"JDC" (space) message & send to 7575

ایک شاندار ادارے کا زوال

خارجہ پالیسی اور فارن آفس کی اہمیت کا ادراک ہمارے ہاں بہت کم لوگوں کو ہے۔ اکثر لوگوں کو یہ علم نہیں کہ خارجہ پالیسی اور سفارت کاری دو مختلف چیزیں ہیں۔ بہت سارے ٹی وی اینکرز کا خیال ہے کہ وزیر اعظم ہمہ وقت وزیر خارجہ اپوائنٹ کر دیں گے تو اور ہماری سفارت کاری فوراً موثر ہو جائے گی۔ میری رائے میں سفارت کاری موثر کرنے کا بہترین طریقہ فارن سروس کو خوب تر بنانا ہے۔ میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہمارے سفارت کار قابل رشک پرفارمنس دیا کرتے تھے۔ ترقی پذیر ممالک کے ڈپلومیٹ انہیں رشک اور احترام سے دیکھتے تھے اور پھر 1972ء سے اس ادارے کا زوال شروع ہوا تو تا دمِ تحریر جاری ہے اور اس زوال کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سی ایس ایس میں ٹاپ کرنے والے امیدوار فارن سروس میں آنے کو ترجیح دیتے تھے۔ سفارت کاروں کے بچے خود ڈپلومیٹ بننا چاہتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ فوزیہ عباس اور شاہد کمال کے بعد کسی سفیر کے بیٹے یا بیٹی نے فارن سروس کا رخ نہیں کیا۔ یہ دونوں اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ میں نے اپنے چار بچوں میں سے ایک کو فارن سروس میں آنے کی بہت ترغیب دی مگر ناکام رہا۔ آج بین الاقوامی سطح پر پاکستان کسی حد تک سفارتی تنہائی کا شکار ضرور ہے۔ انڈیا ہمیں مزید تنہا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پاکستان کے بارے میں انڈیا اور افغانستان کے بیانات پڑھیں تو لگتا ہے کہ ایک ہی شخص نے لکھے ہیں۔ کابل والے نیو دہلی کے ہم نوا بن گئے ہیں اور ہمیں انہیں سمجھانے کے طریقے نہیں سوجھتے۔ ہماری برآمدات گر رہی ہیں۔ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس ملنے کے باوجود ہم پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ہمارا فارن آفس رائے دیتا ہے کہ امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی بجائے لوئر لیول نمائندگی ہونی چاہیے مگر وزیر اعظم اس رائے کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ فارن سروس کسی بھی ملک کی پہلی دفاعی لائن ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی اولین دفاعی لائن کو خود ہی کمزور کر لیا ہے۔ اعلیٰ قسم کی فارن سروس وقت کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو دولخت کرنے میں انڈیا کی کامیاب سفارت کاری بھی شامل تھی۔ جب ایسٹ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈپلومیٹ اپنے نئے ملک بنگلہ دیش چلے گئے تو ہمارے فارن آفس میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا۔ اس خلا کو لیٹرل انٹری سے پُر کیا گیا۔ لیٹرل انٹری ایک اچھی سکیم تھی۔ اس سکیم کے تحت اچھے سے اچھے افسر مختلف شعبوں سے فارن سروس میں لیے جا سکتے تھے اس طرح کے عمل سے ہماری سفارت کاری بہت بہتر ہو جاتی مگر بالآخر وہی ہوا جو وطن عزیز میں ہوتا ہے۔ جہاں چند اچھے افسر اپنی قابلیت کی بنا پر فارن سروس کا حصہ بنے‘ وہاں جیالوں کے بھی مزے ہو گئے۔ خورشید حسن میر لیٹرل انٹری کے انچارج تھے۔ موصوف نے اپنے چند عزیز بھی بھرتی کر لیے۔ میرٹ اور شفافیت کو بالائے طاق رکھا گیا۔ فارن سروس میں دو گروپ بن گئے۔ جتنی پوسٹوں کا اخبار میں اشتہار دیا گیا‘ ان سے زیادہ تعداد میں افسر رکھے گئے۔ لیٹرل انٹری کا عمل 1976ء تک تین قسطوں میں مکمل ہوا۔ بااثر لوگوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ سروس میں پروموشن کا عمل سست پڑ گیا۔ سی ایس ایس میں اچھی پوزیشن لینے والے فارن سروس سے گریزاں نظر آنے لگے۔ سمجھ دار امیدوار ڈی ایم جی‘ پولیس سروس اور انکم ٹیکس کی طرف راغب ہوئے کہ وہاں پروموشن کے چانس بھی بہتر تھے‘ رعب داب بھی تھا‘ اپنے خاندان کی مدد کے مواقع بھی تھے اور جلا وطنی بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایک زمانے میں فارن سروس کا بڑا چارم باہر کی دنیا کی سیر تھی۔ اب باقی سروسز میں اتنا پیسہ تھا کہ یورپ امریکہ کی سیر کوئی پرابلم نہیں رہا تھا۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کے ابتدائی سال تھے۔ لیٹرل انٹری کی پہلی کھیپ سروس جائن کر چکی تھی۔ وزیر اعظم سپیشل فلائٹ کے ذریعے مڈل ایسٹ کے کئی ملکوں کا دورہ کر رہے تھے۔ جہاز پر چیف آف پروٹوکول اور فارن سیکرٹری بھی تھے۔ چیف آف پروٹوکول کا تعلق پاک نیوی سے تھا‘ اور ممتاز علوی مرحوم فارن سیکرٹری تھے۔ ایک پروٹوکول افسر بھی وزیر اعظم کے انیٹوراج میں تھا۔ جہاز ہزاروں فٹ کی بلندی پر محو پرواز تھا۔ پروٹوکول افسر نیا نیا لیٹرل انٹری کے ذریعے فارن آفس میں آیا تھا۔ دوران پرواز اسے سر درد شروع ہو گیا۔ پہلو میں بیٹھے افسر نے کہا کہ پی آئی اے کے عملے کے پاس بنیادی دوائیاں اور فرسٹ ایڈ کٹ ہوتی ہے‘ تم ایئر ہوسٹس سے سر درد کی گولی مانگ لو‘ تو موصوف نے ایئر ہوسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے بآواز بلند کہا Miss do you have bullet for headache یعنی محترمہ کیا آپ کے پاس سر درد کی گولی ہے۔ چیف آف پروٹوکول نے قہقہہ لگایا اور معنی خیز نظروں سے فارن سیکرٹری کو دیکھا۔ علوی صاحب گویا ہوئے کہ یہ افسر نیا نیا فارن سروس میں آیا ہے‘ آہستہ آہستہ سیکھ جائے گا۔ اور بیچارے کیا کہتے۔
بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آئے۔ جنرل صاحب نے قانون بنایا کہ ڈی ایم جی فارن سروس اور پولیس سروس میں ہر سال دس فیصد کوٹہ مسلح افواج کا ہو گا اور ساتھ یہ بھی تحریر تھا کہ ان تینوں سروسز میں مسلح افواج سے لیے جانے والے افسروں کی کم از کم تعداد دو دو ہو گی۔ اس وقت فارن سروس کا کیڈر تقریباً پانچ سو افسروں پر مشتمل ہے اور ان میں تقریباً اسی افسر ایسے ہیں جو آرمڈ فورسز کے علیحدہ پروسس کے ذریعے آئے ہیں‘ یعنی سی ایس ایس کا امتحان دیے بغیر۔
اور اب ہم آتے ہیں نان کیریئر سفیروں کی جانب۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ‘ دونوں اپنے من پسند سفیر باہر سے لگاتی ہیں۔ اب اگر ملیحہ لودھی کے پائے کے لوگ نان کیریئر سفیر لگائے جائیں تو شاید بہت کم لوگوں کو اعتراض ہو‘ مگر ہمارے ہاں تو فارن آفس اور سفارت خانے حلوائی کی دکان بن چکے ہیں جہاں دونوں سیاسی پارٹیاں اپنے رفتگان کی فاتحہ پڑھانے میں مصروف رہتی ہیں۔ 1998ء میں تو وزیر اعظم نے کمال کر دیا۔ اپنے ایک ہم زلف‘ جو کہ عام سے اکائونٹنٹ تھے‘ کو برما میں سفیر بنا کر بھیجا۔ علاوہ ازیں اپنے ایک قریبی رشتے دار کے چچا کو سفیر بنا کر بحرین بھیج دیا۔ یہ صاحب ریٹائرڈ کرنل تھے‘ مگر اصل میں میجر تھے۔ فوج میں بعض حالات میں افسر کی حوصلہ افزائی کے لیے ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل نیا رینک دے دیا جاتا ہے ۔ انہی وزیر اعظم نے نیروبی میں مہران بینک کے ایک افسر کو ہائی کمشنر لگایا۔ یہ مہربانی کیوں کی گئی‘ اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ قارئین اس بات سے خوب واقف ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1995ء میں ڈاکٹر فاروق رانا کو کینیڈا میں ہائی کمشنر مقرر کیا۔ جب موصوف کے کاغذات منظوری کے لیے اوٹاوہ بھیجے گئے تو کینیڈین حکومت نے اس امر کی نشان دہی کر دی کہ ڈاکٹر صاحب نے کینیڈین نیشنلٹی کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے۔
حسین حقانی نے کمال فراخدلی سے ویزے دے کر کتنے ریمنڈ ڈیوس پاکستان بھجوائے کسی کو علم نہیں۔ لندن میں ایک سابق ہائی کمشنر صدر زرداری کے اتنے وفادار تھے کہ بینک ریکارڈ قابو کرنے خود زیورخ گئے۔ جنرل مشرف نے اپنے کاکول کے انسٹرکٹر مصطفی انور حسین کو جکارتہ میں سفیر مقرر کیا۔ وہاں حکومت پاکستان کی ملکیت دو شاندار عمارتیں تھیں۔ ایک سفارت خانہ اور دوسری سفیر کی رہائش گاہ۔ موصوف نے فارن آفس سے پوچھے بغیر اپنے نمبر ٹو کی سخت مخالفت کے باوجود اور اخبار میں مشتہر کئے بغیر یہ عمارتیں بیچ ڈالیں۔ یہ کیس آج بھی نیب کے سرد خانے میں پڑا ہے۔ البتہ فارن سروس کے افسر مشتاق حیدر رضوی‘ جو اس وقت جکارتہ میں گریڈ بیس کے افسر تھے‘ کو باقی سروس بطور او ایس ڈی گزارنا پڑی۔ انہیں فارن آفس میں کمرہ تک نہیں دیا گیا۔ موصوف سات سال انصاف کی تلاش میں بھاگتے رہے۔ کسی فارن سیکرٹری کو اپنے افسر کی حمایت کی ہمت نہ ہوئی۔ بالآخر انہیں ایک روز اسلام آباد کلب میں بیٹھے بیٹھے دل کا دورہ پڑا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں