"JDC" (space) message & send to 7575

صاحبزادہ یعقوب علی خان

صاحبزادہ یعقوب خان کا انتقال ایک عہد کا اختتام ہے۔ مرحوم 1920ء میں ریاست رام پور کے حکمران خاندان میں پیدا ہوئے۔ اشرافیہ کی روایت کے مطابق پبلک سکول میں تعلیم حاصل کی اور برٹش آرمی جوائن کی۔ 1940ء میں ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی سے پاس آئوٹ کیا۔ رسالے کے افسر بنے جسے آج کل آرمرڈ کور کہا جاتا ہے۔ رسالے کے گھوڑ سوار اور تیر انداز موجودہ ٹینکوں کے پیش رو تھے۔ فوج کے اس حصے کی اپنی آن بان ہوتی تھی۔ عموماً اشرافیہ کے فرزند رسالے میں جاتے تھے کہ یہ گھروں سے یا پبلک سکولوں سے گھوڑ سواری سیکھ کر آتے تھے۔ 
سیکنڈ لیفٹیننٹ یعقوب خان کو کمشن کے فوراً بعد لیبیا کے محاذ پر بھیج دیا گیا۔ طبرق کی جنگ کے دوران اٹلی کے فوجی قیدی بنے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یحییٰ خان بھی اسی کیمپ میں قیدی تھے۔ صاحبزادہ یعقوب نے اٹالین زبان سیکھنا شروع کر دی جبکہ یحییٰ خان قید سے فرار کی ترکیبوں پر غور کرتے رہے۔ بالآخر یحییٰ خان قیدی کیمپ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے مگر صاحبزادہ صاحب زبان سیکھنے میں مصروف رہے۔ بعد میں جب بھی دونوں کی ملاقات ہوتی تھی یحییٰ خان اس واقعہ کا ذکر کر کے یعقوب صاحب کو ضرور چھیڑتے۔
1945ء میںقید سے رہائی ملی تو یعقوب خان کو لارڈ ماونٹ بیٹن کے باڈی گارڈ دستے میں پوسٹ کر دیا گیا۔ 1947ء میں صاحبزادہ یعقوب خان نے پاکستان کا انتخاب کیا جبکہ ان کے بھائی یونس خان نے انڈین آرمی میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاک فوج میں ان کی ترقی برق رفتار تھی۔ 1971ء کے اوائل میں وہ ڈھاکہ میں لیفٹیننٹ جنرل، کور کمانڈر، مارشل لاء ، ایڈمنسٹریٹر سبھی کچھ تھے بعد میں کچھ عرصہ کے لئے گورنر بھی بنے۔ جب یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کا فیصلہ کیا تو صاحبزادہ نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا اور فوج سے مستعفی ہو گئے۔ 
صاحبزادہ یعقوب خان صحیح معنوں میں ہفت زبان تھے۔ اردو اور انگریزی کے علاوہ روسی، اطالوی، فرانسیسی اور بنگالی زبانوں پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ فارسی کی بھی کچھ واقفیت تھی کہ ان کی نصف بہتر ایرانی النسل ہیں۔ مجھے انہیں سعودی عرب میں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ موصوف 1990ء میں وزیر خارجہ تھے جب پاکستان ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کی کوشش کر رہا تھا۔ رائل گیسٹ پیلس میں فراغت کے اوقات میں عربی زبان کے قواعد، مخارج اور افعال کی گفتگو ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ میں عربی دان ہوں تو اکثر مجھ سے مختلف افعال کے مادے یعنی فعل ثلاثی کے بارے میں ضرور پوچھتے۔ فعل ثلاثی کی پہچان عربی قواعد یعنی گرامر کی بنیاد ہے۔
ملٹری ہسٹری سے لے کر سفارت کاری تک سب علوم سے خوب واقف تھے۔ آخری سالوں میں فلسفہ ان کا محبوب موضوع تھا۔ مختلف موضوعات پر گھنٹوں بے تکان بول سکتے تھے۔ 1972ء میں فرانس میں سفیر مقرر ہوئے اور پھر روس اور امریکہ میں سفارتی خدمات سر انجام دیں۔ 1982ء میں وزیر خارجہ بنے اور 1991 ء تک بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا معتبر اور محترم چہرہ تھے۔ پھر معلوم نہیں کس نے مشورہ دیا کہ آپ شمشیر زن کے علاوہ صاحب علم بھی ہیں آپ کو یونیسکو کا ڈائریکٹر جنرل ہونا چائیے۔ اس عہدہ کے لئے الیکشن لڑنا پڑتا ہے۔ پاکستا ن مخالف لابی نے پروپیگنڈا کیا کہ دنیا کی سب سے بڑی تعلیمی تنظیم کا سربراہ فوجی بیک گرائونڈ کا نہیں ہونا چائیے؛چنانچہ صاحبزادہ یعقوب خان یہ الیکشن ہار گئے۔ لیکن یہ شکست ان کی شخصیت کو نہ گہنا سکی بعد میں یو این کے سیکرٹری جنر ل نے مغربی صحارا یعنی مراکش اور الجزائر کے درمیان تنازعے کے حل کے لئے انہیں اپنا خاص نمائندہ مقرر کیا۔
جب موصوف 1982ء میں وزیر خارجہ بنے تو میں فارن آفس میں نسبتاً جونیئر افسر تھا۔ ان دنوں فارن آفس میں لیٹ بیٹھنے کی سمجھ لیں کہ بیماری تھی۔ کچھ لوگ تو واقعی کام کی زیادتی کی وجہ سے لیٹ بیٹھتے تھے مگر کئی ایک جعلی عکس ڈالنے یا سینئرز کو مرعوب و متاثر کرنے کے لئے دیر سے گھر جاتے تھے۔ صاحبزادہ یعقوب خان نے چارج لینے کے بعد افسروں سے خطاب کیا اور واشگاف لفظوں میں کہا کہ جو افسر دفتری اوقات کے بعد بھی آفس میں پائے گئے میں سمجھوں گا کہ ان میں وقت پر کام مکمل کرنے کی صلاحیت کافقدان ہے اس کے بعد فارن آفس خاصا نارمل ہو گیا۔
صاحبزادہ یعقوب خا ن نے کافی لیٹ شادی کی۔ شادی کی تقریب ہالینڈ میں ہوئی۔ قدرت اللہ شہاب ان دنوں ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ شہاب صاحب اس خانہ آبادی کے گواہان میں شامل تھے۔ دور سے دیکھنے والوں کو صاحب زادہ بہت رعب دار شخصیت معلوم ہوتے تھے لیکن جب پاس سے دیکھا توتواضع اور خوش اخلاقی کا مجسمہ نظر آئے۔ اچھے خاندانوں والی وضع داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ دوستوں اور ماتحتوں کی مدد کو ہمیشہ تیار رہتے تھے۔
جب وزیر خارجہ تھے تو رفعت مہدی ان کے دفتر کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ بعد میں یہ پوزیشن طارق فاطمی نے سنبھالی۔ دونوں فارن سروس کے شاندار افسر مانے جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں کی تربیت میں صاحبزادہ صاحب کی مصاحبت کا خاص دخل ہے۔ رفعت صاحب نے مجھے ایک دلچسپ قصہ سنایا۔ امریکی سفیر نے وزیر خارجہ کو ڈنر پر بلایا اور وہ چلے گئے۔ چند روز بعد پھر امریکی سفیر کی طرف سے دعوت نامہ آ یا۔ رفعت صاحب نے وزیر خارجہ کو بتائے بغیر معذرت بھیج دی۔ بعد میں صاحبزادہ یعقوب خان کو کہاکہ اتنے تواترسے آپ کا امریکی سفیر کے گھر جانا اچھا نہیں لگتا۔ رفعت صاحب کا خیال تھا کہ اب مجھے ڈانٹ پڑے گی لیکن فارن منسٹر مسکرا دئیے۔ مرحوم بے حد شفیق انسان تھے۔ 
اسلام آباد میں سابق سفراء کی ایسوسی ایشن ہے میں اس کا ممبر ہوں۔ ہمارا ہر مہینے ایک ڈنر ہوتا ہے۔ صاحبزادہ یعقوب خان پچھلے سال تک یہاں اکثر آیا کرتے تھے۔ ہر کولیگ کی خواہش ہوتی تھی کہ اُن کی میز پر بیٹھے کہ موصوف معلومات کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ پاکستان کی تاریخ کے کئی نازک موڑ ان کے دیکھے بھالے تھے۔ ایک مکمل تاریخ ان کے سینے میں دفن تھی۔ آخر تک دبلے پتلے خمیدہ کمر نہ ہوئے۔ اور اس بات کا راز ان کی باقاعدگی اور اچھی عادات میں مضمر تھا۔ سالہا سال تک میریٹ ہوٹل میں پیراکی کے لئے جاتے رہے۔ آخری سالوں میں نظر کمزور ہو رہی تھی اخبار پڑھنا دشوار ہو رہا تھا تو فارن آفس کے ایک ریٹائرڈ پرائیوٹ سیکرٹری کی ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی کہ گھر آکر اہم خبریں پڑھ کر سنائے۔
صاحبزادہ یعقوب خان جنرل ضیاء الحق بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف تینوں کے ساتھ وزیر خارجہ رہنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ آٹھ وزارتوں یعنی کابینائوں میں کام کیا۔ افغانستان میں جنگ اور پھر امن کی تلاش کے عینی شاہد تھے۔ سیدھے تن کر چلتے تھے اور عزت سے زندگی گزاری۔ فارن منسٹر اتنے بیرونی دورے کرتا ہے کہ ہر وقت ٹی اے بل بنتے رہتے ہیں۔ اپنے سٹاف کو کہتے تھے کہ جہاں خیال آئے کہ ٹی اے کم بنتا ہے وہاں کم ہی پے منٹ کریں یعنی حکومت سے ایک پیسہ فالتو لینے کے روادار نہ تھے۔ مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن نہ کرنے کا ان کا فیصلہ، صاحبزادہ یعقو ب خان کا سیاسی قد بڑھا گیا فوج سے فارغ ہوئے تو لمبی اور کامیاب سفارتکاری کی۔ پوری دنیا میں اپنے لئے اور پاکستان کے لئے عزت سمیٹی۔ ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں