"JDC" (space) message & send to 7575

سندھ طاس معاہدہ‘ حقیقت اور فسانہ

سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے چھپن برس ہو چکے ہیں۔ اکثر ایکسپرٹ اسے کامیاب معاہدوں میں شمار کرتے ہیں۔ اس ٹریٹی پر انڈیا‘ پاکستان اور ورلڈ بینک نے سائن کئے تھے‘ اسی وجہ سے پاکستان میں عام غلط فہمی ہے کہ ورلڈ بینک اس معاہدے کا گارنٹر یعنی ضامن ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے چند روز پہلے اپنے بیان میں ورلڈ بینک کے لیے معاہدے کے ضامن ہونے کا عندیہ دیا۔ ورلڈ بینک نے یہ معاہدہ کرانے میں فعال کردار ضرور ادا کیا تھا‘ مالی وسائل جمع کرنے میں بھی پاکستان کی مدد کی تھی‘ معاہدے پر اختلاف کی صورت میں تصفیہ کرانے میں بھی ورلڈ بینک کا رول ہے‘ لیکن اُسے ضامن پھر بھی نہیں کہا جا سکتا۔ 
اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا یعنی راوی‘ ستلج اور بیاس انڈیا کو دے دیے گئے جبکہ مغربی دریا یعنی چناب‘ جہلم اور سندھ پاکستان کو ملے۔ تین مغربی دریائوں سے مقبوضہ کشمیر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پینتیس (35) لاکھ ایکڑ فٹ پانی انڈیا کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ انڈیا اپنے اس حصے کو آج تک مکمل طور پر استعمال نہیں کر سکا۔ سندھ طاس معاہدہ انڈیا کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ مغربی دریائوں پر ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ بنا سکتا ہے۔
میرے دو دوست سندھ طاس منصوبے کے بارے میں خاصے باعلم ہیں‘ جبکہ میری حیثیت اس سلسلہ میں مبتدی والی ہے۔ ایمبیسیڈر شفقت کاکاخیل انڈیا میں ہمارے ڈپٹی ہائی کمشنر رہے‘ پھر کئی سال یو این کے ماحولیاتی پروگرام کے ساتھ نیروبی میں سینئر پوزیشن پر رہے۔ آج کل اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک سے وابستہ ہیں۔ انڈیا اُن کا آنا جانا اب بھی رہتا ہے۔ میں نے شفقت کاکاخیل سے پوچھا کہ کیا واقعی ہمارے دریائوں کا پانی روک کر انڈیا پاکستان کو ریگستان بنا سکتا ہے۔ جواب ملا کہ یہ سوال اگر مجھ سے کوئی ٹی وی اینکر پوچھتا تو مجھے حیرت نہ ہوتی‘ مگر تُم جیسے پڑھے لکھے سابق سفیر سے مجھے اس سوال کی قطعاً امید نہ تھی۔ میں کھسیانا سا ہو گیا اور استفسار کیا کہ میرے سوال میں کیا سقم ہے؟ جواب ملا کہ انڈیا اگر چناب‘ جہلم اور سندھ کے پانیوں کو روکے گا تو تقریباً سارے کا سارا مقبوضہ کشمیر زیر آب ہو گا‘ شاید اونچے پہاڑ ہی محفوظ رہیں‘ لہٰذا انڈیا ایسا نہیں کر سکتا۔
میرے دوسرے دوست‘ جو انڈو پاک تنازعات پر گہری نظر رکھتے ہیں‘ ڈاکٹر اعجاز حسین ہیں‘ پیرس یونیورسٹی سے انٹرنیشنل لا میں پی ایچ ڈی کرکے ساری عمر تدریس اور ریسرچ میں گزاری‘ کئی کتابیں لکھیں۔ مسئلہ کشمیر کے قانونی پہلو پر اتھارٹی ہیں۔ سندھ طاس معاہدے پر ان کی کتاب جلد آنے والی ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ کشن گنگا ڈیم بننے سے پاکستان کے حصے والے پانی میں کوئی کمی آئی ہے؟ جواب نفی میں ملا۔ ڈاکٹر صاحب میری شام کی واک کے ساتھی بھی ہیں۔ کہنے لگے: پاکستان کو پانی پہلے کی طرح ہی ملے گا؛ البتہ نیلم جہلم ڈیم سے حاصل ہونے والی بجلی پر دس فیصد منفی اثر پڑے گا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ تو جواب ملا کہ انڈیا نے کشن گنگا کا رُخ موڑا ہے‘ اس وجہ سے آزاد کشمیر میں دریائے نیلم کا بہائو اتنا زوردار نہیں رہا جتنا پہلے تھا؛ البتہ پانی کی مجموعی مقدار میں کمی نہیں آئی۔ یاد رہے کہ ہمارے ہاں نیلم کہلانے والا دریا مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا کہلاتا ہے۔
ہمیں دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے خود اپنے گریباں میں جھانکنا چاہیے۔ نیلم جہلم پروجیکٹ 1989ء میں منظور ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ 2002ء میں کام شروع ہو گا۔ پروجیکٹ پر مجموعی لاگت پندرہ گنا بڑھ چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شروع میں مالیاتی مسائل حائل تھے اور پھر 2005ء کے زلزلے کی وجہ سے ڈیزائن بدلنا پڑا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کام ابھی جاری ہے۔ کیا ہمیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں سے نہیں پوچھنا چاہیے کہ صرف 167 ملین ڈالر کا انتظام کرنے کے لیے تیرہ سال کیوں درکار تھے۔ اگر ہم کشن گنگا ڈیم شروع ہونے سے پہلے نیلم جہلم بنا لیتے تو ہمارا کیس بہت مضبوط ہوتا اور پھر شاید ہم کشن گنگا کو رکوانے کی پوزیشن میں ہوتے۔ 
جماعت علی شاہ تقریباً سترہ سال ہمارے انڈس واٹر کمشنر رہے۔ سترہ سال تک ان کی حب الوطنی پر کوئی حرف نہیں آیا۔ پھر ایک سال ایسا ہوا کہ ہمارے دریائوں میں پانی کی کمی تھی‘ پھر سے افواہیں گردش کرنے لگیں کہ ہمارا پانی انڈیا نے روک لیا ہے۔ شاہ صاحب سے پوچھا گیا کہ آیا انڈیا ہمارا پانی چُرا رہا ہے ان کا جواب نفی میں تھا۔ استدلال یہ تھا کہ بارشیں کم ہونے کی وجہ سے دریائوں میں پانی کم آیا ہے۔ اُس کے بعد چند مخصوص حلقوں کی جانب سے جماعت علی شاہ کو غداری کے میڈل ملنے لگے۔ میرے نزدیک یہ بات انتہائی افسوسناک تھی کیونکہ جماعت علی شاہ کو اپنی پوزیشن کے دفاع کا پورا حق تھا۔ ان کی سائیڈ کی سٹوری سننے کی زحمت ہی نہیں کی گئی۔
کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں ڈیم بنے مگر جماعت علی شاہ نے حکومت پاکستان کو اطلاع نہیں دی۔ میری شاہ صاحب سے کوئی دوستی نہیں‘ نہ ہی میں کبھی ان سے ملا ہوں‘ مگر سوال یہ ہے کہ آج کے دور میں کوئی آبی بجلی کا منصوبہ سیکرٹ رہ سکتا ہے؟ ان باتوں کا جواب شاید شاہ صاحب کبھی دیں‘ لیکن کوئی دو سال پہلے کی بات ہے‘ سوشل میڈیا بتا رہا تھا کہ غدار جماعت علی شاہ کینیڈا بھاگ گیا ہے۔ میں ڈاکٹر اعجاز حسین کے ساتھ شام کی واک کر رہا تھا۔ وہ اپنی کتاب کے سلسلہ میں ریسرچ میں لگے ہوئے تھے۔ میں نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ کیا واقعی جماعت علی شاہ ملک سے بھاگ گئے ہیں؟ جواب ملا کہ نہیں اور ثبوت کے طور پر بتایا کہ اُن سے لاہور میں فون پر بات ہوئی ہے۔
میں جب اس موضوع پر ماہرین سے سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو یہی پتا چلا کہ سندھ طاس معاہدہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ انڈیا نے ہمارا پانی چوری نہیں کیا بلکہ آج تک انڈیا مقبوضہ کشمیر کے حصے کا پانی بھی پوری طرح استعمال نہیں کر سکا مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ جیسے جیسے انڈیا اور ڈیم بناتا جائے گا اس کی پاکستان کو تنگ کرنے کی استطاعت مزید بڑھے گی یعنی وہ ڈیم اُس وقت بھرنا شروع کر دے جب ہمیں زرعی اغراض کے لیے پانی کی ضرورت ہو۔ ہمیں اس صورتحال کے مقابلے کا سوچنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں