"JDC" (space) message & send to 7575

بلفور ڈیکلریشن اور فلسطینی مسئلہ

برطانوی مینڈیٹ میں آنے سے پہلے فلسطین سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ 1917ء میں لگتا ہے کہ برطانیہ کو پہلی عالمی جنگ میں فتح کا یقین ہو چلا تھا لارڈ آرتھر بلفور سلطنت برطانیہ کے وزیر خارجہ تھے۔ لارڈ بلفور نے ایک سرکردہ برطانوی صہیونی لیڈر مسٹر والٹر روتھشیلڈ کو خط لکھا کہ برطانوی حکومت فلسطین میں یہودی لوگوں کی ریاست کے بارے میں مثبت خیالات رکھتی ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ 1917 میں جب یہ خیالات اس مختصر سے خط کی شکل میں نمودار ہوئے تب فلسطین ترک سلطنت کا حصہ تھا البتہ برطانیہ تب دنیا کا سب سے بڑا چوہدری تھا اور سلطنت برطانیہ میں بقول شخصے سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ ادھر ترکی یورپ کا مرد بیمار بن چکا تھا۔ اس خط میں سلطنت برطانیہ کا حد سے بڑھا ہوا اعتماد بھی جھلکتا ہے، خط کے آخر میں یہ بھی تحریر تھا کہ اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ غیر یہودی آبادی کے مذہبی اور سول حقوق متاثر نہ ہوں۔
یہاں یہ ضروری ہے کہ یہودی اور صہیونی کا فرق واضح کر دیا جائے اور 1917ء میں فلسطین میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کی آبادی کا تناسب بھی بتا دیا جائے تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ فلسطینی کتنی بڑی تاریخی ستم ظریفی کا شکار ہوئے ہیں۔ صہیونی تحریک انیسویں صدی کے اواخر میں یورپ میں شروع ہوئی یہ لوگ انتہا پسند یہودی تھے جو اپنی علیحدہ ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں دوسرے مذاہب کے لوگ ان کے شریک نہ ہوں ،یہ بات بھی مدنظر رہے کہ ہر یہودی صہیونی نہیں ہوتا۔
فلسطین میں صدیوں سے تینوں ادیان سماویہ یعنی اسلام ،عیسائیت اور یہودیت کے پیروکار مکمل امن و آشتی کی فضا میں رہ رہے تھے۔ یہ مقدس سرزمین تینوں مذاہب کے لیے بے حد اہم ہے۔خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق ؓ نے یروشلم فتح کیا گو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول یہاں تھا لیکن فتح کے وقت نماز پڑھنے کے لیے مناسب جگہ نہیں تھی عیسائیوں نے پیشکش کی کہ ہمارے کلیسا میں نماز ادا کر لیں۔ خلیفہ راشد نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اگر میں کلیسا میں نماز پڑھی تو دوسرے مسلمان بھی میری پیروی کریں گے اور آہستہ آہستہ آپ کی جائے عبادت آپ کے پاس نہیں رہے گی۔ خلفائے راشدین کی فراست اور رواداری کی مثال کے طور پر یہ واقعہ اسلامی تاریخ کا اہم جزو بن چکا ہے۔ 1917ء میں فلسطین میں یہودی ٹوٹل آبادی کا سات فیصد تھے۔ عیسائی دس اعشاریہ پانچ فیصد تھے جبکہ مسلمان بیاسی فیصد تھے۔ شرع میں صہیونی تحریک یورپ میں بھی مقبولیت حاصل نہ کر سکی بوجوہ یورپ کے لوگ یہودیوں سے نفرت کرتے تھے اس کے برعکس یہودی سلطنت عثمانیہ میں عمومی طور پر اور فلسطین میں خاص طور پر معزز شہریوں کی طرح رہ رہے تھے ،دوسری عالمی جنگ میں جب ہٹلر نے یہودی آبادی پر ظلم ڈھائے تو برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک میں یہودیوں کے لیے رحم کا جذبہ اجاگر ہوا۔ شاہ فیصل مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ یہودیوں پر ستم جرمنوں نے ڈھائے مگر قیمت عربوں کو ادا کرنا پڑی۔
نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی پارٹیشن یعنی تقسیم کی قرارداد پاس کی۔ اس ریزولیوشن کے مطابق فلسطین میں عرب اور یہودی ریاستوں کے قیام کے ساتھ ساتھ پروشلم کے شہر کے لئے انٹرنیشنل کنٹرول کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ عربوں نے یہ قرارداد رد کر دی جبکہ فلسطین کے یہودیوں نے اسے قبول کر لیا اور اب تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد خاصی بڑھ چکی تھی ،برطانوی مینڈیٹ کے دوران بہت سے نووارد یہودی فلسطین میں آباد ہو چکے تھے۔ 1948ء میں اسرائیل بنا تو عرب ممالک کے ساتھ جنگ ہوئی عرب لیڈر کہا کرتے تھے کہ اسرائیل بنا تو ہم اسے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے۔ جنگ میں عربوں کو شکست ہوئی بپھرے ہوئے صہیونی جتھے عرب آبادیوں پر حملے کرنے لگے آدھے فلسطینی گائوں صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے ،ایک اسرائیلی تاریخ دان بینی مورس کے مطابق چو نتیس جگہ عربوں کا قتل عام ہوا۔ بے شمار فلسطینی عرب اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے، فلسطینی مہاجرین کی ٹوٹل تعداد ساٹھ لاکھ سے زائد ہے ان کی بڑی تعداد آج بھی بیرون دمشق اور عمان کے پاس بدحالی میں رہ رہی ہے۔ مجھے آج عظیم قائد محمد علی جناح کی فہم و فراست اور دوربینی کا پھر سے خیال آ رہا ہے قائد نے کہا تھا کہ مجھے کٹا پھٹا پاکستان بھی ملا تو میں قبول کر لوں گا۔ یقین مانیے، اگر پاکستان نہ بنتا تو ہماری حالت انڈیا کے مسلمانوں جیسی ہی ہوتی اور تاریخ کی یہ ستم ظریفی بھی ملاحظہ کریں کہ دو ریاستی فارمولا جسے عربوں نے ستر سال پہلے ٹھکرا دیا تھا آج اس کے حصول کے لیے کوشش کر رہے ہیں مگر اسرائیل وہ بھی دینے کو تیار نہیں۔ 
عربوں نے لیلی خالد ،جورج حباش اور ابوندال جیسے حریت پسند پیدا کئے تو انہیں دہشت گرد کہا گیا۔ 1980ء کی دہائی میں یاسر عرفات نے مسلح جدوجہد کی بجائے بات چیت کا اسلوب اپنایا۔ 1993ء میں اوسلو معاہدہ ہوا۔ یاسر عرفات اور اسحاق رابین کو نوبل امن انعام تو مل گئے مگر فلسطین میں نہ امن آیاا اور نہ ہی فلسطینیوں کو حق خودارادیت مل سکا۔
ہم پاکستان میں فلسطینی مسئلہ کو اکثر یہودیت اور اسلام کے مابین تنازعہ سمجھتے ہیں اور یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ ہمارے قبلہ اول پر قبضہ اس سارے قصے کا مرکزی باب ہے لیکن میرے نزدیک یہ مسئلہ غاصب صہیونیت اور انسانیت کے درمیان جنگ ہے صہیونی جب 1948ء میں فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے تھے تو عیسائی بھی اتنے ہی مظلوم تھے جتنے کہ مسلمان۔ اور آج بنیامین نیتن یاہو کی حکومت ایک متعصب صہیونی حکومت لگتی ہے جو اس بات پر منحصر ہے کہ اسرائیل کو پہلے یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے باقی بات بعد میں ہو گی۔ مقصد صاف ظاہر ہے کہ کوئی فلسطینی مہاجر خواہ وہ عیسائی ہو یا مسلمان اپنے وطن واپس نہ آ سکے۔ اسرائیلی بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ عرب ممالک کی تعداد بائیس ہے جبکہ یہودی آبادی والا اسرائیل صرف ایک ہے اور اس بات کا اصل مقصد یہ ہے کہ عرب ممالک فلسطینی مہاجرین کو اپنے ہاں آباد کریں گویا ساٹھ لاکھ فلسطینی مہاجرین جن کی تین نسلیں خیمہ بستیوں میں جوان ہوئی ہیں اپنے اصلی گھروں کو لوٹنے کے حق سے محروم کئے جا رہے ہیں۔ تمام انسانی حقوق کے قوانین اور اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں فلسطینی مہاجرین کے واپسی کے حق کو تسلیم کرتی ہیں لیکن اسرائیل کو کوئی پروا نہیں کیونکہ امریکہ اور برطانیہ اس کے حامی ہیں اور مجھے نزار قبانی کی نظم یاد آ رہی ہے جو فلسطینی مہاجر کی ذہنی کیفیت کی عکاسی ہے ؎
اب میرے ہاتھ میں بندوق آ گئی ہے
اے مجاہدوں مجھے اپنے ساتھ فلسطین لے چلو
میں اپنی کھوئی ہوئی سائیکل تلاش کروں گا، میں اپنے محلے کے دوستوں کے ساتھ کھیلوں گا ،اے مجاہدوں مجھے اپنے ساتھ فلسطین لے چلو ......جتنے فلسطینی آج ایسٹ بینک یعنی دریائے اردن کے بائیں کنارے رہ رہے ہیں ان سے کہیں زیادہ پوری د نیا میں دربدر پھر رہے ہیں۔ لارڈ بلفور نے یہ مختصر مگر ظالم خط دو نومبر 1917ء کے دن لکھا تھا۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے پچھلے ہفتے کہا کہ دو نومبر ہمارے لیے فخر کا دن ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ محترمہ آپ کو فخر کس بات کا ہے؟ کیا آپ کو فخر اس بات کا ہے کہ سو سال پہلے ایک پرامن ،مہذب اور شاندار ماضی والی قوم کا مستقبل تباہ کر دیا گیا تھا۔ کیا آپ کو فخر اس بات پر ہے کہ تین عظیم ادیان کی سرزمین میں ہمیشہ کے لیے نفرت کے بیج بو دیئے گئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں