"JDC" (space) message & send to 7575

ٹوبہ ٹیک سنگھ: چند تاثرات اور حقائق

پچھلے دنوں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اپنے گائوں جانے کا پھر سے موقع ملا۔ زمین کا سالانہ ٹھیکہ دینے اور گائوں کے دیگر مسائل دیکھنے کے لیے سال میں دو تین مرتبہ وہاں جانا ضروری ہوتا ہے۔ گوجرہ تک موٹر وے آپریشنل ہے لہٰذا سفر خاصا آسان ہو گیا ہے اور ایک دو سال میں ہم موٹر وے سے ڈائریکٹ اپنے گائوں جایا کریں گے۔ ایک اور موٹر وے جو لاہور سے عبدالحکیم اور ملتان جائے گی بھی زیر تعمیر ہے۔ سڑکوں کے اس جال کی وجہ سے ٹوبہ ٹیک سنگھ دنیا کے نقشے پر نمایاں ہو گیا ہے۔
چند روز ہوئے کہ معاصر کالم نگار مشرف زیدی نے مختلف آرمی چیفس کے بارے میں اپنی آرا ایک انگریزی اخبار میں لکھی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں تحریر تھا کہ جب وہ آرمی چیف بنے تو مکمل طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ تھے اور ان کے پاس صرف انکساری تھی۔ چند سال پہلے ٹی وی پر ایک ڈرامہ بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ چلا تھا۔ اس ڈرامہ میں بوٹا ایک ایسا کردار تھا جو بیوقوفی کی حد تک سادہ ہے۔ لیکن یہ کردار اس ضلع کے لوگوں کا نمائندہ نہیں کیوں کہ یہاں کے لوگ محنتی اور ذہین ہیں۔ میں اپنے گائوں ہی میں تھا کہ اسلام آباد سے ایک دوست کا فون آیا کہ آپ سے ضروری ملاقات کرنی ہے میں نے جواب دیا کہ فی الحال میں اپنے گائوں میں ہوں جو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں واقع ہے کہنے لگے چلیں سعادت حسن منٹو کو میرا سلام پہنچا دیں۔
1890ء کے قریب انگریز حکمرانوں نے ساندل بار اور نیلی بار میں نہریں بنائیں اور ریلوے لائن بچھا دی۔ جالندھر، ہوشیار پور، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ جیسے گنجان آباد اضلاع سے زمیندار یہاں آ کر آباد ہوئے۔ ان میں سکھ اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ ہندو تاجر اور مسلمان تاجر زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں آباد ہوئے۔ اس زمانے میں سفر گھوڑوں پر ہوتا تھا ۔ سڑکیں کچی اور دشوار گزار تھیں۔ مسافروں کی پیاس بجھانے کے لیے ٹیک سنگھ نامی ایک شخص تالاب سے لوگوں کو پینے کے لیے پانی فراہم کرتا تھا، اسی نیک انسان کا نام اور اس کا فلاحی کام اس شہر کی وجہ تسمیہ بنا۔ پاکستان بننے کے بعد اس نام کو بدلنے کے لیے کئی سال تک کوشش کی گئی جو کہ ناکام رہی ۔مقامی آباد کے ایک موثر حصّے کی دلیل تھی کہ شہر کا نام بدلنا ایک انسان دوست شخص کے فلاحی کام کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اکثریت چھوٹے کسانوں کی تھی۔1930ء کے آس پاس عالمی کساد بازاری شروع ہوئی اور دس سال تک پوری دنیا میں منفی اثرات مرتب ہوتے رہے۔ ان حالات میں روس انقلاب کی صورت میں طلوع ہونے والا سوشلزم کا نظریہ چھوٹے کسانوں میں مقبول ہوا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان تحریک زوروں پر تھی۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ زرعی زمین اور دیگر پیداوار کے ذرائع مثلاً انڈسٹری مشترک ملکیت میں حکومت کے پاس ہونے چاہئیں۔ یہی وجہ تھی کہ 1970ء میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے پورے مغربی پاکستان میں کسان کانفرنس کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا انتخاب کیا تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے سے سوشلزم کا نعرہ بھی دم توڑ گیا اور اس کے اثرات ٹوبہ ٹیک سنگھ تک پہنچے۔ پچھلے دو تین عشروں میں اس ضلع میں مسلم لیگ کا ووٹ بنک زیادہ رہا اور اب تحریک انصاف کا چیلنج بھی واضح ہے۔
یہاں اگر کسان تحریک زوروں پر تھی تو دائیں بازو کی پارٹیاں بھی فعال رہیں۔ شہر کا نام والسلام تجویز کیا گیا لیکن سخت مخالفت کی وجہ سے یہ تجویز ترک کر دی گئی۔ مذہبی جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے اس شہر میں آج تک ایک بھی سینما ہال نہیں بن سکا۔1965ء کے آغاز میں صدر ایوب اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب کا معرکہ ہوا۔ حکومت کی تمام مشینری یعنی تھانیدار اور پٹواری ایوب خان کے لیے کام کر رہے تھے۔ ووٹ صرف بنیادی جمہوریت کے ممبران نے دینا تھا۔ ایک ایک ممبر کو بلا کر دھونس دھمکی اور لالچ دونوں سے رام کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن ٹوبہ ٹیک سے مادر ملت کو ایوب خان سے زیادہ ووٹ ملے۔ پورے مغربی پاکستان میں صرف کراچی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی حکومت وقت کے سامنے ڈٹے رہے۔ اس ضلع میں سیاسی شعور باقی اضلاع سے زیادہ ہے۔ لیکن مادر ملت کو ووٹ دینے کی اس علاقے کو ایک سزا یہ ملی کہ عرصے تک یہاں کوئی قابل ذکر انڈسٹریل یونٹ نہیں لگا اور نتیجہ اقتصادی پس ماندگی کی صورت میں نکلا۔
سیاسی شعور کے باوجود یہاں ووٹ آج بھی برادری کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں خصوصاً دیہی علاقوں میں۔ تحصیل ٹوبہ میں آرائیں برادری واضح اکثریت میں ہے۔ تحصیل گوجرہ میں جاٹ گوجر اور راجپوت برادریوں کا مکسچر ہے۔ لیکن سیاسی طو ر جاٹ سٹرانگ ہیں۔ تحصیل کمالیہ میں کھرل راجپوت مضبوط ہیں لیکن آرائیں برادری انہیں چیلنج ضرور کرتی ہے۔ سیاسی شعور اور چھوٹی لینڈ ہولڈنگ کی وجہ سے علاقے کے لوگ تعلیم کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔1920ء کے آس پاس ڈاکٹر فرید بخش مرحوم نے اپنے دور دراز گائوں میں ہائی سکول بنایا تھا جو بعد میں ڈگری کالج بنا۔ یہاں ایک گائوں موروثی پور ہے جو اپنے شاندار سکول کی وجہ سے مشہور ہوا۔ میں نے اس سکول سے فارغ التحصیل کئی ڈاکٹر انجینئر چارٹرڈ اکائونٹنٹ برطانیہ امریکہ اور کینیڈا میں دیکھے ہیں تعلیم اور محنت کے ذریعہ ترقی اس ضلع کا طرّۂ امتیاز ہے اور اس عمل کی منہ بولتی مثال چوہدری سرور ہیں۔ آج بھی نواحی دیہات سے ہزاروں بچے ٹوبہ کے پرائیویٹ سکولوں میں روزانہ آتے ہیں۔ ویسے تو تقریباً ہر گائوں میں سرکاری سکول ہے لیکن مڈل کلاس کے کسان اپنے بچوں کو انگریزی سکولوں میں ہی بھیجتے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ لڑکیاں تعلیم میں لڑکوں کے شانہ بشانہ ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی روائتی اقتصادی پس ماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے ووٹرز نے کئی مرتبہ ایسے لوگوں کا بطور نمائندہ انتخاب کیا جو لاہور اسلام آباد یا ملتان میں رہتے تھے۔ اس کی واضح مثالیں اعجاز الحق ،میاں عبدالوحید چوہدری، عبدالستار اور موجودہ ایم این اے جنید انوار ہیں۔ یہ لوگ لوکل مسائل کا ادراک کم رکھتے تھے اور اگر مسائل کو جانتے بھی تھے تو بھی پوری توجہ حل تلاش کرنے پر نہیں دے سکتے تھے۔
1982ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ تحصیل کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے رہائشی علاقوں میں بے شمار دکانیں بن گئی ہیں۔ ٹائون پلاننگ کا بنیادی اصول کہ رہائشی اور کمرشل علاقے علیحدہ ہونا چاہئیں یہاں بے دردی سے پامال ہوا ہے۔
اس مرتبہ شہر کے ایک تجربہ کار ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی میں نے سوال کیا کہ اس ضلع میں ہیپاٹائٹس سی یعنی کالا یرقان کیوں تیزی سے پھیل رہا ہے کہنے لگے اس افسوسناک عمل کے ذمہ دار بڑی حد تک ڈاکٹر خود ہیں یہ مرض خون کے ذریعے یا آلودہ طبی آلات سے پھیلتا ہے۔ مریض پہلے گائوں یا شہر کے عطائی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ مرض چاہے عام سا ہو وہ ڈاکٹر سے ٹیکہ لگانے کی درخواست کرتا ہے عطائی ڈاکٹرز عموماً استعمال شدہ سرنج سے ٹیکہ لگاتے ہیں جو آلودہ ہو سکتی ہے۔ عام نزلہ زکان کھانسی یا بخار کا علاج کراتے کراتے مریض یرقان جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹرز صاحب نے کمال ایمانداری سے یہ رائے بھی دی کہ باقاعدہ ڈگری یافتہ اور ٹرینڈ ڈاکٹر بھی سرجری کرتے وقت اپنے آلات پوری طرح جراثیم سے پاک نہیں کرتے ۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ مردم خیز علاقہ ہے یہ بات میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میرا تعلق وہاں سے ہے بلکہ اس کا مُنہ بولتا ثبوت وہ لوگ ہیں جو یہاں سے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ نے جسٹس محمد افضل چیمہ اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے جیسے جج پیدا کیے اور حمزہ صاحب اور غیاث الدین جانبار جیسے سیاستدان‘ خالد کھرل اور حفیظ اللہ اسحاق جیسے بیورو کریٹ بھی یہیں کے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال جیسا جرنیل پیدا کیا جس نے سوات میں دہشت گردوں کا جواں مردی سے مقابلہ کیا لہٰذا مشرف زیدی کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بارے میں استعارہ برمحل نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں