہیں۔ ساحل سمندر بہت صاف ستھرا ہے۔ سمندر کا شفاف نیلگوں پانی بہت اچھا لگ رہا ہے۔ ساحل پر ہم نے آدھا گھنٹہ واک کی۔ غیر ملکی بڑی تعداد میں سمندر کے کنارے لیٹے ہوئے ہیں۔ ان میں خواتین و حضرات دونوں شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں گورے ہونے کا شوق ہے جبکہ مغربی لوگ بادامی رنگ پر فریفتہ ہیں۔ بادامی رنگ کے حصول کے لیے گھنٹوں سورج کی شعاعوں کا جسم پر پڑنا ضروری ہے۔ گورے کم سے کم لباس پہنے ریت پر چٹائیاں ڈال کر لیٹے ہوئے ہیں۔ ساحل پر ایک وسیع و عریض مسجد ہے۔ عصر کی اذان ہو رہی ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں نماز کے لیے مسجد جا رہے ہیں۔ گورے اپنی جگہ ریت پر لیٹے رہتے ہیں۔ نہ گوروں کو مسجد میں موجود نمازیوں سے کوئی خطرہ ہے اور نہ نمازیوں کو غیر مسلم گوروں سے۔ یہ برداشت اور رواداری دبئی کا طرۂ امتیاز ہے۔ کائٹ بیچ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ساحل کا کچھ حصہ ویک اینڈ پر پتنگ بازی کے لیے مختص ہوتا ہے۔
دبئی کے ٹیکسی ڈرائیوروں میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے۔ صوابی کا امجد خان ہمیں واپس شیخ زاید روڈ لا رہا ہے۔ امجد خان خوش مزاج اور باتونی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کام کیسا چل رہا ہے۔ امجد خان اپنے کام سے بہت خوش ہے۔ ٹیکسی اس کی اپنی ہے۔ دن کو وہ کام کرتا ہے‘ رات کو اس کا بھائی وہی ٹیکسی چلاتا ہے۔ امجد خان کہتا ہے کہ ہم دونوں بھائی تقریباً تیس ہزار درہم ماہانہ کما لیتے ہیں۔ اس میں سے دس ہزار خرچ نکال کر ہمیں بیس ہزار بچ جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہاں پٹرول پانی سے سستا ہے۔ مجھے دس ہزار کے اخراجات کی سمجھ نہیں آئی۔ جواب ملتا ہے کہ یہاں کوئی فارنر اپنی ذاتی ٹیکسی صرف اور صرف کسی لوکل ٹیکسی کمپنی میں شامل ہو کر ہی چلا سکتا ہے۔ کمپنی کو ہر ماہ ایک فکسڈ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ حکومت کو بھی ہر ماہ فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔ اگلا بڑا خرچ ٹول ٹیکس ہے۔ مگر مجھے تو یہاں کوئی ٹول پلازہ نظر نہیں آیا؟ معلوم ہوا کہ لاکھوں گاڑیوں کا ٹول ٹیکس سینکڑوں کیمرے اور کمپیوٹر خاموشی سے وصول کر لیتے ہیں۔ ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ کسی کو ٹول دینے کے لیے رکنا نہیں پڑتا۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ دبئی میں ٹیکنالوجی کا بہت مفید استعمال کیا گیا ہے۔ ایئر پورٹ اور دیگر عوامی مقامات پر پولیس بہت ہی کم نظر آتی ہے لیکن لوگ پولیس سے ڈرتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی ہے۔ مجھے بینکوں اور شاپنگ مال میں کوئی مسلح گارڈ نظر نہیں آیا؛ البتہ سی سی ٹی وی کیمرے ہر جگہ لگے ہوئے ہیں۔ دبئی پولیس کے پاس ایسا سوفٹ ویئر ہے جو کسی بھی مشکوک شخص کی ماضی کی نقل و حرکت کی ہسٹری بھی پیش کر دیتا ہے۔ یہاں غیر ملکی آبادی لوکل اماراتی لوگوں سے بہت زیادہ ہے؛چنانچہ ان کی سرگرمیوں پر خاموشی سے مگر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ امریکہ میں ایک عرب نوجوان نے ایک ایسا سوفٹ ویئر تیار کیا ہے جو چودہ غیر عربی زبانوں کا فوری ترجمہ عربی میں کر دیتا ہے۔ دبئی پولیس نے خطیر رقم دے کر یہ سوفٹ ویئر خریدلیا ہے۔ اب اسے سب مشکوک غیر ملکی لوگوں کی ٹیلی فون گفتگو کا لمحہ بہ لمحہ علم رہتاہے۔ پولیس اپنے اماراتیوں کی حرکات کا بھی بغور ملاحظہ کرتی رہتی ہے۔ قانون کا احترام کرنے والوں کو پولیس یا حکومت کا کوئی ادارہ تنگ نہیں کرتا۔
جمعہ کے روز پاکستان اور انگلینڈ کا ون ڈے میچ تھا۔ برخوردار غالب حفیظ نے پیشگی ٹکٹ خرید لیے ہیں۔ دبئی کا کرکٹ سٹیڈیم شاندار ہے۔ البتہ بٹلر نے پاکستانی بائولروں کی ایسی دھنائی کی کہ میچ کا مزا کرکرا ہو گیا؛ چنانچہ آدھا میچ ہم نے واپس گھر آ کر ٹی وی پر دیکھا۔ اگلے روز پتہ چلا کہ ماسکو سٹی بیلے والے مشہور اور سدا بہار ڈرامہ سلیپنگ بیوٹی (Sleeping Beauty) پیش کر رہے ہیں۔ امارات مال (Mall of Emirates) میں ایک بڑا تھیٹر غیر ملکی ڈراموں کے لیے مختص ہے۔ 'سلیپنگ بیوٹی‘ کی کہانی روایتی اور الف لیلوی ہے۔ آپ نے بچپن میں یہ کہانی ضرور سنی ہو گی۔ محل میں ننھی شہزادی کو عیسائی نام دینے کی رسم ہو رہی ہے۔ چیف آف پروٹوکول اہم پری کو مدعو کرنا بھول گئے۔ پری اچانک نمودار ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ شہزادی کو تیز سوئی سے تمام عمر خطرہ رہے گا۔ بادشاہ حکم دیتا ہے کہ محل میں ایک سوئی بھی نہ رہے۔ شہزادی جوان ہوتی ہے۔ اس کی خوبصورتی کے چرچے ہیں۔ متعدد شہزادے شادی کی خواہش لیے حاضر ہوتے ہیں۔ محل میں رقص کی محفل ہے۔ وہی پری انسان کے روپ میں موجود ہے ۔وہ شہزادی کو تحفہ دیتی ہے جس میں تیز سوئی پنہاں ہے۔ شہزادی تحفہ لیتے ہی بے ہوش ہو جاتی ہے اور بے ہوشی لمبا عرصہ چلتی ہے اور بالآخر اسے سب سے زیادہ چاہنے والا شہزادہ بوسہ دیتا ہے۔ شہزادی ہوش میں آ جاتی ہے اور دونوں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو جاتے ہیں‘ یعنی رجائیت نا امیدی پر غالب آ جاتی ہے۔
تیل کی عالمی قیمت کم ہونے سے خلیجی ممالک کو خاصا نقصان ہوا ہے۔ مگر دبئی کا انحصار تیل کی بجائے تجارت‘ شپنگ‘ بینکنگ اور سیاحت پر ہے۔ لہٰذا یہاں منفی اثرات کم نظر آتے ہیں۔ واپسی پر میں پھر ٹیکسی ڈرائیور سے گفتگو کر رہا ہوں۔ پتہ چلتا ہے کہ سرخ بتی کراس کرنے کا جرمانہ 2300 درہم یعنی پینسٹھ65 ہزار روپے ہے۔ جرمانہ کیمرہ کرتا ہے۔ جرمانہ ادا نہ کیا جائے تو کار کی رجسٹریشن منسوخ ہو جاتی ہے۔ قانون کی حکمرانی دبئی کی شاندار ترقی کا راز ہے۔ واپسی کی تیاری شروع ہے اور بیگم کہہ رہی ہیں کہ دبئی کے لیے دس دن بہت کم تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں