"JDC" (space) message & send to 7575

اگلا فارن سیکرٹری کیسا ہونا چاہیے

فارن سیکرٹری کی اوسط مدت عہدہ تقریباً تین سال ہے جو اعزاز چوہدری کی پوری ہو رہی ہے یہ ایک حساس اور انتہائی اہم پوسٹ ہے جس کے بارے میں عام شہری کو بہت کم علم ہے۔ کافی عرصہ تک عوام کا تاثر تھا کہ فارن آفس خارجہ پالیسی بناتا ہے۔ حقیقتاً فارن آفس کسی بھی ملک میں اکیلا خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دیتا لیکن ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں وزارت خارجہ کی رائے کو اہمیت ضرور دی جاتی ہے۔ اس وزارت میں ایسے سینکڑوں افسر ہیں جو شب و روز امور خارجہ سے ڈیل کرتے ہیں۔
پاکستان خارجہ پالیسی کے اعتبار سے بہت نازک اور مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ امریکہ کے بارے میں خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے خود کہا ہے کہ وہ خود غرض دوست ہے۔ انڈیا کے ساتھ بات چیت عرصے سے معطل ہے۔ افغانستان کے ساتھ پچھلے دنوں شدید تنائو دیکھنے میں آیا۔ ایران کے ساتھ عرصے سے سرد مہری کی کیفیت چل رہی ہے۔ ہمارے عرب دوست انڈیا کا گرمجوشی سے سواگت کر رہے ہیں۔ ایران اور افغانستان دونوں میں انڈیا کے لیے نرم گوشہ ہے۔ پاکستان کا عالمی امیج بہت ہی منفی ہے۔ فارن سیکرٹری وزارت خارجہ کا نہ صرف انتظامی امور میں سربراہ ہوتا ہے‘ بلکہ حکومت کو خارجہ امور میںگائیڈ کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اپنے ادارے کے حقوق کا تحفظ بھی فارن سیکرٹری کا کام ہے کیونکہ اقتدار کے ایوانوں میں اسے رسائی حاصل ہوتی ہے۔ 
غالباً1989ء کی بات ہے۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے خواہش ظاہر کی کہ بلقیس قریشی کو‘ جو اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ سکول چلاتی تھیں ‘ نیو یارک میں قونصل جنرل بنا دیا جائے۔ ڈاکٹر ہمایوں خان فارن سیکرٹری تھے ڈاکٹر صاحب نے ڈٹ کر رائے دی کہ قونصل جنرل کی پوسٹ سروس کے افسران کے لیے مختص ہے پرائیویٹ سیکٹر سے کسی شخص کو یہ عہدہ دینا رولز اور روایت کے منافی ہو گا ڈاکٹر ہمایوں خان کو بالآخر حکم عدولی کی پاداش میں عہدہ چھوڑنا پڑا یعنی وہ فارن سیکرٹری نہیں رہے لیکن بلقیس قریشی بھی نیو یارک نہ جا سکیں۔ ڈاکٹر ہمایوں کا ذکر آج بھی فارن سروس کے لوگ احترام سے کرتے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بینظیر بھٹو قتل کی تحقیق اقوام متحدہ کی ٹیم سے کرائی جائے۔ ریاض محمد خان فارن سیکرٹری تھے ان سے رائے مانگی گئی تو ریاض صاحب نے تجویز کی سخت مخالفت کی۔ استدلال یہ تھا کہ اقوام متحدہ کا کام ملکوں کے درمیان تنازعات کو حل کرنا ہے جبکہ محترمہ بی بی کا قتل پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ یہ کیس اقوام متحدہ کو دے کر ہم بہت غلط روایت قائم کریں گے۔ زرداری صاحب اپنے فیصلے پر مصر رہے۔ ریاض محمد خان نے فارن سیکرٹری کی پوسٹ چھوڑ دی مگر اپنے اصولی موقف پر قائم رہے۔ اس سٹینڈ کی وجہ سے انہیں صائب رائے لوگ آج بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
معاف کیجیے بات موضوع سے ذرا ہٹ گئی کیونکہ کالم کا اصل مقصد تو آئندہ کے لیے موزوں اور موثر فارن سیکرٹری کے خدوخال بیان کرنا ہے لیکن ان دو کہانیوں کو بیان کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اچھے فارن سیکرٹری کی ریڑھ کی ہڈی مضبوط ہونی چاہیے اور اسے ملکی اور سروس کا مفاد اپنے ذاتی مفاد سے عزیز تر ہونا چاہیے۔
چند ہفتے پہلے ایک انگریزی روزنامہ میںخبر لگی کہ وزیر اعظم نواز شریف کی رائے میں پیرس میں پاکستانی سفیر غالب اقبال فارن سیکرٹری کے عہدہ کے لیے بہت موزوں افسر ہیں۔ خبر کی تاویل میں یہ استدلال دیا گیا کہ وزیر اعظم پچھلے سال عالمی ماحولیاتی سمٹ کے لیے پیرس گئے تواپنے سفیر کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوئے۔ خبر کے آخر میں ایک بڑا معنی خیز جملہ تھا کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اس تعیناتی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ میری فاطمی صاحب سے اس سلسلہ میں بات نہیں ہوئی لیکن ان کی جگہ میں ہوتا تو میری پوزیشن بھی ایسی ہی ہوتی۔
غالب اقبال اصل میں پاکستان نیوی کے انجینئرنگ برانچ کے افسر تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈی ایم جی فارن سروس اور پولیس سروس میں آرمڈ فورسز کا دس فیصد کوٹہ مقرر ہوا تو فارن سروس میں انڈکٹ ہو گئے۔ سینٹرل سپرئیر سروس کے موزوں افسر ڈھونڈنے کا معیار سی ایس ایس کے امتحان میں اچھی کارکردگی اور انٹرویو کے مارکس سے متعین کیا جاتا ہے۔ غالب اقبال نے کبھی سی ایس ایس کا امتحان نہیں دیا۔
موجودہ نازک حالات میں پاکستان کو ایسے فارن سیکرٹری کی ضرورت ہے جو عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتا ہو اسے اہم ملکوں میں کام کرنے کا تجربہ ہو۔ میری رائے میں پاکستان کے خارجہ تعلقات میں اس وقت سات ممالک انتہائی اہم ہیں اور وہ ہیںامریکہ ‘ چین‘ انڈیا‘ افغانستان‘ ایران‘ سعودی عرب اور روس۔ غالب اقبال کی کبھی بھی واشنگٹن بیجنگ کا بل دہلی‘ طہران ‘ریاض اور ماسکو میں پوسٹنگ نہیں ہوئی۔ جس افسر نے ان سات ممالک میں کام نہیں کیا وہ ان کی پالیسیوں کو سمجھنے میں کافی ٹائم لے گا۔ پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کا فارن سیکرٹری انڈر ٹریننگ رہے خواہ سال چھ ماہ کے لیے ہی کیوں نہ ہو یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ غالب اقبال کی بطور افسر عمومی شہرت اچھی ہے وہ سال چھ مہینے میں شاید تیزی سے بدلتی اور پیچیدہ عالمی سیاست کو سمجھ لیں لیکن اتنا بڑا رسک لینا دانائی کی بات نہیں۔
فارن سروس کا کیڈر اب تقریباً پانچ سو افسروں پر مشتمل ہے اس میں چار سو سے کچھ زائد افسر ایسے ہیں جو سی ایس ایس کا امتحان دے کر سروس میں داخل ہوئے تقریباً پچھتر سے اسی افسر ایسے ہیں جو آرمڈ فورسز سے فارن سروس میں آئے ہیں۔ غالب اقبال چونکہ مین سٹریم سے تعلق نہیں رکھتے لہٰذا عین ممکن ہے کہ مین سٹریم کے سینئر افسر انہیں ذہنی طور پر قبول نہ کریں۔ آج کے پُر آشوب عالمی ماحول میں پاکستان فارن سروس کو مکمل یکسوئی اور یک جہتی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم فارن سروس کے اندر کسی قس کی چپقلش کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ قومی مفاد اس بات کا متقاضی ہے کہ فارن آفس میں کسی قسم کی گروہ بندی نہ ہو۔
فارن منسٹری میں یہ تاثر عام ہے کہ وزیر اعظم سے قربت کی وجہ سے طارق فاطمی سپر فارن سیکرٹری بن گئے ہیں۔ اس تاثر کی ایک وجہ شاید اعزاز چوہدری کے صحت کے مسائل بھی رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اعزاز صاحب کو شفائے کاملہ عطا کرے اس پریشر والی سیٹ پر اچھی صحت نہ ہونے کے باوجود کام کرنا بہادری کا کام ہے۔ سب سے عظیم بات یہ ہے کہ اعزاز نے اپنا علاج پاکستان میں ہی کرایا۔
غالب اقبال جب چیف آف پروٹوکول تھے تو اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفراء میں خاصے مقبول تھے لیکن فارن سیکرٹری کے فرائض منصبی چیف آف پروٹوکول سے بہت مختلف ہیں۔ فارن سیکرٹری بننے کے لیے عالمی سیاسی امور کا لمبا تجربہ درکار ہے میں جب وزارت خارجہ میں ایڈیشنل سیکرٹری تھا تو ریاض کھوکھر فارن سیکرٹری تھے اس سے پہلے وہ بنگلہ دیش انڈیا امریکہ اور چین میں سفیر رہ چکے تھے۔ کیریئر کا آغاز ماسکو سے کیا تھا وہ عالمی سیاست کی گتھیوں سے خوب واقف تھے۔ غالب اقبال نے صرف ایک ملک یعنی فرانس میں سفارت کی ہے۔
موجودہ وقت میں ہمیں ایک قد آور اورزیرک فارن سیکرٹری کی ضرورت ہے جو فارن آفس کے پرانے رول کو بحال کراسکے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کرے مگر جہاں اختلاف ہو وہ بھی سلیقے اور اعتماد کے ساتھ بیان کرے۔ بیرونی وفود کو اپنے علم اور آراء سے متاثر کرے اور سرتاج عزیز صاحب کو بڑے ادب سے بتائے کہ سر امریکہ کو خود غرض دوست کہنا بھی ہمارے قومی مفاد میں نہیں۔ میاں صاحب !فارن سیکرٹری کا عہدہ بے حد اہم ہے۔ سیاسی قیادت بدلتی رہتی ہے مگر ادارے قائم رہتے ہیں اور فارن سیکرٹری ایک اہم اور حساس ادارے کا سربراہ ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں