"JDC" (space) message & send to 7575

ترکی میں ریفرنڈم

ترکی کا حالیہ ریفرنڈم پوری دنیا میں دلچسپی کا محور رہا۔ نتائج کی رو سے ترکی پارلیمانی جمہوریت سے صدارتی نظام کی طرف جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ریفرنڈم کو اتنی اہمیت کیسے اور کیوں ملی۔ ترکی تاریخی اعتبار سے جاندار ماضی رکھتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ میں بلقان(سابقہ یوگو سلاویہ) اور مڈل ایسٹ کے کئی ممالک شامل تھے اپنے محلِ وقوع کی وجہ سے ترکی اسٹریٹیجک پوزیشن کا حامل ہے اس کے ایک طرف یورپ ہے تو دوسری طرف سنٹرل ایشیا اور مڈل ایسٹ‘ ترکی نیٹو کا ممبر ہے۔ اس کی ایک جانب انرجی کے بے پناہ وسائل ہیں اور دوسری جانب انرجی کے صارف یورپی ممالک۔ ترکی کی بندرگاہیں دو سمندروں پر واقع ہیں اور یہ ہیں بحیرہ روم اور بحر اسود جسے انگریزی میں بلیک سی کہا جاتا ہے گزشتہ عشرے میں ترکی نے شاندار ترقی کی ہے اور اس کا انفراسٹرکچر انٹرنیشنل لیول کا ہے۔
ترکی اور پاکستان کا جذباتی رشتہ پرانا ہے اس کے کئی مناظر خلافت موومنٹ میں نظر آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترک بہ رضا ورغبت کمال اتاترک کی قیادت میں خلافت کو خیر باد کہہ رہے تھے لیکن ہمارے ہاں اس کے بعد بھی خلافت کو یاد کیا جاتا رہا۔ ترکی میں آج بھی سیکولر اور اسلامی نظریات کی کشمکش جاری ہے۔ صدر طیب اردوان اسلامی ذہن کے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ شہری اپنی زندگیوں میں اسلامی شعائر کی پابندی ضرور کریں 
لیکن ریاست کو سیکولر ہی رہنا چاہیے ترکی کے منتخب وزیر اعظم عدنان مندریس کو 1960ء میں فوجی حکمرانوں نے سزائے موت دی۔ کئی سال بعد پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی تو ترکی نے انہیں سیاسی پناہ کی آفر دی مگر جنرل ضیاء الحق نہ مانے۔ ترکی والوں کا بجا طور پر کہنا تھا کہ بھٹو کی پھانسی کے نتیجہ میں پاکستان عرصے تک غیر مستحکم رہے گا وہ یہ بات اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے تھے۔1970میں جنرل کنعان ایورن نے ترکی میں مارشل لاء نافذ کر دیا ادھر پاکستان میں 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ دونوں فوجی حکمرانوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔
اور اب آتے ہیں موضوع کی طرف۔ صدر طیب اردوان نے ترکی کو استحکام اور اقتصادی ترقی دی ہے لیکن وہ 2003ء سے حکومت کر رہے ہیں سول اور ملٹری دونوں جگہ ان کے مخالف بھی مضبوط نظر آتے ہیں الزام یہ ہے کہ اردوان طاقت کا ارتکاز قصر صدارت میں چاہتے ہیں اور مزید کئی سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ریفرنڈم میں اکاون عشاریہ چار فیصد ووٹ ملے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اپوزیشن بھی خوب تگڑی ہے تین سب سے بڑے شہروں یعنی استنبول انقرہ اور ازمیر میں اپوزیشن نے زائد ووٹ لیے ہیں ریفرنڈم کے روز الیکشن کمشن نے عجب فیصلہ کیا کہ جس بیلٹ پیپر کو خالی چھوڑا گیا ہو اسے ہاں کا ووٹ تصور کیا جائے گا۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے شروع میں تو صدر اردوان کو کامیابی پر مبارک دے دی لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مبصرین کی رائے معلوم کرنے کے بعد کوئی حتمی فیصلہ ہو گا۔
ریفرنڈم کے نتیجے میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم ہو جائے گا۔ صدر کو وزیر اور جج مقرر کرنے کا مکمل اختیار ہو گا۔ صدر اردوان نے سزائے موت بحال کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ صدر کو عارضی قانون سازی کا بھی اختیار ہو گا۔ اگر سزائے موت بحال ہو جاتی ہے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کا ہدف تقریباً ترک کر دیا ہے۔ یورپین یونین کا کوئی بھی ملک کسی بھی جرم کے لیے سزائے موت نہیں دیتا۔
2016ء کی ناکام بغاوت نے ترکی کو ہلا کے رکھ دیا تھا ایک لاکھ تیس ہزار لوگ نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پینتالیس (45) ہزار گرفتار ہوئے۔ ترکی میں اس وقت پینتیس(35) لاکھ سول سرونٹ ہیں نئے اختیارات کے مطابق صدر کے پاس کسی بھی سول سرونٹ کے خلاف انکوائری آرڈر کرنے کی پاور ہو گی عام خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ نئے جج مقرر کرنے کا اختیار بھی صدر کے پاس ہو گا لہٰذا عدلیہ کی آزادی کو دھچکا لگے گا۔
2003ء سے لے کر 2011تک کا عرصہ طیب اردوان کے عروج کا وقت تھا۔ ترکی اقتصادی شرح نمو عمومی طور پر ہر سال پانچ فیصد سے زائد رہی اور ایک سال تو نو فیصد کو کراس کر گئی ہمسایہ ملک شام میں سول وار کی سی کیفیت ہوئی تو ترکی نے شامی اپوزیشن کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ گویا اب ملکی وسائل کا ایک حصہ انٹرنیشنل مہم جوئی میں جانے لگا۔ مشہور اسلامی ذہن کے لیڈر فتح اللہ گولن پہلے طیب اردوان کے سپورٹر تھے پھر مخالف ہو گئے اردوان نے سول ملٹری تعلقات میں سویلین حکومت کی برتری کو اپنا نصب العین بنایا۔ ترکی میں فوج کا ایک مسلمہ رول رہا ہے فوج کمالسٹ افکار کی شرع سے حامی ہے اور کمالسٹ سوچ کی بنیاد سیکولرزم ہے اب فوج میں بھی اردوان مخالف سوچ نے جنم لیا نتیجہ 2016کی بغاوت کی صورت میں سامنے آیا۔ فتح اللہ گولن ایک عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہیں ترکی حکومت نے امریکہ پر الزام لگایا کہ اس نے فوجی انقلاب کی حمائت کی ہے۔ لہٰذا امریکہ سے دو طرف تعلقات میں بھی بگاڑ آیا۔ اقتصادی ترقی اردوان کی حکومت کا مضبوط پوائنٹ تھا۔ فی الوقت اکانومی کی صورت حال بھی اچھی نہیں ہے۔ لاکھوں شامی مہاجرین نے بہت بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ ترکی کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے بارڈر کے دونوں طرف کرد ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہے ہیں‘ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مبصرین نے ابھی تک جو رپورٹ دی ہے وہ یہ ہے کہ ریفرنڈم انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق نہیں تھا یعنی شفافیت کی کمی تھی۔ قبل از انتخاب دھاندلی کے بعض واقعات بھی میڈیا نے اجاگر کئے ہیں۔ حکومت پر ایک الزام یہ ہے کہ ریفرنڈم کی تیاری کے دنوں میں اپوزیشن کو ڈرایا دھمکایا گیا۔
اتوار کی شام جب ریفرنڈم کے نتائج آئے تو مجھے اپنے ایک ترکی شناس دوست کا ٹویٹ آیا کہ ترکی اب سول وار کے دھانے پر کھڑا ہے۔ خدا کرے کہ ان کا اندازہ غلط ہو لیکن ریفرنڈم کے نتائج ایک منقسم معاشرے کی جھلک دکھا رہے ہیں یہ ایسی صورت حال ہے جسے ترکی کے دشمن اپوزیشن کو اکسا کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں