"JDC" (space) message & send to 7575

نجیب رزاق اورنواز شریف

ملائشیا کے منتخب وزیر اعظم نجیب رزاق آج کل ایک بڑے مالی سکینڈل کی زد میں ہیں، چند سال پہلے کوالالمپور کی سٹاک مارکیٹ اور ملائشیا کی معیشت کی ترقی کے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ کاری فنڈ تشکیل دیا گیا۔ نجیب رزاق اس آئیڈیا کے روح رواں تھے۔ اس فنڈ کی ٹوٹل مالیت تین ارب ڈالر سے زائد تھی۔ حال ہی میں امریکی میڈیا میں خبریں آئی ہیں کہ ملائشیا کے اس فنڈ سے امریکہ میں خریدے گئے اثاثوں کی قیمت ایک ارب ڈالر بنتی ہے۔ اس سکینڈل میں مرکزی کردار وزیر اعظم کا سوتیلا بیٹا رضا عزیز ہے۔ نجیب رزاق کہتے ہیں کہ پورے سکینڈل میں میرے نام کا کہیں ذکر نہیں‘ لہٰذا میں بری الذمہ ہوں۔ 
امریکہ کے قانونی اداروں کا اصل الزام یہ ہے کہ اس فنڈ سے نیویارک اور لاس اینجلز میں جائیداد خریدی گئی ہے اور پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعہ سے آیا ہے۔ اس سارے قصے میں امریکہ کا ایک بڑا بینک بھی ملوث ہے۔ امریکی میڈیا میں آنے والی تفاصیل دلچسپ ہیں۔ اسی فنڈ کے پیسے سے امریکہ میں ایک پرائیویٹ ہوائی جہاز خریدا گیا اور ایک فلم ساز کمپنی بنائی گئی‘ جس نے اعلان کیا کہ وہ سٹاک ایکس چینج اور امریکہ میں اس کی شعبدہ بازی پر فلم بنائے گی جس کا نام Wolf of the wall street یعنی 'وال سٹریٹ کا بھیڑیا‘ ہو گا۔ یاد رہے کہ نیو یارک کی وال سٹریٹ سٹاک کے بزنس کے لیے معروف ہے۔ دوسری طرف میڈیا میں یہ بات بھی آئی ہے کہ 2013ء میں نجیب رزاق کے ذاتی بینک اکائونٹ میںچھ سو اکیاسی (681) ملین ڈالر جمع ہوئے۔ ظاہر یہ کیا گیا کہ یہ رقم کسی سعودی شہزادے نے وزیر اعظم کو گفٹ کے طور پر دی ہے۔ اب ملائشیا کے اندر مطالبہ ہو رہا ہے کہ اس بات کی پوری تحقیق ہونی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے خلاف طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔ فیس بک پر ایک صفحہ بنایا گیا ہے جس کا نام ہی Najib must go ہے۔
یہ فنڈ جس کا نام ون ایم ڈی بی 1MDB ہے، پچھلے سال سے متنازع ہو چکا ہے۔ ایک عدد انکوائری ملائشیا کی اینٹی کرپشن ایجنسی کر چکی ہے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا؛ تاہم اب معاملہ زیادہ گمبھیر ہو چکا ہے۔ ملائشیا کی جمہوریت میں صرف ایک پارٹی کی اجازت ہے۔ پارٹی کے اندر سے وزیر اعظم کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ سابق ڈپٹی پرائم منسٹر محی الدین یاسین اور سابق وزیر اعظم مہاتیر محمدکے صاحبزادے مخریز مہاتیر کو پارٹی سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اینٹی کرپشن ایجنسی کے سربراہ‘ جنہوں نے وزیر اعظم کو بری الذمہ قرار دیا تھا‘ کو استعفیٰ دینا پڑا ہے۔
وزیر اعظم نجیب رزاق کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان بزرگ رہنما مہاتیر محمد کے بیانات سے پہنچ رہا ہے۔ مہاتیر بیس سال سے اوپر ملائشیا کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے دور میں ملک نے خوب ترقی کی اور ان کی ذاتی شہرت بہت اچھی رہی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں مہاتیر کا خاندان پنجاب سے ہجرت کرکے ملائشیا گیا تھا‘ جسے اس زمانے میں ملایا کہا جاتا تھا۔ میں جب مسقط میں سفیر تھا تو ملائشیا کے سفیر سے میری دوستی تھی۔ میں اکثر انہیں مذاق میںکہتا تھا کہ ہمارا مہاتیر واپس کر دو تاکہ پاکستان بھی ترقی کرے۔ جواب یہ ملتا تھا کہ تمہارے ملک میں کئی مہاتیر موجود ہیں۔ آپ لوگ انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔
وزیر اعظم نجیب رزاق کے لیے بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ امریکہ کے حکومتی ادارے مثلاً ایف بی آئی اور وزارت قانون اس معاملے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ امریکی قانونی ادارے اس کوشش میں ہیں کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے آئی ہوئی رقم منجمد کر دی جائے۔ امریکی حکومت میں ایک نیا شعبہ بنا ہے جس کا نام Kleptocracy Asset Recovery Unit ہے‘ یعنی یہ لٹیری جمہوریتوں کے ناجائز اثاثوں کی برآمدگی کا شعبہ ہے۔ یہ لوگ بھی ملائشیا سے لائے گئے مال کی اصل حقیقت جاننے میں مصروف ہیں۔ امریکی میڈیا میں ملائشیا کے وزیر اعظم کو چور اور کذاب کے خطابات دیے جا رہے ہیں۔
کرپشن کے حوالے سے پاناما پیپرز وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ان پیپرز میں وزیر اعظم کا اپنا نام نہیں ہے لیکن ان کے دونوں بیٹوں کا اور لندن میں ان کی جائیدادوں کا ذکر ضرور ہے۔ عمران خان نے نواز شریف کو کنگ آف کرپشن کا خطاب دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس بات پر زرداری صاحب نے خوب کھل کر قہقہہ لگایا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دل ہی دل میں احتجاج کر رہے ہوں کہ میرے ہوتے ہوئے یہ خطاب میاں صاحب کو کیوں دیا گیا۔
جس طرح ملائشیا کی اندرونی انکوائری کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اس طرح ہماری نیب یا ایف آئی اب تک کسی بڑی مچھلی کو نہیں پکڑ سکیں۔ ان کا سب سے بڑا شکار ایک صوبائی سیکرٹری بلوچستان اور سابق آئی جی خیبر پختونخوا ہیں۔ ہمارے سفارت خانوں کی عمارتیں اونے پونے بک گئیں اور بیچنے والوں کے خلاف وہ تحقیق نہیں ہوئی جو ہونا چاہیے تھی۔
نجیب رزاق کے سوتیلے بیٹے پر فلم کے پروجیکٹ کے علاوہ کاسینو میں جوا کھیلنے اور پُرتعیش کشتیاں استعمال کرنے کا الزام بھی ہے مگر ہمارا شریف حکمران خاندان شرعی عیوب سے پاک ہے یا کم از کم ظاہراً ایسا ہی لگتا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بی بی سی کی دستاویزی فلم پھر گردش کر رہی ہے‘ جو کئی سال پہلے بنی تھی۔ اس فلم میں بی بی سی والوں نے وضاحت سے بتایا ہے کہ میاں صاحب کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دور میں بڑی بڑی رقوم لاہور سے انگلستان کے قصبے الفرڈ Ilfordکیسے بھیجی گئیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ دستاویزی فلم جھوٹے اور غلط حقائق پر مبنی ہے تو شریف خاندان نے بی بی سی پر مقدمہ کیوں نہ کیا؟ 
سوشل میڈیا کے چھوٹے چھوٹے چٹکلے کسی دفعہ بہت پُراثر ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک چٹکلا آج کل فیس بک پر گردش کر رہا ہے اور انور مقصود سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ شریف خاندان نے 2006ء میں جدہ والی سٹیل مل بیچ کر 1993ء میں لندن میں اپارٹمنٹ خریدے اور سائنس کو مات دے دی۔ ذرا غور فرمائیے کتنا کاری ہے یہ جملہ۔
مجھے یقین ہو چلا ہے کہ کیا حکومت اور کیا اپوزیشن دونوں کرپشن ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور اگر یہ سنجیدہ ہیں تو کم از کم سوئٹزرلینڈ سے وہاں کے بینکوں میں رکھے گئے پاکستانی سرمایہ کی تفاصیل حاصل کرکے اخباروں میں شائع کر دی جائیں اور امریکہ کے نئے شعبے Kleptocracy Asset Recovery Unit سے کہا جائے کہ وہ ان تمام اثاثوں کی تحقیق شروع کرے جو پاکستانیوں نے کالے دھن سے امریکہ میں بنائے ہیں۔ مگر ایسا ہو گا نہیں‘ کیونکہ یہ آ بیل مجھے مار والی بات ہو جائے گی۔ نجیب رزاق اگر پکڑے گئے تو یہ کارنامہ امریکی ادارے کریں گے۔ اسی طرح پاکستانی کرپشن سے خریدے گئے بیرون ملک اثاثوں کا سراغ مغربی ادارے یا صحافی لگا سکتے ہیں جیسا کہ پاناما پیپرز میں ہوا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں