"JDC" (space) message & send to 7575

انڈیا امریکہ تعلقات میں پیشرفت

انڈیا اور امریکہ کے وزرائے دفاع نے لوجسٹک تعاون کے معاہدے پر واشنگٹن میں دستخط کئے ہیں۔ ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ دہلی پہنچے اور نیوکلیئر تعاون سے لے کر ٹیکنالوجی ٹرانسفر‘ تجارت کے فروغ اور دہشت گردی کے خلاف تعاون سمیت کئی موضوعات پر مفصل بات کی۔ جان کیری کا انڈیا کا یہ چوتھا دورہ ہے۔ اس سے پہلے صدر اوباما انڈیا کا دو مرتبہ دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن چکے ہیں۔ امریکہ اور انڈیا کے تعلقات میں اس قدر گرمجوشی کی وجوہ کیا ہو سکتی ہیں؟
اس ضمن میں سب سے بڑی وجہ تو دونوں ممالک کی یہ مشترکہ خواہش ہے کہ چین کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ سائوتھ چائنا سمندر میں متنازع جزیروں کا مسئلہ پھر سے ابھر رہا ہے۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا ایک حالیہ فیصلہ چین کے خلاف اور فلپائن کے حق میں آیا ہے۔ امریکہ‘ انڈیا‘ جاپان‘ آسٹریلیا‘ فلپائن‘ جنوبی کوریا اور ویت نام جنوبی چائنا سمندر میں چینی نیوی کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف ہیں۔ اس سال اپریل میں‘ جب میں چائنا گیا تھا تو وہاں ہمارے وفد کی چینی سفارت کاروں سے بات چیت ہوئی تھی۔ ان سے جب ہم نے متنازع جزائر کے بارے میں امریکی موقف کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ یہ جزیرے اُس وقت سے چین کے پاس ہیں جب یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ 
امریکہ اور انڈیا کے روابط بڑھنے کی دوسری بڑی وجہ انڈین مارکیٹ کا پھیلائو ہے جہاں امریکی کمپنیوں کو تجارت اور سرمایہ کاری کے بڑے مواقع نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ کی مشہور ویسٹنگ ہائوس کمپنی انڈیا میں چھ نیوکلیئر پاور ہائوس لگانے جا رہی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں انڈیا نے امریکہ سے کافی اسلحہ خریدا ہے اور اب انڈیا کے لیے روس کی بجائے امریکہ اسلحے کا سب سے بڑا سورس ہے۔ امریکہ انڈیا کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کروانے کے لیے بھی سرگرم ہے۔ انڈیا ایک عرصے سے ریجنل پاور سے عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھ رہا تھا مگر بات بن نہیں رہی تھی‘ اب لگتا ہے کہ وہ گھڑی قریب آن پہنچی ہے۔ 
چین کے خلاف جنوب چائنا سی میں امریکہ اور انڈیا کا گٹھ جوڑ اب حقیقت کا روپ دھار لے گا۔ جاپان‘ آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کی سپورٹ سے یہ اتحاد اور بھی مضبوط ہو جائے گا۔ اس پیشرفت کی وجہ سے چین کا سی پیک پر انحصار بڑھے گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی انڈیا کو بہت بڑی اقتصادی طاقت دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ ہدف تب ہی حاصل ہو سکتا تھا جب دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت یعنی امریکہ سے ٹیکنالوجی اور تجارت کے شعبے میں قریبی تعاون ہو۔ جان کیری کے دورہ بھارت میں تجارت کے حجم کو پانچ گنا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اب امریکہ کی مشہور کمپنی لوکہید جیٹ ہوائی جہازوں کے انجن انڈیا میں بنا سکے گی۔ آئیے اس معاہدے کی بنیادی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی بحری یا فضائی حدود میں داخل ہونے کے لیے پیشگی اجازت لازمی ہوتی ہے۔ اگر تیل لینا ہو یا جہاز کی مرمت کروانی ہو تو علیحدہ طریقہ کار فالو کرنا پڑتا ہے۔ جہاز لنگر انداز کرنے کی فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ اب انڈیا اور امریکہ آزادانہ ایک دوسرے کے ہوائی اور نیول اڈے استعمال کر سکیں گے۔ تیل اور فاضل پرزے حاصل کر سکیں گے۔ جہازوں کی مرمت میں بڑی آسانی ہو گی۔ جہاز لنگر انداز کرنے کی کوئی فیس نہیں ہو گی۔ یہ بذات خود بہت بڑی پیشرفت ہے۔
بلیو واٹر نیوی انڈیا کا پرانا خواب ہے یعنی اپنی سمندری حدود سے باہر اثر رسوخ قائم کرنا۔ انڈین سٹریٹیجک سوچ میں بحر ہند کے پانیوں پر مکمل چوہدراہٹ اہم ہدف رہا ہے۔ یوں سمجھ لیں کے آبنائے ملاکا سے لے کر باب المندب اور افریقہ کے مشرقی ساحلوں تک کا نیلا سمندر انڈین نیوی کے تصرف میں ہو۔ ماضی میں شاہ کے وقت کے ایران‘ پھر پاکستان اور انڈونیشیا نے انڈیا کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیا اور آج چین کی بڑھتی ہوئی نیول طاقت بھارت کے سامنے کھڑی ہے۔ عسکری اعتبار سے بحر ہند میں موجود دو اڈے بہت اہم ہیں۔ ایک ڈیگوگارشیا کے جزیرے پر ہے‘ جو 1973ء سے امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔ دوسرا جزائر انڈمان میں ہے۔ یہ جزائر مدراس سے تقریباً آٹھ سو میل مشرق میں برما کے قریب واقع ہیں اور انڈین علاقے میں شامل ہیں۔ یہاں انڈین نیوی اور ایئر فورس کے بیسز ہیں۔ دیگوگارشیا‘ تنزانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان واقع ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں اس کی خاص اہمیت تھی کیونکہ عدن میں سوویت یونین کا عسکری بیس تھا۔ ڈیگو گارشیا کو افغانستان اور عراق کی جنگوں میں سپلائی بیس کی حیثیت حاصل تھی۔ اب چونکہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں دلچسپی کم ہو رہی ہے لہٰذا ڈیگو گارشیا کی اہمیت بھی امریکہ کے لیے کم ہو گئی ہے۔ لیکن انڈین نیوی کے لیے اس جزیرے پر موجود امریکی سہولتوں کا استعمال بھارت کے خوابوں کی تکمیل کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔
اور اب آتے ہیں انڈمان کی طرف۔ بزرگ قارئین کو یاد ہو گا کہ انگریز کے دور میں سیاسی قیدی اکثر کالے پانی جیل کی سزا بھگتنے جاتے تھے۔ انڈمان اور نکوبار وہی جزائر ہیں جن کی تعداد ساڑھے تین سو جزیروں کے قریب ہے لیکن ان میں آباد صرف چالیس ہیں۔ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے یہ علاقہ عسکری اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ مشرق میں جاپان‘ تائیوان اور جنوبی کوریا میں امریکن اڈے ہیں۔ انڈمان میں عسکری سہولتوں کا استعمال امریکہ کے لیے سود مند ہو گا۔ اب یہ بات آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ امریکہ کئی سالوں سے لوجسٹک معاہدے کی کوشش کیوں کر رہا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک بات تو عیاں ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے مسئلہ میں سو فیصد انڈیا کے ساتھ ہے۔ جان کیری‘ جو ایک زمانے میں پاکستان کے دوست تصور کئے جاتے تھے‘ اب انڈین زبان میں بات کر رہے ہیں۔ اس معاہدے کے بعد انڈیا کا تکبّر مزید بڑھے گا اور اب وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت اپنی شرائط پر کرے گا۔ 
انڈیا کی پوری کوشش ہو گی کہ دونوں ممالک کی اپنی اپنی پارلیمان اس معاہدے کی توثیق صدر اوباما کی مدت حکومت ختم ہونے سے پہلے دے دیں۔ انڈیا کے لیے ایڈوانس ٹیکنالوجی کا حصول اب آسان ہو جائے گا۔ اقتصادی ترقی کو مزید مہمیز ملے گی۔
امریکہ اب انڈیا کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں لانے کی کوششیں تیز کر دے گا۔ اسی طرح انڈیا کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں دائمی نشست دلوانے کی ایک بار پھر بھرپور کوشش ہو گی‘ لیکن یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ چین اب انڈیا کی کھل کر مخالفت کرے گا۔ ہمیں انڈیا کی بلیو واٹر نیوی سے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہماری نیوی کا اولین مقصد اپنے ساحلوں اور تجارتی راستوں کا دفاع ہے۔ اب ہمارے لیے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ اقوام عالم میں اپنی جگہ بنانے کا راستہ تیز رفتار اقتصادی ترقی میں مضمر ہے۔ اب ہم کسی لشکر یا جیش کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ویسے بھی اسلامی ملک میں جنگ کا اعلان صرف حکومت کر سکتی ہے۔ نان سٹیٹ عسکری ملیشیا یا ایکٹر اسلامی ریاست کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ ہمارا انٹرنیشنل امیج پہلے سے بہتر ہوا ہے‘ اسے مزید بہتر کرنا ہو گا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان میں مکمل امن ہو‘ بیرونی سرمایہ کاری آئے۔ موجودہ حالات میں چین‘ روس‘ ایران‘ ترکی اور سعودی عرب سے قریبی روابط ناگزیر لگتے ہیں لیکن امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کسی صورت پاکستان کے لیے سود مند نہیں ہو گا۔ خارجہ پالیسی میں جذباتیت کی گنجائش نہیں ہوتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں