"JDC" (space) message & send to 7575

نیو کلیئر سپلائرز گروپ

نیو کلیئر سپلائرز گروپ اڑتالیس ملکوں کی تنظیم ہے جس کا بنیادی مقصد ایٹمی مواد اور مشینری کی تجارت کو ریگولیٹ کرنا اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنا ہے۔ یہ گروپ 1974ء میں انڈیا کے ایٹمی تجربے کے فوراً بعد بنا۔ بین الاقوامی برادری میں اس وقت اس بات پر غصہ تھا کہ انڈیا نے کینیڈا اور امریکہ سے جو ایٹمی اشیا پر امن استعمال کے لیے لی تھیں وہی اس نے ایٹمی تجربے کی تکمیل کے لیے استعمال کیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اندرا گاندھی نے اس تجربے کو پر امن کہا تھا اور اسے''مسکراتا بدھا‘‘ (Smiling Budha)کا نام دیا تھا۔ آج وہی انڈیا دھڑا دھڑ ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔ پچھلے ماہ اس نے این ایس جی کی ممبر شپ کے لیے باقاعدہ درخواست دے دی ہے اور اسے امریکہ کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انڈیا جس کی 1974ء والی حرکت انٹرنیشنل کمیونٹی کو بالکل پسند نہیں آئی تھی آج وہی ممالک انڈیا کو این ایس جی میں لانا چاہتے ہیں۔ اس یو ٹرن کی وجوہات کا کھوج ضروری ہے، لیکن اس سے پہلے این ایس جی کی مزید تشریح ضروری ہے۔ سپلائرزگروپ ان ممالک پر مشتمل ہے جو ایٹمی ٹیکنالوجی کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتے ہیں یا برآمد کر سکتے ہیں۔ اس گروپ کا ممبر بننے کے لیے جوہری ہتھیاروں کی ملکیت ضروری نہیں، مثلاً جاپان این ایس جی کا ممبر ہے مگر اس کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں، لیکن جاپان کے پاس ایٹمی بجلی گھر کئی ہیں۔ اس گروپ میں ایٹم کے پر امن استعمال کی ہی بات ہوتی ہے ہتھیاروں کی نہیں۔ ہتھیاروں کے بارے میں بات چیت اور قوانین بنانا آئی اے ای اے کا تخصّص ہے۔ این ایس جی کو ایک زمانے میں لندن کلب بھی کہا جاتا تھا کیونکہ جب اس گروپ کے ابتدائی اصول طے ہو رہے تھے تو بہت ساری میٹنگز لندن میں ہوئی تھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس گروپ میں بات چیت پر امن ایٹمی استعمال کے لیے یا پر امن مقاصد کے حصول کے لیے تجارت کے حوالے سے ہوتی ہے تو انڈیا کو ممبر شپ کی خواہش کیوں ہے؟ اس کے دو جواب ہیں۔ اوّل تو یہ کہ انڈیا ہر اس گروپ میں داخل ہونے کا خواہش مند ہے جہاں اس کا قد کاٹھ عالمی برادری میں ذرا اونچا ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ این ایس جی کی ممبر شپ گروپ کے ارکان کو اجازت دیتی ہے کہ وہ آپس میں پر امن مقاصد کے لیے ایٹمی مواد یا ٹیکنالوجی کی تجارت کریں۔ امریکہ‘روس‘برطانیہ اور فرانس اپنے ایٹمی پاور سٹیشن انڈیا کو بیچنا چاہتے ہیں، لہٰذا یہ چاروں ممالک انڈیا کی ممبر شپ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ آج کے خارجہ تعلقات اخلاقی اصولوں پر نہیں بلکہ مفادات کے غلام نظر آتے ہیں۔
این ایس جی کی ممبر شپ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ ممالک جنہوں نے ایٹمی عدم پھیلائو یعنی NPT کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے وہ اس گروپ کے ممبر نہیں بن سکتے۔ اس معاہدے پر انڈیا، پاکستان اور اسرائیل نے دستخط نہیں کئے۔ جب بھی انڈیا کی ممبر شپ کی بات چلی ہے تو چین نے یہی ٹیکنیکل اعتراض اُٹھایا ہے مگر امریکہ انڈیا کو استثنا دلانے پر تُلا ہوا ہے۔ پچھلے ماہ جب انڈیا نے اس گروپ کی ممبر شپ کی درخواست دی تو ایک ہفتے بعد پاکستان نے بھی اپلائی کر دیا، اس سے صورت حال خاصی دلچسپ ہوگئی ہے۔ کسی بھی نئے ملک کو ممبر شپ دینے کے لیے اتفاق رائے کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ انڈیا اور پاکستان کی ممبر شپ کے لیے درخواست کے بعد نظر آ رہا ہے کہ چین اس بات پر مصر ہو گا کہ دونوں ممالک کے لیے ایک ہی معیار اپنایا جائے۔ انڈیا اور پاکستان دونوں کو ممبر شپ کی خواہش اس لیے بھی ہے کہ انہیں ذمہ دار ایٹمی قوتوں کے طور پر بلا واسطہ تسلیم کر لیا جائے گا اور سویلین ایٹمی تجارت کی اجازت پا کر دونوں ممالک ایٹمی انرجی یا بجلی پر مزید توجہ دے سکیں گے۔ 2050ء میں پاکستان کی بجلی کی ضرورت چالیس ہزار میگاواٹ ہو گی، لہٰذا پاکستان کو ہائیڈل اور تھرمل کے علاوہ ایٹمی، ہوائی اور سولر تمام قسم کی انرجی کی ضرورت ہوگی۔
2008ء میں این ایس جی نے انڈیا کو کسی حد تک ایٹمی تعاون کے لیے قبول کر لیا کہ انڈین ایٹمی پروگرام کے ان حصوں سے تعاون ممکن ہے جو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے حفاظتی نظام کے تابع ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھی انڈیا کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس نے کئی ممالک کے لیڈروں کو انڈیا کی حمایت کے لیے فون کئے۔
اور اب انڈیا نیو کلیئر سپلائرز گروپ کا مکمل ممبر بننا چاہتا ہے۔ اسی مہینے گروپ کی میٹنگ کوریا میں متوقع ہے۔ ابھی بچھلے مہینے انڈین صدر پرناپ مکھرجی چین کا دورہ کر کے آئے ہیں اور وہاں یہ مطالبہ کیا کہ ممبر شپ کے معاملے میں پاکستان اور انڈیا کو نتھی نہ کیا جائے۔ چینی لیڈر خاموش رہے اور لگتا ہے کہ وہ اپنے اصولی سٹینڈ پر قائم رہیں گے۔ گروپ کوچاہیے کہ وہ انڈیا اور پاکستان کو ایک نظر سے دیکھے اوردونوں میں امتیاز نہ برتے۔
یہاں امریکن سینیٹر ایڈ مار کے کا ذکر ضروری ہے جو پاکستان کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ سینیٹر مار کے کا کہنا ہے کہ اگر صرف انڈیا کو اس گروپ کی ممبر شپ دی گئی تو پاکستان میں عدم تحفظ کا احساس بڑھے گا اور جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ تیز تر ہو جائے گی، لیکن سینیٹر ایڈ مار کے کی آواز نقار خانے میں طوطی کا شور لگتی ہے۔ امریکی کانگریس میں انڈیا کا اثر رسوخ کافی پھیل چکا ہے جیسا کہ ہم نے ایف سولہ جہازوں کے معاملے میں دیکھا ہے۔
مغربی سفارت کاروں سے امتیازی سلوک کا گلہ کیا جائے تو وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان نے ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی بہم پہنچائی۔ انہیں اگر یہ کہا جائے کہ وہ بات پرانی ہو چکی، ایٹمی سکیورٹی اور سیفٹی میں پاکستان کا ریکارڈ انڈیا سے کہیں بہتر ہے تو وہ سُنی ان سُنی کر دیتے ہیں۔
آج کے بین الاقوامی تعلقات کے معیار مفاد پرستی پر قائم ہیں۔ لگتا ہے کہ مغربی ممالک پاکستان کو ایٹمی قوت کے طور پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ایسی صورت میں صرف چین بطور مخلص دوست ہمارا ساتھ دے رہا ہے، نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں بھی اور چشمہ اور کراچی میں پلانٹ لگا کر بھی۔ پچھلے دنوں میری ایک ایٹمی سائنسدان سے بات ہو رہی تھی، وہ کہہ رہے تھے کہ خود انحصاری ہمارے لیے اشد ضروری ہے۔ ہم کراچی میں کینوپ کا پلانٹ خود پرزے تیار کر کے چوالیس سال سے چلا رہے ہیں جو کہ ورلڈ ریکارڈ ہے۔ پاکستان میں باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں