"JDC" (space) message & send to 7575

ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان

ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی الیکشن میں جیت تمام دنیا کے لیے حیران کن ہے۔ امریکی رائے عامہ کے سروے ہیلری کلنٹن کو فیورٹ امیدوار بتا رہے تھے۔ ٹی وی پر تینوں مباحثوں میں بھی خاتون کا پلڑا بھاری رہا۔ امریکی میڈیا خاصی حد تک ٹرمپ کے خلاف تھا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے حق میں نہیں تھی۔ لہٰذا نتیجہ ایک انہونی کے ہو جانے کے مترادف تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے بارے ہر خوش فہمی سے آزاد ہیں۔ الیکشن مہم سے پہلے اور اس کے دوران ان کے بیانات خاصے چشم کشا ہیں۔ 2012ء میں ایک چینل کو انٹرویو دتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے لیے پاکستان کو تمام دنیا سے معافی مانگنی چاہیے۔ فوکس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ کے دس ہزار فوجی افغانستان میں رہنا چاہئیں کیونکہ افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ہے جو کہ ایک نیوکلیئر طاقت ہے۔ پھر سی این این کو ببانگ دہل کہا ''پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام ایک اہم مسئلہ ہے انہیں چاہیے کہ صورت حال پر بہتر کنٹرول حاصل کریں‘‘ مارچ 2016ء میں لاہور میں ایسٹر کے موقع پر مسیحی بھائیوں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ اس المناک حملے میں ستر سے زائد لوگ لقمہ اجل بنے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا۔I alone can solve it یعنی اس مسئلے کا حل صرف میرے پاس ہے۔ لیکن ٹرمپ کا پاکستان کے بارے میں سب سے سخت بیان اس سال الیکشن مہم کے دوران آیا جومن و عن یہ تھا۔
"Probably the most dangerous country. You have to get India involved. India is a check on Pakistan- I will start talking at that level very very quickly"
''پاکستان شاید دنیا کا خطرناک ترین ملک ہو۔ پاکستان کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں انڈیا کو حرکت میں لانا ہوگا۔ میں فوراً ہی اس سلسلہ میں بات چیت شروع کروں گا‘‘۔ شکیل آفریدی کے بارے میں ٹرمپ کا ارشاد تھا '' میں شکیل آفریدی کو دومنٹ میں جیل سے نکال لوں گا کیونکہ ہم پاکستان کو کافی امداد دیتے ہیں‘‘۔ ایک اور بیان میں موصوف نے فرمایا کہ پاکستان نیم غیرمستحکم ہے اور دہشت پسندوں کا ٹھکانہ ہے اوراب آتے ہیں اس حکمت عملی کی جانب جو امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے اس الیکشن کے دوران اپنائی۔ ٹرمپ نے مسلمانوں پر امریکی امیگریشن کے دروازے بند کرنے کی بات کی تو پاکستانی جذباتی ہوگئے۔ حالانکہ ٹرمپ نے بعد میں اپنا بیان خاصا بدل لیا تھا۔ پاکستانی کمیونٹی نے ہیلری کلنٹن کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی یعنی اپنے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیئے اور وہ ٹوکری گر گئی ہے۔ لہٰذا ہمارے تمام کے تمام انڈے ٹوٹ چکے ہیں۔ انڈین لابی ہم سے ہوشیارنکلی اور دونوں امیدواروں کی حمایت کی ۔ لہٰذا چہ عجب کہ شیوسینا والوں نے دہلی میں ٹرمپ کی جیت کا خوب جشن منایا۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان پر ہر قسم کا دبائو ڈالنے میں اب امریکہ انڈیا کے ساتھ ہوگا۔
اس ضمن میں پاکستانی نژاد خضرحیات خان کا کردار بھی نادانستہ طورپر ہمارے لیے نقصان دہ ہی رہا۔ امریکہ کے لیے ان کے بیٹے ہمایوں خان کی جان کی قربانی کے سب معترف ہیں لیکن جس طرح سے خضرحیات نے ٹرمپ کو بھرے مجمع میں للکار کر کہا کہ تم نے تو کوئی قربانی نہیں دی۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ امریکہ کے دستور کا بغورمطالعہ کریں۔ ٹرمپ کو یہ واقعہ یقینا یاد رہے گا۔ خضرحیات خان نے گو یہ بات بطور امریکی شہری کی لیکن اسے ڈالا پاکستان ہی کے کھاتے میں جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے فرمودات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یقینا پاک امریکہ تعلقات مستقبل قریب میں غیر واضح لگتے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان پر ڈومور کا حکم زیادہ استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔ لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ موجودہ عالمی حالات میں نہ پاکستان امریکہ کو چھوڑ سکتا ہے اور نہ امریکہ پاکستان کو۔ لیکن بقول فراز یہ تعلق اب رہ و رسم دنیا نبھانے کے لیے زیادہ ہوگا۔
امریکہ ہمارا سب سے اہم تجارتی پارٹنر ہے۔ پاکستانی طالب علم وہاں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ امریکہ اب بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں اہم رول رکھتا ہے۔ مجھے افغانستان سے امریکی فوج مستقبل قریب میں جاتی نظر نہیں آ رہی، ایٹمی قوت ہونے کے ناتے امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی قائم رہے گی گو کہ وہ ایک حد تک منفی ہوگی۔ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی اب خاصی بڑی ہے، جو پاکستانی غیر قانونی طور پر وہاں مقیم ہیں ان کے واپس آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، لیکن پھر بھی پاکستانی نژاد وہاں بڑی تعداد میں موجود رہیں گے۔ دنیا بھر میں ریسرچ کا سب سے زیادہ کام امریکہ میں ہوتا ہے۔ ہمارے لیے ترقی کے لیے ریسرچ کا میدان بے حد ضروری ہے۔ لہٰذا امریکہ سے قطع تعلقی ہمارے لیے مفید ہوگی اور نہ ہی امریکہ کے لیے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کے تناظر میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ٹرمپ کی کامیابی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ روس اور امریکہ کے تعلقات میں قدرے بہتری آئے گی۔ البتہ چین کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات میں مزیدگرم جوشی آئے گی اس لیے کہ ٹرمپ اورمودی دونوں نسل پرست ہیں۔ دونوں چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم زندہ قوم رہنے کے لیے نیا عزم پیدا کریں۔ اندرونی خلفشار ختم کریں اوراگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم تو ضرور ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان جاری سرد جنگ کو اب ختم ہونا چاہیے اور اس کے لیے احتساب کا صاف اور شفاف نظام چاہیے۔ قوم نے سپریم کورٹ سے بہت امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔
اندرونی خلفشار کی دوسری شکل ہمیں سنٹر اور صوبوں کے درمیان غلط فہمیوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اگر وفاق کے فیصلوں اور طریقہ کار میں شفافیت ہو تو شاید یہ غلط فہمیاں کم ہو جائیں۔ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر کامیابی کے لیے ازبس ضروری ہے کہ سول ملٹری تعلقات مثالی ہوں۔ ہمیں سی پاک کی کامیابی کے لیے دن رات یکسوئی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں چھوٹے صوبوں کو جو بھی تحفظات ہیں وہ دور ہونے چاہئیں اور ہم اس بات کے قطعاً متحمل نہیں ہوسکتے کہ 2018ء کا الیکشن ذرہ برابر بھی متنازع ہو۔ دشمن کی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے خفیہ اداروں کا کام بہت اہم ہے اور اب ٹیکس ایمانداری سے دینے کا وقت بھی آ گیا ہے۔ پاکستان میں ہماری جری افواج کے ہوتے ہوئے کسی لشکر اورکسی جیش یا نیٹ ورک کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ہمارے عوام ہیں اور وہ میرٹ اور رول آف لاء چاہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں