"JDC" (space) message & send to 7575

بابے‘ بیورو کریسی اور بیڈ گورننس۔۔۔۔(آخری قسط)

پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ محتسب اعلیٰ کے دفتر میں ریٹائرڈ لوگوں کو دوبارہ سروس دینے کا عمل اتنا شفاف نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔ رئوف چوہدری اس عمل کی صدارت کرتے ہیں۔ وہ خود شریف اور نیک نام افسر رہے ہیں لیکن وہ ٹیکس کے معاملات میں بے حد مصروف ہوتے ہیں۔ اکثر انٹرویو سینئر ایڈوائزر یعنی بابے لیتے ہیں جو خود محتسب اعلیٰ سلمان فاروقی کے مکمل کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ یہ دفتر جمہوری ملک میں ایک بادشاہت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پچھلے سال ایک ریٹائرڈ سفیر کو سینئر ایڈوائزر رکھا گیا اور یہ سفیر صاحب بڑے صاحب کے رشتہ دار ہیں۔
میں پچھلے تین سال میں دو کیسوں کے سلسلہ میں وفاقی محتسب کے دفتر جاتا رہا ہوں۔ یہاں افسر بہت تجربہ کار ہیں لیکن بیشتر عمر عزیز کے اس حصے میں ہیں جب انہیں اللہ اللہ کرنا چاہیے۔ ان کے کچھ فیصلے اچھے ہوتے ہیں اور بعض ناقص لیکن مشکل یہ ہے کہ فیصلوں کو تنفیذ(Implementation) صحیح طریقے سے نہیں ہو پاتی۔ سرکاری محکمے محتسب اعلیٰ کے دفتر میں آ کر وعدے کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لیے محتسب اعلیٰ کو توہین عدالت کی پاور بھی دی گئی لیکن نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکلا۔
میں مشاہدے کی بنا پر جس کیس کا ذکر کروں گا وہ اجتماعی نوعیت کا تھا، میرا ذاتی کیس نہیں تھا۔ محتسب اعلیٰ کے دفتر میں کسی سے ذاتی پرخاش نہیں بلکہ وہاں کئی اچھے دوست موجود ہیں جو بہت خوش اخلاقی سے ملتے ہیں۔ ستر سالہ ہونے کے ناتے سے میں جاب کے لیے کوالیفائی تو کرتا ہوں لیکن یقین مانیے سول سروس کے چوہے دان سے نکل کر پچھلے نو سال میں عجیب راحت محسوس ہوئی ہے، بہت سکون ملا ہے۔ پنشن اور ملک کے اندر اور باہر کالم نگاری سے اتنا مل جاتا ہے کہ گزارہ الحمد للہ بہت اچھا چل رہا ہے۔ 
مارچ 2015ء کی بات ہے، محتسب اعلیٰ کے دفتر میں ایک بڑی میٹنگ ہو رہی ہے۔ ریٹائرڈ کیپٹن آغا ندیم صدارت کر رہے ہیں۔ آغا ندیم فوج سے سول سروس میں انڈکٹ ہوئے اور سول سروس سے ریٹائر ہو کر وفاقی محتسب کے دفتر میں سینئر عہدے پر فائز ہوئے۔ جی ـ 13 کا معاملہ پیش ہے۔ سیکٹر میں 2010ء سے 2015ء تک دو عملی رہی۔ ملکیت ہائوسنگ فائونڈیشن کے پاس تھی جبکہ روزمرہ کے فرائض مثلاً سیوریج، صفائی، سڑکوں کی مرمت، پانی کی فراہمی سی ڈی اے کے ذمہ تھی۔ دو ملائوں میں مرغی حرام ہو رہی تھی، عجیب کنفیوژن تھی۔ اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا تھا۔ کیپٹن آغا ندیم کی رائے تھی کہ سیکٹر مکمل طور پر ہائوسنگ فائونڈیشن کو دے دیا جائے کیونکہ ملکیت فائونڈیشن کے پاس ہے اور سیکٹر اسلام آباد کی میونسپل حدود سے باہر ہے۔ جی ـ 13 کے مکینوں کی نمائندگی میڈم سائرہ کریم کر رہی تھیں۔ انہوں نے بآواز بلند اس رائے کی مخالفت کی اور کہا کہ سیکٹر کے اصل مالک اُس کے الاٹی ہیں جو نہ صرف زمین کی قیمت ادا کر چکے ہیں بلکہ دو مرتبہ ڈویلپمنٹ چارجز بھی دے چکے ہیں۔ دوسرا استدلال ان کا یہ تھا کہ میونسپل حدود کوئی صحیفۂ آسمانی نہیں، شہر جی ٹی روڈ سے آگے نکل چکا ہے، لہٰذا دارالحکومت کی میونسپل حدود تبدیل ہونا لازمی امر ہے۔ تیسری دلیل ان کی یہ تھی کہ ہائوسنگ فائونڈیشن ایک کمپنی ہے جس کے پاس کوئی انتظامی پاورز نہیں نہ اس کے پاس گھروں کے نقشے پاس کرنے کی صلاحیت ہے، فائونڈیشن کا انجینئرنگ ونگ بہت کمزور ہے اور پھر کیا یہ ضروری ہے کہ اسلام آباد میں ایک اور سی ڈی اے کھڑی کر دی جائے۔
میڈم سائرہ کریم کی باتوں میں وزن تھا۔ لیکن جواب ملا کہ سیکٹر اگر سی ڈی اے کو دیا گیا تو قانونی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ فائونڈیشن کے ڈی جی وقاص علی محمود میٹنگ میں موجود تھے، اُن کا کہنا تھا اگرچہ فائونڈیشن کے پاس بعض وسائل کی کمی ہے لیکن ہم کافی سارا کام آئوٹ سورس کر دیا کریں گے۔ فائونڈیشن کے ڈائرکٹر پرویز خان صافی اپنے ڈی جی کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ میں اس میٹنگ میں موجود تھا اور میں ڈی جی کی رائے کے خلاف کھل کر بولا۔ میرا استدلال یہ تھا کہ فائونڈیشن کے پاس سیکٹر چلانے کا تجربہ نہیں اور یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ ہماری رائے کو زیادہ وزن نہ ملا اور فیصلہ ہوا کہ جی ـ 13 سیکٹر مکمل طور پر ہائوسنگ فائونڈیشن کے پاس ہو گا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ایک ماہ بعد دوبارہ میٹنگ ہوگی تاکہ پراگریس کا جائزہ لیا جا سکے۔
وہ میٹنگ جو ایک ماہ بعد ہونا تھی وہ چودہ ماہ بعد وفاقی محتسب کے دفتر میں ہوئی۔ میں اس میٹنگ میں جی ـ 13 کے مکینوں کے نمائندہ کے طور پر موجود تھا۔ میرے ساتھ دلشاد خان تھے جو بیرونی میڈیا کے ساتھ لمبا عرصہ کام کر چکے ہیں۔ ڈی جی وقاص علی محمود نے کہا، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میری تنظیم کے پاس اس سیکٹر کو چلانے کی صلاحیت نہیں۔ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے کہا وقاص صاحب یہ بات تو ہم نے آج سے چودہ ماہ پہلے اسی کمرے میں کہی تھی۔ اب فیصلہ ہوا کہ سی ڈی اے کو اس سیکٹر میں دوبارہ رول دیا جائے۔ اس چودہ ماہ کے عرصہ میں سیکٹر کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، سیوریج کئی جگہ سے بہہ رہا ہے۔ ہیوی ٹرک اور ٹرالر دن رات چلتے ہیں۔ سٹریٹ لائٹ اب تک نہیں لگی، رات کو چور ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں۔ سیکٹر کی آبادی اس وقت پندرہ ہزار ہے لیکن ایک بھی سرکاری سکول نہیں اور نہ کوئی ہسپتال۔ ہمسایہ سیکٹر جی ـ 14 کے حالات اس سے بدتر ہیں۔ وقاص علی محمود اور کیپٹن آغا ندیم کے درمیان ڈی ایم جی قدر مشترک ہے۔ جب وقاص صاحب نے اعلان کیا کہ میری تنظیم کے پاس سیکٹر چلانے کی صلاحیت نہیں تو کیپٹن صاحب گویا ہوئے میں آپ کی اخلاقی جرأت کی داد دیتا ہوں۔ یہ ڈی ایم جی مافیا بھی بہت بڑی انجمن ستائش باہمی بن چکا ہے، کسی مہذب ملک میں ہوتے تو دونوں سے بازپرس ہوتی کہ دونوں نے بیڈ گورننس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ 2008ء میں ہائوسنگ فائونڈیشن میں کل 96 لوگ کام کرتے تھے، آج یہ تعداد چار سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ لوگ سفارشیں کرا کے فائونڈیشن میں جاب لیتے ہیں۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں ڈیڑھ سے دو سال میں اسلام آباد میں پلاٹ مل جاتا ہے۔ سیاسی بھرتیوں نے اس آفس کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ فیصل صالح حیات وزیر ہائوسنگ بنے تو جھنگ سے بھرتیاں ہونے لگیں اور یہ روایت بعد میں بھی قائم رہی۔ فائونڈیشن کے ملازموں کی تنخواہ اور الائونس باقی محکموں سے دوگنے ہیں۔ ہر ڈائرکٹر جو عمومی طور پر گریڈ اٹھارہ یا انیس کا افسر ہوتا ہے کے پاس گرین نمبر پلیٹ والی ٹویوٹا کرولا ہے اور آپ کو حیرانی ہو گی کہ بیڈ گورننس کی شاہکار اس تنظیم کے افسر سرکاری ہسپتالوں میں علاج نہیں کراتے‘ وہ اسلام آباد کے مہنگے ترین پرائیویٹ ہسپتال شفا انٹرنیشنل جا سکتے ہیںکیونکہ فائونڈیشن ایک کمپنی ہے مگر جب پلاٹ لینے کی باری آتی ہے تو یہ لوگ گورنمنٹ سرونٹ بن جاتے ہیں۔ 
وقاص علی محمود نے تقریباً دو سال پہلے فائونڈیشن کے ڈی جی کا عہدہ سنبھالا۔ اُس وقت وہ گریڈ انیس کے افسر تھے۔ ان سے پہلے اس سیٹ پر گریڈ بیس اور اکیس کے افسر رہے ہیں۔ میرے ایک دوست جو تجربہ کار انجینئر ہیں وہ کہا کرتے ہیں کہ پاکستان میں ڈی ایم جی افسر کی حیثیت جوکر والی ہے جو تاش کے پتوں میں ہر جگہ فٹ ہو جاتا ہے۔ لیکن یقین مانیے وقاص کی تقرری ہوئی تو مجھے خوشی ہوئی۔ ایک تازہ دم جوان افسر، خوش شکل اور خوش گفتار، کچھ کرنے کا عزم، انگریزی اچھی اور کمپیوٹر کے ذریعے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بہت متاثر کرنے والی، لیکن بعد میں پتا چلا کہ موصوف فیصلے کرنے سے خائف رہتے ہیں۔ ماتحتوں پر اعتبار نہیں کرتے، ماتحت کوئی تجویز دیں تو پلیز ڈسکس لکھ کر مہینوں لٹکائے رکھتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معاملے ایگزیکٹو کمیٹی کے پاس لے جاتے ہیں۔ اختیارات کی مرکزیت کے قائل ہیں اور نتیجتاً بیڈ گورننس!
جی ـ 13 کا پی سی ون بنا۔ پھر اخباروں میں ٹینڈر نوٹس شائع ہوئے، کمپنیاں شارٹ لسٹ ہوئیں اور پھر ڈی جی صاحب کو خیال آیا کہ میری تنظیم کے پاس تو ٹھیکے کے کاموں کو سپروائز کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ اب فیصلہ ہوا ہے کہ کام سی ڈی اے یا پی ڈبلیو ڈی کو دیا جائے۔ مہینوں کی محنت اکارت‘ جی ـ 13 تباہ‘ فائونڈیشن کے افسروں اور سٹاف کی صلاحیت لگتا ہے پلاٹ اور ڈبل تنخواہ لینے تک محدود ہے۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ وفاقی محتسب کا ادارہ معمر افسران کی وجہ سے عوام کی توقعات پوری نہیں کر سکا۔ معمر افسران مستعدی سے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کروا سکتے۔ اس ادارے کو نئے خون، نئے عزائم کی ضرورت ہے، یہاں ریٹائرمنٹ کی عمر باقی دستوری اداروں کی طرح فکس ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس ہائوسنگ فائونڈیشن کا سربراہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے اچھی پرفارمنس نہیں دے سکا۔ دو سال تو اس نے کام سیکھنے میں لگا دیے ہیں۔ یہاں کوئی تجربہ کار اور نیک نام انجینئر ہیڈ ہونا چاہیے۔ سیاسی بھرتیاں ختم ہونی چاہئیں۔ ملازموں کی تعداد آسانی سے نصف ہو سکتی ہے اور ہر ملازم کو پلاٹ دینا غلط پالیسی ہے۔ نالائقوں اور نکموں کو اجر(Reward) دینے کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔۔۔۔ بیڈ گورننس!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں