"JDC" (space) message & send to 7575

ڈنمارک، پاناما پیپرز اور پاکستان

ڈنمارک دنیا کا سب سے ایماندار ملک ہے۔ وہاں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی 2015ء کی ریٹنگ کے مطابق ایمانداری میں ڈنمارک نے سو میں سے اکانوے (91) نمبر حاصل کئے اور دنیا بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی جبکہ پاکستان نے سو میں سے اٹھارہ(18) نمبر حاصل کئے اور 168 ممالک کی فہرست میں 154ویں پوزیشن ہی لے سکا۔ دنیا کے دس ایماندار ترین ممالک میں ڈنمارک‘ نیوزی لینڈ‘ فن لینڈ‘ سویڈن‘ ناروے‘ سوئزرلینڈ‘ سنگاپور‘ ہالینڈ‘ لکسمبرگ اور کینیڈا شامل ہیں۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ ان دس ممالک میں ایک بھی مسلم ملک نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی کہے کہ یہ لسٹ مغربی ممالک کی بنائی ہوئی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے امریکی سازش قرار دیا جائے، لیکن امریکہ کا خود سترھواں(17) نمبر ہے، لہٰذا یہ امریکی سازش نہیں ہو سکتی۔
آپ نے ضرور نوٹ کیا ہو گا کہ ڈنمارک نے بھی ایمانداری میں سو فیصد مارکس حاصل نہیں کئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں بھی تمام فرشتے نہیں ہیں اور اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ڈنمارک کے پانچ سو سے زائد شہریوں کے نام پاناما پیپرز میں آئے ہیں۔ چنانچہ ڈنمارک کی پارلیمنٹ اور حکومت نے چھ ملین کرونا یعنی تقریباً ایک ملین ڈالر کسی نامعلوم کمپنی کو ادا کئے ہیں تاکہ اضافی معلومات کے ذریعے ٹیکس چوروں کا تعاقب کیا جا سکے۔ ڈنمارک کی ٹیکس اتھارٹی جو ہمارے ایف بی آر کی مترادف ہے کا کہنا ہے کہ ان معلومات کی وجہ سے اربوں ڈالر ریکور ہونگے۔ ڈنمارک کے ٹیکس منسٹر کا کہنا ہے: '' تمام قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ معلومات مفید ہونگی۔ ڈنمارک کے ایماندار ٹیکس دہندگان کی طرف سے یہ قدم اٹھانا حکومت پر واجب تھا‘‘۔ یہاں یہ بات محل نظر ہے کہ ڈنمارک اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس ادا کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
اور اب آتے ہیں پاکستان کی جانب۔ ہم گزشتہ سات ماہ سے دائروں میں گھوم رہے ہیں، نہ ہم سے ٹی او آرز بن پائے اور نہ ہی سپریم کورٹ کی ڈائریکشن کے مطابق کوئی جاندار کمشن۔ پچھلے مہینے سید خورشید شاہ نے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لیے اس مسئلہ کو ڈسکس کرنے کے لیے پی اے سی کا اجلاس بلایا۔ میٹنگ شروع ہی ہوئی تھی کہ فیڈرل لاء سیکرٹری کرامت حسین شیرازی نے ٹیکنیکل بائونسر مارا کہ پی اے سی صرف اُن اخراجات کو ڈسکس کرنے کی مجاز ہے جو بجٹ سے کئے جائیں۔ مزید یہ کہ پی اے سی کی گفتگو آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی روشنی میں ہوتی ہے۔ پاناما میں قائم شدہ پاکستانی شہریوں کی کمپنیوں کا چونکہ پاکستانی بجٹ سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا یہ صحیح فورم نہیں۔ ویسے اصولی طور پر لاء سیکرٹری کی بات درست تھی۔ لیکن شیخ رشید پی اے سی کی میٹنگ سے واک آئوٹ کر گئے۔ انہیں اس دال میں کچھ کالا نظر آیا۔ انہیں اعتراض یہ تھا کہ لاء سیکرٹری کو سب سے پہلے بولنے کی دعوت کیوں دی گئی۔ 
ایف آئی اے کے ڈی جی نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ اُن کے ادارے کے پاس پبلک آفس ہولڈرز کے خلاف تحقیقات کرنے کا اختیار نہیں۔ گویا تمام سیاسی لیڈر جو حکومتی عہدوں پر فائز ہیں، ایف آئی اے کی پکڑ سے باہر ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں ہم بار بار یہ مثال دیتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے کس طرح احتساب اپنے اوپر اور مصر کے گورنر پر لاگو کیا تھا، وہاں ہمارے سیاسی حکمران ایف آئی اے کے احتساب اور انکوائری کے دائرے سے باہر ہیں۔
چیئرمین نیب قمر الزمان چوہدری دور کی کوڑی لائے اور پی اے سی کو بتایا کہ اُن کا ادارہ ایسی معلومات پر ایکشن لیتا ہے جن میں کوئی جان ہو جبکہ پاناما پیپرز کو لیکس کا نام دیا گیا ہے اور جس کمپنی سے یہ معلومات چرائی گئی ہیں اُس نے معلومات کی صحت کے بارے میں کچھ نہیں کہا اور نہ ہی یہ کہا کہ یہ معلومات ہماری ہی کمپنی سے متعلق ہیں۔ چوہدری صاحب کو شاید یہ معلوم نہیں کہ پاناما کے دو وکیلوں کی یہ فرم جس کا نام Mossak Fonseca ہے مدافعانہ رویہ اختیار کر چکی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان کی بنائی ہوئی تمام آف شور کمپنیاں دو نمبر کی نہ ہوں لیکن یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ آف شور کمپنیاں ٹیکس چوری کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، لہٰذا پاناما اور ورجن آئی لینڈ کی کمپنیوں میں بہت سا کالا دھن پڑا ہوا ہے۔ پاناما کی اس کمپنی کی معلومات چونکہ نقب زنی کی بدولت میڈیا کے ہاتھ آئی ہیں یعنی ان کا کمپیوٹر کا نظام Hack ہوا ہے، لہٰذا کمپنی کنفیوژن کا شکار ہے۔
پی اے سی کو ایف آئی اے کے چیئرمین نے بتایا کہ سٹیٹ بینک کی ہدایت کے مطابق ہم نے کئی لوگوں کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں، لیکن ان تحقیقات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ مثلاً یہ بھی دیکھا جا رہا ہے قرضے کس کس نے معاف کرائے۔ کس نے کتنے پیسے ملک سے باہر بھیجے اور کتنے منگوائے۔ آف شور کمپنیاں کس کس نے بنائیں اور کس کے بینک لا کر میں کیا پڑا ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تمام معلومات اکٹھا کرتے کرتے ڈیڑھ سال آسانی سے گزر جائے گا۔
پاناما پیپرز کی اب تک دو قسطیں آ چکی ہیں۔ پہلی قسط میں وزیراعظم نواز شریف کے دو صاحبزادوں اور صاحبزادی کا نام تھا۔ اگر یہ نام لسٹ میں نہ ہوتے تو شاید تحقیقات شروع ہو چکی ہوتیں۔ پاناما کی لاء فرم کے کمپیوٹر میں نقب زنی کس نے کی، یہ ابھی معلوم نہیں ہو سکا۔ ناموں کی دوسری قسط جون ڈو John Doc کے فرضی نام سے ریلیز کی گئی۔ اس میں ویسے تو کئی پاکستانیوں کے نام ہیں لیکن میری نظر فوراً دو ناموں پر گئی، ایک صاحب عبدالستار ڈیرو ہیں جو پورٹ قاسم اتھارٹی کے ایم ڈی رہے ہیں اور دوسرے زین سکھیرا ہیں جو حج سکینڈل کے دنوں میں مشہور یا بدنام ہوئے تھے۔ میں نے دونوں کی شکل کبھی نہیں دیکھی لیکن ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھا کہ انہیں پیسہ باہر لے جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ 
کرپشن اب انٹرنیشنل پرابلم بن چکی ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ نے ایک کنونشن پاس کیا تھا، یہ 1990ء کی دہائی کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، پاکستان نے کنونشن پر فوراً دستخط کئے اور اس بات کی خوب تشہیر کی گئی۔ آئی ایم ایف کی سربراہ خاتون نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا ہے اور کرپشن کے خلاف اقدامات پر زور دیا ہے کہ یہ ناسور اقتصادی ترقی کو گھن لگا دیتا ہے۔ پاناما پیپرز کے بارے میں ڈنمارک اور پاکستان کے مواقف میں ہمیں واضح فرق نظر آتا ہے۔ یہاں وزیر اعظم کے خاندان کو بچانے کے لیے سرتوڑ کوششیں ہوئیں۔ معاملے کو التواء میں ڈالنے کے لیے جھوٹے وعدے کئے گئے۔ ڈنمارک نے اضافی معلومات خریدنے کے لیے ایک ملین ڈالر کسی نامعلوم کمپنی کو ادا کر دیے ہیں، لگتا ہے کہ ڈنمارک میں نیب نام کا کوئی ادارہ نہیں ورنہ ضرور سمجھاتا کہ حکومت مشکوک سی بے نامی معلومات حاصل کرنے کے لیے اتنی خطیر رقم ضائع نہ کرے۔ ڈنمارک ایماندار ملک ہے اور پاکستان کرپشن فرینڈلی‘ فرق صاف ظاہر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں