"JDC" (space) message & send to 7575

اکیسویں صدی کی عالمی طاقتیں

دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی اور جاپان کو ہزیمت سے دوچار کرنے میں امریکہ کا واضح رول تھا۔ 1945ء کے بعد دنیا کے فنانشل اور سکیورٹی سٹرکچر میں امریکہ کی کلیدی حیثیت رہی۔ سوویت یونین شکست و ریخت کا شکار ہوا تو امریکہ اکلوتی سپرپاور بن گیا۔ یہ نئی عالمی صورت حال دو عشرے سے بھی کم چلی۔ ضرورت سے زیادہ خوداعتماد امریکہ افغانستان اور عراق میں اپنے اہداف حاصل نہ کر سکا۔ دونوں جنگوں میں بے تحاشا مالی خسارہ ہوا۔ امریکہ کے قرضے بڑھ گئے‘ جانی نقصان اس کے علاوہ تھا۔ وہ جو دنیا میں ہر طرف امریکہ کا طوطی بولا کرتا تھا‘ وہ صورتحال بدلنے لگی۔ چین اور روس عالمی سیاست کی شطرنج کی میز پر زیادہ فعال نظر آنے لگے۔ اب صاف نظر آ رہا تھا کہ اکیسویں صدی میں چار ملک دنیا پر چوہدراہٹ کریں گے۔ انڈیا بھی اس عظیم ممالک کے کلب میں شمولیت کا امیدوار ہے۔ موجودہ عالمی تناظر میں امریکہ‘ چین‘ روس‘ یورپی یونین اور انڈیا اس صدی کے اہم ممالک معلوم ہوتے ہیں۔
گلوبل پاور بننے کیلئے سب سے اہم شرط مضبوط معیشت ہے۔ امریکہ اس وقت بھی دنیا کی صف اول کی اکانومی ہے۔ 2016ء میں امریکہ کا عسکری بجٹ چھ سو گیارہ (611) ارب ڈالر تھا۔ امریکہ کے فوجی اڈے دنیا میں کئی جگہ ہیں۔ جاپان‘ جنوبی کوریا اور فلپائن کے ساتھ امریکہ کے دو طرفہ دفاعی معاہدے ہیں۔ نیٹو کا امریکہ آج بھی اہم ملک ہے۔امریکہ کی عالمی اہمیت کا ایک بڑا ستون ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف میں اس کا قد کاٹھ ہے اور فیصلہ سازی میں اہم رول بھی اور پھر چھ عشروں تک امریکہ کی یہ شہرت بھی رہی کہ وہ دوستوں کا دوست ہے اور دشمنوں کا تعاقب کرتا ہے۔
لیکن افغانستان اور عراق کی جنگوں کے بعد امریکہ کے اتحادی ممالک میں اپنے سینئر پارٹنر پر انحصار کرنے کی عادت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پچھلے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکہ کا عالمی قد کاٹھ کم ہوا ہے۔ موصوف بزنس مین ہیں اور گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ وہ امریکی خرچے پر دوسروں کا دفاع کرنے کے مخالف ہیں۔ دوسری طرف وہ دن دور نہیں جب چین دنیا کی نمبرون اکانومی بن جائے گا۔ تیز اقتصادی ترقی کی وجہ سے چین اپنا عسکری بجٹ بڑھانے کے قابل ہوا ہے کچھ ایسی ہی صورتحال انڈیا کی بھی ہے۔
امریکہ کی حالیہ آبادی تین سو پچیس (325) ملین ہے۔ اندازہ ہے کہ 2050ء میں امریکہ کی پاپولیشن تین سو نوے (390) ملین ہو جائے گی لیکن امریکہ کیلئے رنگ و نسل کے حوالے سے ایک بڑا امتحان بھی آنے والا ہے۔ 2050 ء تک اصلی اور خالص گورے تعداد میں دوسری نسل کے لوگوں سے کم رہ جائیں گے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ کی شاندار اقتصادی ترقی میں نووارد امریکیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایٹمی ہتھیار نووارد جرمن سائنسدانوں نے بنا کر دئیے اور یہ جو ہماری آنکھوں کے سامنے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب آیا ہے اس میں بھی باہر سے آئے ہوئے ماہرین کا بڑا دخل ہے۔ اور اس ضمن میں انڈیا کا ذکر نہ کرنا بخل ہوگا۔ میں امریکہ کے مختلف علاقوں میں گیا ہوں۔ وہاں جو ترقی ایسٹ اور ویسٹ کوسٹ پر نظر آتی ہے وہ اندرونی ریاستوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ امریکہ کے دونوں ساحلوں پر شاندار ترقی نووارد اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی بدولت ہے اور یہ امریکہ کی خوش قسمتی رہی کہ اچھے سے اچھے ڈاکٹر‘ انجینئر‘ اکائونٹنٹ اور بزنس ایکسپرٹ ساری دنیا سے وہاں گئے اور اپنی تمام علمی اور سائنسی مہارت اپنے نئے دیس کے حوالے کر دی۔ اس عمل سے دونوں کا فائدہ ہوا۔ اب پرابلم یہ آئے گا کہ گورے امریکی جن کا تعصب صدر ٹرمپ کے الیکشن میں واضح طور پر نظر آیا‘ شاید نئی صورتحال کو خوشدلی سے قبول نہ کریں اور اگر نسلی تعصب کا جن امریکہ کے کنٹرول میں نہ رہا تو یہ معاشرہ مزید تقسیم ہو جائے گا۔ نسلی ہمہ رنگی اور شمولی (Plural)سوچ امریکہ کی طاقت تھی جو صدر اوباما کے انتخاب کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ اب بدقسمتی سے اس بات کا قدرے امکان ہے کہ مختلف رنگوں کا یہ گلدستہ شاید باہمی تعصبات کا شکار ہو جائے۔ پچھلے دس سال میںامریکی قوت کم ہوئی ہے اور اگر امریکہ نسلی تعصب کا شکار ہو گیا تو اس کی اہمیت اور بھی کم ہوگی لیکن یہ بات واضح ہے کہ آج سے ستر اسی سال بعد بھی امریکہ کوئی غیر اہم ملک نہیں ہوگا۔ ماڈرن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ زیادہ ترقی ان ملکوں نے کی ہے جو جنگ وجدل کو چھوڑ کر امن کی طرف آئے ہیں مثلاً چین‘ جاپان اور جرمنی‘ چین کی تیز اقتصادی ترقی اور عسکری بجٹ میں اضافہ ساتھ ساتھ چلے ہیں۔ چین کی معیشت اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے لیکن توقع ہے کہ چند سالوں میں چین اقتصادی لحاظ سے نمبرون ہوگا۔ چین کا دفاعی بجٹ بھی دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 2016ء میں چین نے دو سو پندرہ ارب ڈالر ڈیفنس پر خرچ کئے تھے۔ چین کی پالیسی یہ ہے کہ اقتصادی تعاون اور تجارت کے فروغ سے دنیا میں اپنا مقام بنائے۔ لیکن اسے یہ ادراک ہے کہ تجارتی راستوں کا دفاع بھی ضروری ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے ساٹھ سے زائد ملکوں کے ساتھ ہیں۔ سی پیک اس بڑے عالمی اقتصادی اور تجارتی پلان کا حصہ ہے۔ چین نے 2015 ء اور 2017 ء میں روس کے ساتھ بحیرہ روم اور بالٹک سی Baltic Sea میں مشترکہ نیول مشقیں کی ہیں۔ جبوتی (Djibouti) میں چینی بحریہ نے اپنے لئے سہولتیں حاصل کی ہیں۔ ہارن آف افریقہ (Horn of Africa) کا یہ مقام تجارتی جہازوں کی حفاظت کیلئے اہم ہے۔ صومالی بحری قزاق آبنائے عدن میں اپنی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
چین کی آبادی اس وقت ایک ارب چالیس کروڑ ہے۔ توقع ہے کہ 2030ء تک انڈیا اور چین کی آبادی برابر ہوگی۔ اس لئے کہ چین میں بڑا موثر فیملی پلاننگ کا نظام ہے۔ سنکیانگ اور تبت میں داخلی مسائل موجود ہیں۔ اسی وجہ سے چین کا اندرونی سکیورٹی کا بجٹ عسکری بجٹ سے زیادہ ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود اس صدی میں چین کی عالمی اہمیت نہ صرف قائم رہے گی بلکہ بڑھے گی۔ اسی وجہ سے امریکہ نے انڈیا‘ جاپان اور آسٹریلیا کو چین کے مقابل کھڑا کیا ہے۔
انڈیا اس وقت امریکہ‘ چائنہ اور یورپی یونین کے بعد چوتھی بڑی معیشت ہے۔ 2050 ء میں انڈین آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ ہوگی اور چین کو پیچھے چھوڑ کر انڈیا پاپولیشن کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہوگا۔ عسکری اعتبار سے بھارتی طاقت بڑھ رہی ہے۔ 2016ء میں انڈیا کا عسکری بجٹ چھپن (56)بلین ڈالر تھا۔ البتہ چین اقتصادی اور عسکری لحاظ سے انڈیا سے خاصا آگے ہے گوکہ امریکہ کی دلی خواہش ہے کہ انڈیا کو جدید ترین ٹیکنالوجی دے کر مزید طاقتور بنایا جائے۔
صدر پیوٹن کے عہد میں روس دوبارہ سے ابھرا ہے۔ یوکرائن اور جارجیا کے خلاف اس نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ شام میں صدر بشارالاسد کی ڈوبتی کشتی کو بچایا ہے۔ البتہ روس کی معیشت امریکہ اور چین کے مقابلے کی نہیں اور اس کا زیادہ انحصار تیل اور گیس کی برآمدات پر ہے جن کے ذخائر اس صدی کے آخر تک ختم ہو سکتے ہیں۔ روس کا عسکری بجٹ 2016ء میں ستر ارب تھا۔ 2050ء تک روس یقینا اہم ملک رہے گا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں