"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کی تنہائی اور اس کا مداوا

ماضی قریب میں متعدد ایسے واقعات ہوئے ہیں جو پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کے غماز ہیں۔ انڈیا کے ساتھ تو ہمارے تعلقات خراب تھے ہی مگر طورخم پر خون آشام جھڑپ نئے زخم لگا گئی۔ صدر روحانی کے دورے کے باوجود ایران کے ساتھ برسوں پر محیط سردمہری ختم نہیں ہو سکی۔ امریکہ نے ایف سولہ طیارے (رعایتی قیمت )کا عندیہ دے کر اپنا ذہن بدل لیا کیونکہ کانگریس میں مخالفت ہوئی۔ خلیجی ممالک جو ہمارے روایتی حلیف تھے اب پاکستان کو فقط اس وجہ سے رعایت دینے کو تیار نہیں کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے۔ خلیجی ممالک سے انڈیا کا اقتصادی تعاون تو مدت سے ہے مگر اب یہ سٹرٹیجک روپ دھار رہا ہے۔
پہلا سوال جو ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان مکمل اور دائمی تنہائی کا شکار ہے؟ اس سوال کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہے۔ چین ہمارا آزمودہ دوست ہے اور پاک چین راہداری منصوبہ ہمارے تعلقات کو مزید تقویت بخشے گا۔ پاکستان کی شنگھائی تعاون تنظیم کی ممبر شپ میں پیشرفت ہوئی ہے۔ ماسکو ‘ اسلام آباد سے تعلقات بڑھانے کا متمنی ہے۔ سیول میں ہونے والی گزشتہ ماہ کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کانفرنس میں ہمارے موقف کو چین، ترکی اور مزید کئی دوست ممالک کی وجہ سے پذیرائی ملی۔ عالمی مالیاتی ادارے مسلسل پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ تاثر عام تھا کہ استعماری قوتیں مڈل ایسٹ اور عالم اسلامی کے نقشے بدلنے پر تلی ہوئیں ہیں۔ استدلال یہ تھا کہ تمام طاقتور ملکوں مثلاً عراق‘ شام‘ مصر‘ سعودی عرب کے کئی ٹکڑے کیے جائیں گے تاکہ وہ اسرائیل کے مقابلہ کرنے کی اہلیت کھو بیٹھیں۔ پاکستان کی مزید شکست و ریخت کی باتیں بھی شدومد سے ہوئیں مگر افغانستان اور عراق میں استعماری ہزیمت کے بعد یہ خطرہ خاصا کم ہو گیا ہے۔ اب ہمارے اصل خطرات داخلی ہیں ۔
آئیے اب اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار کیسے ہوا ؟نائن الیون کے بعد انڈیا پوری دنیا کو باور کرانے کی کوشش میں لگا رہا کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے۔ 2008ء میں ممبئی پر حملہ ہوا تو مارے جانے والوں میں امریکی اور یورپی باشندے بھی تھے۔ انڈیا کے لیے پاکستان کو مزید بدنام کرنے کے لیے یہ سنہری موقع تھا جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ہر عالمی فورم پر کہا گیا کہ پاکستان نان سٹیٹ ایکٹرز کو فارن پالیسی اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ 2011ء میں اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں مارا گیا تو پاکستان مخالف ممالک کی گویا باچھیں کھل گئیں۔ اب پاکستان مکمل طور پر دفاعی پوزیشن میں تھا۔ دنیا کو یہ باور کرانا کہ ہمیں اسامہ بن لادن کا کچھ پتہ نہ تھا بہت ہی مشکل بات تھی۔ ضرب عضب نے کسی حد تک اس امیج کا ازالہ کیا لیکن سو فیصد پھر بھی نہیں۔ امریکہ اب بھی کہہ رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ سعودی عرب میں تین مقامات پر خودکش حملے ہوئے اور پچھلے ہفتے سعودی حکومت نے انیس مشکوک لوگوں کو گرفتار کیا ہے ان میں سات سعودی باشندے ہیں جبکہ بارہ مبینہ طور پر پاکستانی شہری ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بالآخر یہ بارہ کے بارہ بے قصور نکلیں لیکن میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ برادر ملک سعودی عرب میں بھی ہمارا امیج انتہائی خراب ہے‘ گویا تمام اہم ممالک انڈین چارج شیٹ کی صحت پر یقین کر رہے ہیں۔
اس تاثر سے فائدہ اٹھا کر ہمارے ایٹمی اثاثوں کو متنازع بنانے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔ استدلال کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے اندر انتہا پسندوں کا زور ہے‘ لہٰذا ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں اور اگر یہ ہتھیار نان سٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھ لگ گئے تو پوری دنیا کی سکیورٹی دائو پر لگ سکتی ہے۔ وہ لوگ جو ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کے امور کو بخوبی جانتے ہیں ‘انہیں علم ہے کہ پاکستان کا ایٹمی کمانڈ اینڈ کنٹرول بہت ہی اچھا ہے لیکن پاکستانی ایٹمی پروگرام کو متنازع بنانے والے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے ہی رہتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ایک پروپیگنڈا یہ بھی ہے کہ ہماری سول اور ملٹری قیادت میں ہم آہنگی کی کمی پائی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حساس ممالک کے ساتھ دوستی کے لیے سویلین قیادت پالیسی بنائے بھی تو اُس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ انڈیا کی اقتصادی ترقی کی شرح پاکستان سے دوگنا ہے۔ انڈیا ہر میدان میں آگے جا رہا ہے جبکہ پاکستان کا عالمی تاثر یہ ہے کہ اس ملک کو عرصے سے بریکیں لگی ہوئی ہیں۔
ان حالات میں کئی مغربی تبصرہ نگار پاکستان کے مستقبل کی تاریک تصویر دکھاتے ہیں۔ پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے امریکی مصنف ولی نصر جو کہ ایرانی الاصل ہیں کا خیال ہے کہ اگر ہماری آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2050ء میں 350 ملین ہو جائے گی۔ اگر پاکستان نے آبی وسائل کو دانش مندی سے ڈیویلپ نہ کیا تو یہاں پانی کی شدید قلت ہو سکتی ہے۔ ہماری معیشت کا انحصار کاٹن اور ٹیکسٹائل سیکٹر پر ہے۔ پاکستانی معیشت میں تنوع کی کمی ہے۔ اگر ہم نے شرح ترقی کو سات یا آٹھ فیصد تک نہ رکھا تو یہاں مزید غربت پھیلے گی اور ویسے ایمانداری سے بتائیے کہ جس ملک کی قیادت نااہل اور کرپٹ ہو اور اپنا بیشتر وقت دوسرے ممالک میں گزارے، اس کا عالمی امیج کیا ہو گا۔ ہندوستان کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھی دل کا عارضہ تھا مگر وہ علاج انڈیا کے اندر ہی کراتے تھے ۔ان کا کوئی اپوزیشن لیڈر الطاف بھائی یا زرداری صاحب کی طرح خود ساختہ جلاوطنی میں نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے عالمی عزت و احترام دوبارہ حاصل کرنا ناممکن نہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اپنا کشکول توڑ کر سمندر میں پھینکنا ہو گا اور اس کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے ٹیکس ایمانداری سے ادا کریں۔ اسلامی ملک میں جہاد ڈیکلیئر کرنے کی اتھارٹی صرف حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کوئی جیش ‘کوئی لشکر نہیں ہونا چاہیے ۔انتہا پسندی کو ختم کرنے کا سب سے آزمودہ نسخہ اقتصادی ترقی اور تعلیم کا فروغ ہے ۔آبادی کے جن کو ہم نے بوتل میں بند کرنا ہے، ورنہ یہ اقتصادی ترقی کے ثمرات کو ہڑپ کر جائے گا۔
کیا پاکستان میں کبھی وہ دن آئے گا کہ موچی ‘نائی اور تیلی کے بچے ذہین ہوں تو اعلیٰ عہدوں تک پہنچ سکیں؟ یہ اُس صورت میں ممکن ہے جب سرکاری تعلیمی ادارے اعلیٰ پائے کی تعلیم دیں اور ملک میں میرٹ کا دور دورہ ہو‘ سرکاری ملازمتوں کے لیے نہ رشوت چلے اور نہ ہی سفارش‘ یہی میرٹ کا نظام مغربی ممالک کی ترقی کا راز ہے۔
وہ ممالک جہاں تعلیم عام ہے ‘رنگ و نسل اور عقائد کے تعصبات سے آزاد ہو جاتے ہیں ۔لندن شہر کا میئر صادق خان پاکستانی اوریجن کا مسلمان ہے۔ میری دعا ہے کہ پاکستان میں وہ وقت جلد آئے جب کراچی کا میئر کوئی ہندو بھائی ہو یا لاہور کا میئر کوئی کرسچن ہو۔ ہماری سویلین قیادت کرپٹ بھی ہے اور نااہل بھی۔ ہمارے انتخابات اکثر متنازع بن جاتے ہیں۔ اگر ہم ووٹ کا صحیح استعمال کر کے صالح قیادت آگے لائیں تو پاکستان پندرہ سالوں میں ترکی اور ملائشیا بن سکتا ہے اور اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ہمارا مستقبل قطعاً روشن نہیں ‘پھر بقول ولی نصر پاکستان 2050ء میں غزہ کی پٹی کا نقشہ پیش کر رہا ہو گا۔ چین نے جب اقتصادی ترقی کو اپنی پالیسی کا محور بنایا تو انڈیا اور سوویت یونین سے تعلقات بہتر کرنا شروع کئے۔ ہمارے لیے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات بہت ضروری ہیں۔ پاکستان میں اندرونی طور پر اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کو ہمارے ہاں کسی قسم کی ریشہ دوانی کی جرأت ہو۔ امریکہ کے ساتھ پہلے والی گرم جوشی اب موجودہ معروضی حالات میں ممکن نظر نہیں آرہی‘ لیکن امریکہ کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ناممکن نہیں اور یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں