"JDC" (space) message & send to 7575

ترکی میں دو روز … (II)

استنبول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سات پہاڑیوں پر واقع ہے۔ ایئرپورٹ سے شہر جانے والی سڑک خاصی کشادہ ہے اور پھولوں کی کیاریوں سے مزین شہر میں چنار کے قدآدم درخت بے شمار ہیں۔ استنبول میں ہوٹل بکنگ بیٹے نے پہلے ہی آن لائن کرا دی تھی روانگی سے پہلے بیٹے کا ای میل تھا کہ استنبول کے ٹیکسی ڈرائیوروں سے ہوشیار رہنا۔ میں ایئرپورٹ سے نکلاہی تھا کہ کئی ٹیکسی ڈرائیور آ گئے یہاں ڈرائیوروں سے بارگینگ ضروری ہے ٹیکسیوں میں میٹر ضرور لگے ہوئے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اجنبیوں کو لمبا چکر لگوا کے منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ ایک ٹیکسی کمپنی کے دفتر سے رجوع کیا۔ ڈیمانڈ ہوئی کہ دو سو دس لیرہ میں آپ کو ہوٹل پہنچا دیں گے۔ پاس ہی کھڑے ایک ڈرائیور نے کہا میں ڈیڑھ سو لیرہ میں لے جائوں گا۔ بات نوے لیرہ پر ختم ہوئی ڈرائیو شاندار تھی اور چالیس منٹ کا وقت استنبول کی ہریالی اور سمندر کے پانی سے محظوظ ہونے میں گزرا۔ یہ ہر لحاظ سے یورپین معیار کا شہر ہے۔ اتنے بڑے شہر میں مجھے کچرے کا ایک ڈھیر نظر نہیں آیا۔ چہ عجب کہ ہمارے حکمرانوں نے لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ ایک ترک کمپنی کو دیا ہوا ہے۔
ہوٹل مورگن اوریجنل باسفورس کے گالاتا پُل سے زیادہ دور نہیں Morgan Original بوتیک ہوٹل ہے یعنی چھوٹے سائز کی عمارت کل ستر کمرے ہیں میرا بیٹا اس ہوٹل میں رہ چکا تھا۔ بوتیک سٹائل ہوٹلوں میں بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سروس بڑی مستعد اور دوستانہ قسم کی ہوتی ہے۔ پانچ منٹ میں چیک ان ہو گیا۔ فرنٹ ڈیسک والوں نے روایتی استقبالیہ جملے بولے۔ میرے سوالات کا تفصیل سے جواب دیا زیادہ اہم بات یہ تھی کہ ہر چہرے پر مسکراہٹ تھی‘ یہ تقریباً چار کنال پر بنی ہوئی پانچ منزلہ عمارت ہے ہوٹل کی لوبی میں فوارہ ہے اور اردگرد متعدد صوفے لگے ہوئے ہیں گھر کا سا ماحول ہے۔ ہوٹل کا پورٹر میرا سامان لے کر مجھے کمرے میں چھوڑنے جا رہا ہے۔ لفٹ میں مجھے پوچھتا ہے کہ آپ کہاں سے ہیں اور پھر وہ دل دل پاکستان جاں جاں پاکستان گنگنانے لگتا ہے۔ ترکی اب اُن گنتی کے چند ممالک میں سے ہے جہاں پاکستان کے بارے میں دوستانہ جذبات وافر ہیں۔
پرانے استنبول کے چپے چپے پر تاریخی ورثہ موجود ہے اور میرا قیام ان عظیم الشان مقامات سے دو تین کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ استنبول کو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے کہ پرانے شہر میں جگہ جگہ آپ کو مینار اور گنبد نظر آتے ہیں۔ اردگرد ماحول یورپین ہے۔ سکرٹ پہنے ہوئی لڑکیاں جینز میں ملبوس لڑکوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بے نیازی سے چل رہی ہیں۔ ہمارے ہوٹل کے سامنے سے ٹرام گذر رہی ہے میرے خیال میں یہ ہماری میٹرو بس سے بہتر ہے کیونکہ اس کے چار کشادہ ڈبوں میں مسافروں کی خاصی بڑی تعداد سما جاتی ہے یہ شہر سیاحوں کی پاپولر منزل ہے۔ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد عرب ممالک سے آتی ہے مجھے ایرانی سیاح بھی کافی تعداد میں نظر آئے۔
طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ Justice and Development party پارٹی ایک عرصے سے برسراقتدار ہے۔ اس پارٹی کے پہلے دس سال شاندار رہے ترکی نے ترقی بھی خوب کی۔ عالمی سیاست میں اُس کا قدکاٹھ بلند ہوا۔ عوام کا معیار زندگی بہتر ہوا۔ غالباً یہی وجوہات تھیں کہ پچھلے سال کی فوجی بغارت ناکام ہوئی لوگوں نے کھُل کر جمہوریت کا ساتھ دیا۔ یہ بغاوت ایک قومی حادثے سے کم نہ تھی۔ باسفورس کے پُل پر ڈھائی سو لوگ شہید ہوئے تھے۔ حکومت نے سخت ایکشن لیتے ہوئے ہزاروں سول اور ملٹری افسران کو سزا دی اور کئی اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ٹرکش ایئرفورس کے لڑاکا جہازوں پر تقریباً چھ سو پائلٹ متعین تھے اب ان کی تعداد تین سو رہ گئی ہے۔ امسال پندرہ جولائی کو کئی افسروں کی تنزلی کی گئی ہے کہ یہ ناکام بغاوت کی پہلی سالگرہ تھی۔ گویا باسفورس کی لہروں میں اضطراب ہنوز قائم ہے۔
ہوٹل کی لوبی کے پاس ہی مے خانہ ہے یہ بار آتے جاتے ہروقت نظر آتی ہے۔ بارکی ایک دیوار پر لکھا ہوا ہے I may go to hell all my friends will be there یعنی ممکن ہے کہ مجھے جہنم رسید کیا جائے لیکن میرے تمام دوست وہاں ہونگے یہ دلچسپ عذر گناہ ہے۔ ظہیرالدین بابر نے بھی عذر کے طور پر کہا تھا کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست یعنی عیش و عشرت کو سمیٹنے کی کوشش کرو کہ زندگی پھر نہیں ملے گی۔ میرے ذہن میں سوال آیا کہ ترکی میں ایک عرصے سے اسلام پسند حکومت موجود ہے تو پھر میکدے بند کیوں نہ ہوئے اور اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ سیاحت ترکی کی اکانومی کا بہت بڑا ستون ہے۔ شراب پر مکمل پابندی سے سیاحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہاں اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ میں استنبول کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں خوب گھوما مگر مجھے ایک بھی شخص نشے کی حالت میں یا غل غپاڑہ کرتے ہوئے نظر نہیں آیا۔ 
استنبول کا مشہور تقسیم سکوائر Taksim Square ہوٹل سے تقریباً دو کلومیٹر دور ہے۔ اس شہر کی مشہور شارع استقلال یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ شارع استقلال میں عام کاروں کا داخلہ منع ہے۔ یہاں سینکڑوں دکانیں اور ریسٹورنٹ ہیں۔ یہاں پیدل چلنے کا اپنا ہی مزہ ہے اسی شارع پر روس اور امریکہ کے قونصلیٹ ہیں۔ یہاں مجھے پولیس کی نفری نظر آئی بلکہ امریکی قونصلیٹ کے باہر ایک بکتر بند گاڑی بھی کھڑی تھی۔ پچھلے سال کی فوجی بغاوت کے بعد سیاحوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی تھی اس کے بعد بھی اکادکا دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے۔ 2016ء کے آخری روز یعنی نیو ایئر کے موقع پر استنبول کے ایک نائٹ کلب پر حملہ ہوا اور حملہ آور نے باآواز بلند کہا میں خلافت کا سپاہی ہوں۔ مگر اب حالات تیزی سے نارمل ہو رہے ہیں ترکی کی حکومت سکیورٹی کے معاملے میں ذرا سا بھی تساہل نہیں کرتی۔ شہر میں مجھے پولیس کے ناکے نظر نہیں آئے لیکن تمام اہم مقامات پر پولیس موجود تھی۔ سیاحوں کی کثرت بتا رہی تھی کہ ٹورسٹ کا اعتماد کافی حد تک بحال ہوا ہے۔ 
شارع استقلال شاپنگ کے علاوہ رونق میلے والا بازار ہے۔ کاروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیدل لوگ اسے خوب انجوائے کرتے ہیں۔ سیاح بڑی تعداد میں اس بازار میں آتے ہیں رات کو اور بھی زیادہ رونق ہوتی ہے میوزک کے مختلف گروپ جگہ جگہ دھنیں بکھیر رہے ہوتے ہیں ہوٹل سے چلنے سے پہلے میں نے فرنٹ ڈیسک والی لڑکی سے پوچھا کہ نزدیک ترین مکڈونلڈ کہاں ہو گا۔ عام طور پر مکڈونلڈ کے کھانے جنک Junk فوڈ میں شمار ہوتے ہیں لیکن مجھے سفر کے دوران اس فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے محاسن میں اس کی صفائی ستھرائی اچھی لگتی ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ مجھے مکڈونلڈ کا کھانا کھا کر کوئی معدے کا مسئلہ درپیش ہوا ہو۔ ترک لڑکی کا جواب تھا کہ ہمارے کھانے بہت اچھے ہیں آپ انہیں ٹرائی کریں میکڈونلڈ تو آپ کو ہر جگہ مل جائے گا۔ میں نے کہا کہ پھر تقسیم سکوائر کے آس پاس شارع استقلال پر دو تین اچھے مطاعم کے نام بتائو جہاں ہائی جین یعنی صفائی کا بہت اہتمام ہو۔
میں گالاتا کے پُل کی جانب سے شارع استقلال کی جانب پیدل جا رہا ہوں۔ پہلے تو ٹرام کی پٹری کے ساتھ ساتھ راستہ ہموار تھا پھر ایک لمبی تنگ گلی آئی جس کا ارتفاع خاصا چیلنج تھا۔ بالآخر مرحبا ریسٹورنٹ آ گیا۔ بیرا مینو لے آیا جو ترکی زبان میں تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے اُسے انگریزی میں سمجھایا کہ وہ خود سب سے اچھی ڈش تجویز کرے اور تجویز کردہ ڈش قیمہ بھرے ہوئے فرائیڈ بینگن کی تھی۔ ہمارے ہاں بیچارے بینگن کی جتنی ناقدری ہوتی ہے۔ ترکی میں اتنی ہی تکریم ہے۔ اعلیٰ ترین مطاعم کا مینو بینگن کے بغیر نامکمل تصور ہوتا ہے۔ بینگن کے اندرون خانہ فرائیڈ قیمہ فخر سے براجمان تھا ایک طرف اُبلے ہوئے موٹے چاول بمعہ زیرہ پلیٹ میں موجود تھے۔ میں یہ لذیذ کھانا کھا رہا تھا اور دل ہی دل میں اُس ٹرکش لڑکی کا شکریہ ادا کر رہا تھا جس نے مجھے مکڈونلڈ کو چھوڑ کر ترکی کھانے کی ترغیب دی تھی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں