"JDC" (space) message & send to 7575

جنیوا مذاکرات، افغانستان اور پاکستان

پچھلے دنوں ایک ٹی وی چینل پر صاحبزادہ یعقوب خان کے بارے میں ٹاک شو ہو رہا تھا۔ دوران گفتگو طارق فاطمی صاحب نے جنیوا معاہدے کے بارے میں صدر ضیاء الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے مابین اختلافات کا ذکر کیا۔ صدر ضیاء الحق کا مؤقف تھا کہ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے‘ اس بات کا انتظار کرنا چاہیے کہ کابل میں کوئی ایسی حکومت بن جائے جو پاکستان مخالف نہ ہو اور یہ کہ افغان مہاجرین کی واپسی بھی جنیوا معاہدے کا حصہ ہونی چاہیے۔ فاطمی صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ سویلین حکومت کے خیالات جنرل ضیاء الحق سے مختلف تھے۔ یہاں تک تو بات درست اور حقائق کے مطابق تھی‘ پھر فاطمی صاحب نے اضافہ کیا کہ ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی رائے درست تھی۔
مجھے فاطمی صاحب کی رائے سے اختلاف ہے اور سچ پوچھیے تو مجھے خاصی مایوسی بھی ہوئی‘ کیونکہ فاطمی صاحب پاکستانی فارن پالیسی کی جزئیات اور کلیات سے خوب واقف ہیں‘ ماسکو میں دو دفعہ پوسٹ ہوئے‘ جنیوا مذاکرات کے شاہد بھی ہیں۔ بادی النظر میں ہمیں جنرل ضیاء الحق کی رائے بہت صائب لگتی ہے‘ لیکن کیا ان کی رائے کا زمینی حقائق سے بھی کوئی تعلق واسطہ تھا جو 1988ء کے اوائل میں افغانستان میں صاف نظر آ رہے تھے؟ کیا فارن پالیسی غیر عملی خواہشات کا تعاقب ہے؟ کیا 1988ء میں یہ پاکستان کے بس میں تھا کہ جنیوا معاہدے پر دستخط ملتوی کرا سکے‘ تاآنکہ جنرل ضیاء الحق کی خواہشات یا مطالبات پر عمل ہو جاتا۔ اس زمانے کی افغان صورت حال پر غور کریں تو لگتا ہے کہ جونیجو صاحب کی پوزیشن زیادہ حقیقت پسندانہ تھی۔
اس سلسلہ میں سب سے دلچسپ پوزیشن سوویت یونین کی محسوس ہوتی ہے۔ 1982ء سے لے کر 1988ء تک ماسکو کے مؤقف میں بڑی واضح تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ نومبر 1982ء تک سوویت پوزیشن سخت اور جامد تھی۔ ماسکو کا خیال تھا کہ جدید ہتھیاروں سے لیس سوویت فوج پھٹے پرانے کپڑوں والے افغان مجاہدین کو شکست دینے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔ نومبر 1982ء میں سوویت لیڈر برزنیف نے وفات پائی‘ تو صدر ضیاء الحق ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے ماسکو گئے۔ وہاں ان کی ملاقات نئے لیڈر آندروپوف سے ہوئی۔ پاکستانی صدر کو محسوس ہوا کہ روسی رویے میں افغانستان کے حوالے سے کچھ لچک آئی ہے۔ 1989ء کے آغاز میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس بات کو کنفرم کیا کہ نئی روسی قیادت کے خیالات بدل رہے ہیں۔ آندروپوف نے سیکرٹری جنرل کو بتایا کہ روسی جانوں کا ضیاع، جنگ میں درکار مالی وسائل، علاقائی کشیدگی میں اضافہ، عالمی امن اور صلح کو نقصان‘ اور تیسری دنیا میں سوویت یونین کے خلاف پائے جانے والے جذبات نے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آیا واقعی افغانستان میں جنگ جاری رہنا چاہیے یا کوئی پُرامن حل تلاش کرنا چاہیے۔
1986ء تک جنیوا امن معاہدے کی عبارت لکھی جا چکی تھی۔ جنیوا مذاکرات تقریباً چھ سال جاری رہے‘ اور اس عرصے میں بات چیت کے بارہ ادوار ہوئے۔ یہ بات چیت بالواسطہ یعنی ان ڈائریکٹ ہوتی تھی۔ اقوام متحدہ کے نمائندے پاکستان اور افغانستان کے وفود کے درمیان پیغام رسانی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے کابل کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا‘ کیونکہ یہ حکومت روسی قبضے کے نتیجے میں بنی تھی۔ 1986ء میں اقوام متحدہ کے نمائندے کارڈوویز نے بیان دیا کہ معاہدہ مکمل ہے‘ اس میں بیرونی افواج کے انخلا کا ٹائم فریم درج کرنا باقی ہے۔
ٹائم فریم والا معاملہ بھی دلچسپ رہا۔ یہاں بھی سوویت پوزیشن بدلتی رہی۔ 1986ء میں ماسکو کا بیان آیا کہ معاہدے پر دستخط کے بعد چار سال کے عرصے میں ہماری فوجیں افغانستان سے چلی جائیں گی‘ جبکہ پاکستان کی ڈیمانڈ تھی کہ سوویت افواج معاہدے کے بعد تین ماہ میں رخصت ہو جائیں۔ 1987ء میں ماسکو نے کہا کہ ہم ڈیڑھ سال کے عرصے میں انخلا کر لیں گے‘ جبکہ پاکستان نے اب سات ماہ کے عرصے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ 1987ء کے موسم گرما میں سوویت فوجوں کو افغان جنگ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اب میخائل گورباچوف سوویت لیڈر تھے۔ انہیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ افغانستان میں فوجی مداخلت غلطی تھی۔ گورباچوف سوویت یونین میں اقتصادی اور جمہوری اصلاحات کے داعی تھے۔ اندرونی اصلاحات کے لیے ضروری تھا کہ سوویت یونین جلد از جلد افغانستان کے سر درد سے نجات پا لے۔ دسمبر 1987ء میں گورباچوف نے اعلان کیا کہ جنیوا معاہدے پر دستخط کے بعد ایک سال کے اندر اندر سوویت فوجیں چلی جائیں گی۔ اس وقت تک افغانستان میں پندرہ ہزار سوویت فوجی مارے جا چکے تھے اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ فروری 1988ء میں سوویت یونین کے سیکرٹری خارجہ یولی وارنٹوسوف پاکستان آئے۔ صدر ضیاء الحق سے ان کی ملاقات ہوئی۔ جنرل صاحب نے کہا کہ جنیوا مذاکرات کا فائنل رائونڈ ملتوی کر دینا چاہیے۔ اب ماسکو کے صبر کی انتہا ہو چکی تھی۔ روسی خارجہ سیکرٹری نے جنرل ضیاء الحق سے کہا کہ گزشتہ آٹھ سال سے آپ ہم سے افغانستان چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اب آپ کی پوزیشن میں تبدیلی میری سمجھ سے باہر ہے۔
صدر ضیاء الحق کا خیال تھا کہ نجیب اللہ اور مجاہدین مل کر ایک ایسی حکومت بنائیں‘ جس میں مجاہدین کا پلڑا بھاری ہو، لیکن گلبدین حکمت یار پروفیسر برہان الدین ربانی اور مولوی یونس خالص کا خیال تھا کہ جب بیرونی افواج چلی جائیں گی‘ تو کابل میں نجیب اللہ کی حکومت دھڑام سے گر جائے گی‘ لہٰذا افغان تنظیمات بھی مکمل یک سوئی سے چاہتی تھیں کہ جنیوا کا امن معاہدہ جلد از جلد ہو جائے تاکہ سوویت افواج کا انخلا شروع ہو سکے۔ مجاہدین کی نظریں تخت کابل پر تھیں۔ صدر ضیاء الحق کی مذاکرات کے فائنل رائونڈ کو ملتوی کرنے کی تجویز انہیں بھی پسند نہ آئی۔ ادھر افغانستان میں پراکسی وار پر امریکہ کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ 1985ء میں امریکہ نے افغان تنظیمات کو اسلحہ سپلائی کے لیے دو سو پچاس (250) ملین ڈالر دیے تھے۔ 1986ء میں یہ رقم بڑھ کر 470 ملین ڈالر ہو گئی‘ جبکہ 1987ء میں یہی اخراجات چھ سو تیس(630) ملین ڈالر کو پہنچ گئے۔ گویا امریکہ کو بھی یہ جنگ مہنگی پڑ رہی تھی۔ دوسرے امریکہ بہادر کی یہ شدید خواہش تھی سوویت فوجیں جلد افغانستان سے نکلیں تاکہ ویت نام کی ہزیمت کا حساب برابر ہو سکے۔
وزیر اعظم جونیجو خود صدر ضیاء الحق کی نئی ڈیمانڈ کی وجہ سے حیران تھے۔ ان کے نزدیک معاہدے پر دستخط سے پہلے کابل میں مخلوط حکومت کے قیام کی شرط قابل عمل نہ تھی کیونکہ اکثر افغان اپوزیشن کے لیڈر ایسی حکومت کے خلاف تھے۔ جونیجو صاحب بھی اس بات پر حیران تھے کہ پاکستان شروع سے سوویت فوجوں کے فوری انخلا کی بات کرتے کرتے اب معاہدے پر دستخط ملتوی کرنے کا مطالبہ کیسے کر سکتا ہے‘ کیا بین الاقوامی برادری میں اس کا مذاق نہیں اڑے گا؟
اس صورت حال میں جب سوویت یونین‘ امریکہ‘ افغان مجاہدین لیڈر اور وزیر اعظم جونیجو سب اس حق میں تھے کہ جنیوا امن معاہدہ جلد از جلد پایۂ تکمیل کو پہنچے‘ تو صدر ضیاء الحق اسے کیسے روک سکتے تھے۔ اسی وجہ سے مجھے طارق فاطمی صاحب کی رائے سے شدید اختلاف ہے۔ صدر ضیاء الحق کی تجویز اچھی ضرور لگتی ہے لیکن وہ بدقسمتی سے قابل عمل نہ تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں