"JDC" (space) message & send to 7575

انڈیا کی اصل طاقت

آزادی کے بعد جواہر لعل نہرو انڈیا کے پہلے وزیراعظم بنے۔ اُس وقت نہرو کا لندن میں فارن کرنسی اکاؤنٹ تھا۔ انڈین پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا کہ کوئی انڈین شہری ملک سے باہر فارن کرنسی اکاؤنٹ نہیں رکھ سکے گا۔ مرار جی ڈیسائی انڈیا کے فنانس منسٹر تھے۔ وہ پنڈت جی کے پاس گئے اور کہا کہ اب آپ کو اپنا لندن والا اکاؤنٹ بند کرنا پڑے گا۔ نہرو کا جواب تھا کہ لندن کے اکاؤنٹ میں وہ پیسہ ہے جو میری کتابوں کی رائیلٹی سے ملا ہے، یہ پیسہ انڈیا سے نہیں گیا کیونکہ بیشتر کتابیں انگلستان میں چھپی ہیں۔ مرارجی ڈیسائی نے نہرو کی سب باتیں سن کر کہا کہ اس کے باوجود آپ کو یہ اکاؤنٹ بند کرنا چاہئے کیونکہ یہ انڈین قانون کی خلاف ورزی ہے۔ پنڈت جواہر لعل نے لندن والا اکانٹ بند کر کے بیلنس انڈیا ٹرانسفر کرالیا۔ قانون اشخاص سے طاقت ور ہے۔ یہ وزیر اعظم اور صدر پر بھی لاگو ہوتا ہے، یہی قانون کی حکمرانی کا اصل تصور ہے۔ اور جس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو وہ ملک طاقتور ہے۔
پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی کرپشن ہے مگر حقائق کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل Transparency International وہ بین الاقوامی ادارہ ہے جو ہر سال کرپشن کے حوالے سے تمام ممالک کی آپس کی پوزیشن کا تعین کرتا ہے۔ گزشتہ سال یعنی 2015ء میں دنیا کا سب سے ایماندار ملک ڈنمارک تھا اور اس کا نمبر ون تھا۔ 168 ملک اس لسٹ میں شامل تھے۔ کرپٹ ترین ممالک لسٹ کے آخر میں تھے۔ یوں سمجھیں کہ یہ لسٹ ایمانداری کا ٹیسٹ ہے جس میں ڈنمارک نے ٹاپ کیا۔ اس لسٹ میں انڈیا کا نمبر 76 واں تھا جبکہ پاکستان کی پوزیشن 117تھی۔ اس لسٹ کے مطابق انڈیا میں ایمانداری پاکستان سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انڈیا میں سڑکیں اور پُل پاکستان سے بہتر بنتے ہیں اور دوسرے ممالک سے اسلحہ کی خریداری میں کمیشن کم کھایا جاتا ہے۔ 
اور اب موضوع پر مزید فوکس کرتے ہیں۔ میرے خیال میں دو میدان ایسے ہیں جہاں انڈیا پاکستان سے آگے جا رہا ہے۔ ایک ہے اقتصادی ترقی اور دوسرا ہے تعلیم، اور ان دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، یعنی جس ملک میں تعلیم کی صورت حال بہتر ہو گی اُس کے ترقی کرنے کے امکانات زیادہ روشن ہوں گے۔ انڈیا میں پڑھے لکھے لوگوں کا تناسب باسٹھ (62) فیصد ہے جبکہ پاکستان میں تریپن (53) فیصد۔ گو کہ انڈیا تعلیم کے معیار میں امریکہ اور انگلستان سے بہت پیچھے ہے لیکن وہاں اعلیٰ تعلیم کے ادارے بہتر ہو رہے ہیں۔ پچھلے سال انڈیا کے دو تعلیمی ادارے پہلی مرتبہ دنیا کی دو سو اچھی یونیورسٹیوں کی صف میں شمار کئے گئے۔ ان میں سے انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس بنگالارو Banglaru کی 147 ویں پوزیشن تھی جبکہ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نیو دہلی کی 179 ویں اور اب آتے ہیں وطنِ عزیز کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طرف۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد (NUST) پاکستان کی سب سے اچھی یونیورسٹی قرار پائی اور اس کا نمبر دنیا کے تعلیمی اداروں میں پانچ سو ایک (501) تھا۔ اسلام آباد کی ہی قائداعظم یونیورسٹی پاکستان کی دوسری اعلیٰ ترین یونیورسٹی شمار ہوئی مگر انٹرنیشنل رینکنگ میں اس کا نمبر چھ سو اکاون (651) تھا۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کا دنیا کے 
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سات سو ایک (701) نمبر تھا جبکہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET) لاہور بھی سات سو ایک (701) پوزیشن کی حقدار ٹھہری۔ 
تعلیم کے حوالے سے ایک اور بات اور بھی زیادہ تشویشناک ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد انڈیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ انڈیا جہالت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ انڈیا کی اصل طاقت اُس کے عمدہ تعلیمی اداروں میں مضمر ہے اور ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبا انڈین اکانومی کو ترقی دے رہے ہیں۔ انڈیا میں سرکاری سکول ٹھیک چل رہے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری سکولوں کا تناسب آبادی کے مقابلے میں کم ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کے نئے سیکٹر جی 13 کو آباد ہوئے آٹھ سال ہو گئے۔ آبادی پندرہ ہزار سے تجاوز کر چُکی ہے لیکن ایک بھی سرکاری سکول نہیں۔ اہالیان سیکٹر نے حکومت کے دروازے کھٹکھٹائے،لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ صورت حال جوں کی توں ہے۔
اوراب چلتے ہیں انڈیا کی اقتصادی صورت حال کی طرف جو 1992ء سے برابر بہتر ہو رہی ہے۔ انڈیا کے لوگ اقتصادیات میںبھی ہم سے زیادہ نیشنلسٹ ہیں۔ زیادہ محب وطن ہیں۔ ایک واقعہ یاد آ گیا۔1997ء کی بات ہے پاکستان کے ایک فیڈرل منسٹر انڈیا وزٹ پر گئے۔ پاکستانی ہائی کمشنرنے ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا اور ان کے انڈین ہم منصب کو بھی بلایا۔ انڈین وزیرلوکل اسمبلڈ فیٹ گاڑی میں آئے جس کا انڈین نام غالباً ہندوستان ہے۔ ہائی کمشنر اور پاکستانی وزیر نے مہمان کا استقبال کیا۔ انڈین وزیر کی گاڑی کی حالت دیکھ کر پاکستانی وزیر کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ پاکستان میں وزیروں کو بہتر کاریں ملتی ہیں۔ ہندوستانی وزیر کا جواب تھا کہ ضرور ملتی ہوں گی مگر مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری کار کے بیشتر پرزے اور باڈی، میڈ اِن انڈیا ہیں۔
انڈیا کی موجودہ اقتصادی شرح ترقی چائنا سے تجاوز کر گئی ہے۔ 2015ء میں انڈیا نے تین سو اکیس (321) ارب ڈالر کا مال برآمد کیا۔ سروسز کی ایکسپورٹ اس کے علاوہ تھی۔ پچھلے سال کے پہلے چھ ماہ میں اکتیس (31) ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری آئی جبکہ پاکستان میں پورے سال میں دو اعشاریہ سات (2.7) ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔ پاکستان میں 2015ء میں کی گئی بیرونی سرمایہ کاری 2014ء سے بھی کم تھی۔ انڈیا اس وقت دنیا کی ساتویں بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ دو تین عشرے پہلے انڈیا کی ٹوٹل جی ڈی پی یعنی قومی آمدنی پاکستان سے پانچ گنا تھی، اب یہ آٹھ گنا سے تجاوز کر گئی ہے۔
میرے نزدیک کسی قوم کے اداروں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں میرٹ کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ مغرب کی ترقی کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ وہاں میرٹ کا بول بالا ہے۔ پاکستان سے اچھے سے اچھے ڈاکٹر، انجینئر، اکاؤنٹنٹ، آئی ٹی پروفیشنل امریکہ اور کینیڈا میں آسانی سے جاب تلاش کر لیتے ہیں کہ وہاں اہمیت صرف قابلیت کی ہے، کسی انکل کی سفارش کی ضرورت نہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ انڈیا میں دو پبلک سروس کمیشن ہیں۔ ایک افسروں کو سلیکٹ کرنے کے لئے اور دوسرا سٹاف کے چناؤ کے لئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انڈیا میں کلرک بھی میرٹ پر بھرتی ہوتے ہیں۔
اگر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہ انڈیا کا وزیراعظم نریندر مودی آپ کو کیسا لگتا ہے تو آپ کا جو جواب ہو گا وہ مجھے معلوم ہے۔ یقین مانیں مجھے وہ شخص آپ سے بھی زیادہ بُرا لگتا ہے، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مودی کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ سوشل میڈیا پر خبر ہے کہ مودی کا ایک بھائی آج بھی رکشا چلاتا ہے۔ انڈیا کی اصل طاقت اعلیٰ قیادت کے خلوص، قانون کی حکمرانی، اقتصادی ترقی اور اعلیٰ پائے کی تعلیم میں مضمر ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں