"JDC" (space) message & send to 7575

چائنا کٹنگ صرف کراچی میں؟

ایک معاصر کالم نگار نے حال ہی میں اپنے ایک انگریزی اخبار میں لکھے گئے کالم میں کہا ہے کہ پاکستان میں چائنا کٹنگ ایم کیو ایم کی ایجاد ہے چائنا کٹنگ کے ایک دو واضح واقعات ہمیں لاہور میں ایم کیو ایم کے معرض وجود میں آنے سے پہلے کے ملتے ہیں۔ لہٰذا موصوف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ چائنا کٹنگ کی تعریف کر دی جائے۔ کسی بھی رہائشی سوسائٹی یا کالونی میں کامن استعمال کے لیے سڑکوں اور پارکس وغیرہ کے لیے زمین چھوڑی جاتی ہے۔ اسی طرح قبرستان‘ سکول‘ کالج‘ ہسپتال کے لیے پلاٹ علیحدہ سے مختص ہوتے ہیں۔ اس اصل نقشے کو دکھا کر پلاٹ فروخت کئے جاتے ہیں۔ لہذا اصلی نقشے کی ایک قانونی حیثیت بن جاتی ہے۔ اسے ایک دفعہ مشتہر کرنے کے بعد رہائشیوں کی اجازت کے بغیر کوئی ردوبدل امانت میں خیانت تصور کی جاتی ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ وطن عزیز میں اصل نقشے پر قینچی چلتی رہتی ہے پارکوں کی جگہ سکول یا دکانیں بن جاتی ہیں۔ اس قبیح عمل کو چائنا کٹنگ کا نام دیا جاتا ہے۔
ویسے چائنا کٹنگ کی وجہ تسمیہ مجھے سمجھ نہیں آئی میں چائنا دو مرتبہ گیا ہوں وہاں اصل نقشے کی خلاف ورزی ہو ہی نہیں سکتی لہذا یہ نام ہمارے اپنے زرخیز ذہن کی اختراع لگتا ہے پچھلے دنوں کراچی کے ہی حوالے سے ایک اور ملتی جلتی اصطلاح سامنے آئی اور وہ ہے جرمن کٹنگ۔ اور جرمن کٹنگ کا مطلب ہے ریڑھی والوں کو فٹ پاتھ پر کاروبار کی اجازت دینا اور پھر اُن سے بھتہ وصول کرنا جرمنی جیسے مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں ایسے کام کا تصور بھی محال ہے چین اور جرمنی والے بھی کہتے ہونگے۔ ع
جو چاہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
جو لوگ لندن گئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ شاہی محل کے بالکل سامنے
سینٹ جیمز پارک ہے یہ پارک خاصا بڑا ہے لیکن شاہی محل کا حصہ نہیں لہذا عوام کے لیے صدیوں سے کھلا ہوا ہے۔ اٹھارہویں صدی کی بات ہے ملکہ برطانیہ اپنے وزیراعظم والپول کے ساتھ بکنگھم پیلس کے باہر کھڑی تھیں۔ پارک اور محل کے درمیان ایک زمانے سے صرف ایک جنگلہ حائل ہے ملکہ پارک کی خوبصورتی سے محظوظ ہو رہی تھیں اتنے میں وہ وزیراعظم سے گویا ہوئیں کہ اگر اس پارک کو شاہی محل میں شامل کر لیا جائے تو کیسا رہے گا وزیراعظم والپول نے جواب دیا ملکہ معظمہ اس اقدام سے آپ کی بادشاہت خطرے میں پڑ سکتی ہے کیونکہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پارک پر پہلا حق ان کا ہے۔ وزیراعظم والپول کی رائے صائب تھی چنانچہ ملکہ کو ماننا پڑی والپول بیس سال تک برطانیہ کا وزیراعظم رہا۔ اُس نے سوچ سمجھ کر ملکہ کو رائے دی تھی اس بات کو ڈھائی سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ذرا تصور کیجئے برطانوی عوام کا اپنے حقوق کے بارے میں شعور اور ہمارے ہاں اصل نقشے کے ساتھ کھلواڑ اب بھی ہوتا رہتا ہے۔
غالباً 1983ء کی بات ہے لاہور میں ڈیفنس کا علاقہ نیا نیا آباد ہو رہا تھا۔ گلبرگ کے بعد یہ پہلا رہائشی علاقہ تھا جسے پوری پلاننگ اور نقشے کے مطابق بنایا گیا تھا۔ خوبصورت اور وسیع و عریض پارک رکھے گئے تھے کیونکہ کسی بھی اچھے شہری علاقے کا لازمی جزو ہوتے ہیں۔ پارک گھٹن کا احساس ختم کرتے ہیں ان کی ہر یاول آنکھں کو سکون بخشتی ہے۔ قدیم شہر بلکہ مرکزی پنجاب کے متمول گھرانے لاہور ڈیفنس میں شفٹ ہو رہے تھے کئی ریٹائرڈ فوجی افسر بھی گھر بنا رہے تھے گویا کہ ڈیفنس کاروبار کے لیے آئیڈیل علاقہ بن رہا تھا اور وطن عزیز میں سب سے نفع بخش کاروبار تعلیم کا ہے۔
لاہور کے دوچار متمول اور بااثر خاندانوں کی چند خواتین صدر جنرل ضیاء الحق سے ملیں اور کہا کہ ہم اعلیٰ کوالٹی کی تعلیم کے ذریعہ قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہیں۔ ڈیفنس لاہور میں سکولوں کے لیے مختص پلاٹ سارے الاٹ ہو چکے ہیں ہماری تعلیم عام اداروں سے بہت بہتر ہو گی۔ ڈیفنس کے فیز ون میں کئی پارک ہیں ان میں سے اگر دو ہمیں عنایت کر دیئے جائیں تو قوم کا بھلا ہو جائے گا۔ جنرل صاحب نے کور کمانڈر کو فون کیا۔ حکم حاکم کی فوراً تعمیل کی گئی پاکستان کے حکمران سویلین ہوں یا فوجی برطانیہ کے بادشاہ یا ملکہ سے طاقتور ہوتے ہیں دوسرے ہمارے ہاں آج تک والپول جیسے صاحب بصیرت اور عوام دوست لیڈر کی پیدائش ہی نہیں ہوئی۔ چنانچہ لاہور کے اس پوش علاقے میںمختلف ناموں سے دو تعلیمی ادارے بن گئے اور دونوں پبلک پارکس کی جگہ بنے ۔یوں لاہور میں چائنا کٹنگ کی روایت سرکاری سرپرستی میں پڑی۔ اربن سندھ میں ایم کیو ایم ایک دو سال کے بعد بنی۔
میرے اکثر دوست احباب لاہور ڈیفنس میں رہتے ہیں۔ میں جب بھی لاہور جائوں قیام ڈیفنس میں ہوتا ہے۔ یہاں سیکٹر ای میں جو ماڈرن سکول واقع ہے اس کے چاروں طرف دو دو کنال کے دس بارہ گھر ہیں۔ صبح سکول لگتے وقت اور دوپہر کے وقت یہاں سینکڑوں گاڑیاں آتی ہیں شور آلودگی اور بے پناہ رش سکول کے ہمسائے اپنے ہی گھروں میں قید ہو جاتے ہیں اکثر گھروں پر فار سیل For Sale کی تختیاں لگی ہوئی ہیں ہر گھر کی قیمت تقریباً سات کروڑ روپے ہے لیکن کوئی آدھی قیمت پر لینے کو تیار نہیں۔ ان بارہ گھروں کے باسی عدالت بھی نہیں جا سکتے کیونکہ اتھارٹی کو عام عدالتوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔
پاکستان میں اب چائنا کٹنگ بہت ترقی کر چکی ہے کسی زمانے میں یہ صرف افقی ہوتی تھی اب عمودی طریقہ بھی دریافت ہو چکا ہے یعنی آپ چار منزلہ عمارت کی منظوری لیں اور آٹھ منزلیں بنا لیں۔ اس طرح نہ آپ کو کسی پارک کو کاٹنے کی ضرورت ہے نہ کسی قبرستان پر قبضہ کرنے کی حاجت۔ کھلی فضا میں آسمان کی طرف منزلوں کا اضافہ کرتے جائیں اور اربوں روپے کما لیں آپ سوچتے ہونگے میں مذاق کر رہا ہوں۔ اسلام آباد میں یہ سب کچھ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہے۔ ریڈ زون کے ایک سرے پر کنونشن سنٹر کے پاس دو فلک بوس ٹاور بنے ہیں۔ ان ٹاورز میں دو سو چالیس 240 لگژری اپارٹمنٹ ہیں۔ ہر اپارٹمنٹ کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ اپارٹمنٹ خریدنے والوں میں عمران خان سابق چیف جسٹس ناصرالملک گورنر سٹیٹ بینک اشرف وتھرا اور سابق نیول چیف ایڈمرل آصف سندھیلہ جیسے نام شامل ہیں۔ اب یہ منصوبہ جو تقریباً مکمل ہے قانونی طور پر متنازعہ ہو چکا ہے کام رک گیا ہے کیونکہ اجازت صرف ایک سو بیس اپارٹمنٹس کی لی گئی تھی اور دوگنے بنا فروخت بھی کر دیئے گئے۔ ایک اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کے ساتھ پہلی مرتبہ ہاتھ ہوا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اشرافیہ اس کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کر لے گی۔ اسلام آباد میں چائنا کٹنگ کی بدترین شکل 2009ء میں سامنے آئی جب وزیراعظم گیلانی کی منظوری سے سیکٹر جی تیرہ کے سکولوں اور پارکس پر قینچی چلا کر سو سے زائد رہائشی پلاٹ بنا کر منظور نظر افسروں میں بانٹ دیئے گئے۔ اعلیٰ عدلیہ نے اس سلسلہ میں دو سٹے آرڈر ایشو کئے ،تب جا کر یہ ظالم منصوبہ ختم ہوا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں چائنا کٹنگ سی ڈی اے کی ملی بھگت سے ہوتی ہے مگر اب فیڈرل ہائوسنگ فائونڈیشن بھی پیچھے نہیں۔ دسمبر 2015ء میں فائونڈیشن کے تین افسر چائنا کٹنگ کے الزام میں نیب کے نرغے میں آئے۔ عمودی چائنا کٹنگ کی ایک اور مثال دارالحکومت کے جی تیرہ سیکٹر میں ہی لائف سٹائل کے نام سے سامنے آ رہی ہے۔ اصل نقشے میں اپارٹمنٹ بلڈنگز میں چار منزلیں تھیں جو اب تیرہ کر دی گئی ہیں۔ا زیرزمین تین منزلیں اس کے علاوہ ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ ہم سرکاری ملازمین کو ارزاں قیمت پر اپارٹمنٹ دیں گے۔ عذر گناہ بدتر ازگناہ والی بات ہے آپ خنزیر پر تکبیر پڑھ کر کے چھری چلا دیں تو وہ حلال نہیں ہو جائے گا۔ اصل نقشے میں جی 13 میں صرف چھ ہزار گھر تھے اور اب لائف سٹائل کی وجہ سے نو ہزار گھر ہو جائیں گے گویا کہ سیکٹر کے چھ ہزار اصلی باسیوں کی زندگیاں ٹریفک کے رش پانی کی قلت اور دیگر مسائل کی وجہ سے اجیرن ہو جائیں گی۔ لیکن بقول شیخ سعدی لالچی آنکھ کا علاج یا قناعت ہے اور یا قبر کی مٹی اور یہاں تو سارا ملک پراپرٹی ڈیلر بنا ہوا ہے قوم کی خدمت کے نام پر پارکوں میں سکول بنائے جاتے ہیں فلک بوس عمارتوں پر چند فلور مزید بڑھا لئے جاتے ہیں اور اصل مقصد اپنی جیب کی خدمت ہوتا ہے۔ اللہ ہمارے ملک کو ایسے شعبدہ بازوں سے محفوظ رکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں