"JDC" (space) message & send to 7575

تنگ آمد بجنگ آمد

کبھی آپ نے سنا ہے کہ ساٹھ بلکہ ستر سال سے متجاوز سینئر سٹیزن بڑی تعداد میں جمع ہو کر ایک نیم سرکاری ادارے کے خلاف نعرے لگا رہے ہوں۔ جی ہاں بزرگ شہریوں کا یہ احتجاجی جلسہ حال ہی میں فیڈرل ہائوسنگ فائونڈیشن کے سامنے ہوا ہے۔ احتجاج کرنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو سینئر سول سرونٹ رہے۔ قائداعظم یونیورسٹی میں پڑھایا‘بیرون ملک پاکستان کے سفیر رہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے تک قاعدہ قانون اور ڈسپلن کے تحت سروس کرنے والے اس احتجاج پر مجبور ہوئے۔ احتجاج کرنے والوں میں ریٹائرڈ فوجی افسر بھی شامل تھے جو جی 13 اورجی 14 میں گھر بنانے کی غلطی کر چکے ہیں۔
جی 13 اور جی 14 کے رہائشی پلاٹ 1995ء کے آس پاس ریٹائرمنٹ کے قریب سول سرونٹس کو دیئے گئے تھے۔ مجھے یہاں پلاٹ 2001ء میں ملا جب میں یونان میں سفیر تھا‘ سب سے پہلے ایک حلف نامے پر سائن کرائے گئے کہ اس سے پہلے مجھے کوئی سرکاری پلاٹ یا مکان نہیں ملا یہ سارا عمل بڑے شفاف طریقے سے ہوا میری ریٹائرمنٹ میں پانچ سال باقی تھے۔ جب یہ امید ہوگئی کہ اسلام آباد میں اپنی چھت ہو گی اپنا گھر ہو گا خواہ وہ پانچ سو گز کا ہی ہو تو بڑی خوشی ہوئی۔
جی تیرہ کی زمین ہائوسنگ فائونڈیشن نے خریدی تھی ہم نے جلد ازجلد پلاٹ کی قیمت اور ڈویلپمنٹ چارجز بھی ادا کر دیئے مجھے یاد ہے کہ یہ رقم 2001ء میں سات لاکھ روپے کے لگ بھگ تھی۔ صدر جنرل مشرف کے زمانے میں ڈویلپمنٹ کا ٹھیکہ ایف ڈبلیو او کو بغیر کسی ٹینڈر کے دیا گیا۔ سیکٹر کے درمیان میں کچھ زمین وزارت دفاع کی تھی۔ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ فائونڈیشن متبادل قطعہ اراضی ڈیفنس کو دے گی مگر وہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ 2005ء میں جب میں مسقط میں سفیر تھا تو فائونڈیشن کا خط آیا کہ سیکٹر کی ڈویلپمنٹ کے لیے مزید رقم درکار ہے۔ میں بچوں کو امریکہ اور انگلینڈ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیج چکا تھا۔ مالی حالات خاصے ٹائٹ تھے خیال آیا کہ پلاٹ فائونڈیشن کو واپس کر دیا جائے پھر سوچا کہ دو چار لاکھ کے لیے اسلام آباد میں رہنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے‘ عبدالرئوف چوہدری سیکرٹری ہائوسنگ تھے وہ مجھ سے ایک سال بعد سروس میں آئے تھے پرانی یاداللہ تھی میں نے مسقط سے چوہدری صاحب کو فون کیا کہنے لگے آپ کے پیسے اپنے سیکٹر پر ہی لگیں گے لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ جیسے بھی ہو آپ ادائیگی کر دیں چنانچہ ہم نے ڈویلپمنٹ چارجز دوسری مرتبہ بھی ادا کر دیئے۔ 2007ء میں ریٹائر ہوکر اسلام آباد آیا تو پتہ چلا کہ سڑکیں بن گئی ہیں البتہ سیکٹر میں نہ بجلی ہے نہ گیس اور نہ ہی پانی۔ ان دنوں فائونڈیشن میں ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن فاروقی صاحب ہوا کرتے تھے ان سے معاملہ ڈسکس کیا۔ فاروقی صاحب نے ان تمام مشکلات کے علاوہ ایک اور پرابلم کی طرف اشارہ کیا‘ کہنے لگے کہ آپ کے سیکٹر کے بالکل ساتھ جی بارہ ہے وہ علاقہ سیکورٹی کے اعتبار سے ٹھیک نہیں اور اس کا سایہ جی تیرہ پر لمبا عرصہ رہے گا میں نے بیگم کے ساتھ متبادل رہائشی علاقوں از قسمے ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹائون کے چکر لگائے یہ دونوں بڑے شاندار طریقے سے ڈویلپ کئے گئے ہیں سڑکیں کشادہ ہیں اور صاف ستھری۔ شجرکاری بڑی حد تک ہو چکی تھی لیکن بڑی مشکل یہ تھی کہ یہ دونوں بستیاں اسلام آباد سے قدرے دور ہیں ان دنوں عربی ٹی وی چینل مجھے اکثر بلاتے تھے اور یہ انٹرویو رات گئے ہوتے تھے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ گھر جی تیرہ میں ہی بنایا جائے۔
2007ء میں سیکٹر میں گنتی کے چند گھر تھے یہ وہ بہادر لوگ تھے جو گھپ اندھیرے میں اپنے جنریٹر چلا کر رہ رہے تھے پانی بور کا استعمال کرتے تھے ضروری اشیا جی گیارہ سے جا کر خریدتے تھے گھر بھی بور کے پانی سے تعمیر کئے گئے تھے چنانچہ ہم نے بھی 2008ء میں گھر کی بنیاد رکھ ڈالی 2009ء میں نیپرا کے چیئرمین میرے بیچ میٹ اور اکیڈمی کے دوست خالد سعید تھے ان کے پاس گئے اور کہا کہ سیکٹر میں دو تین سو گھر آباد ہو گئے ہیں لیکن بجلی نہیں ہے ہائوسنگ فائونڈیشن میں اتنی صلاحیت نہیں کہ واپڈا سے بجلی دلوا سکے۔ خالد سعید نے ذاتی دلچسپی لے کر واپڈا والوں سے ہماری ملاقاتیں اپنے دفتر میں کرائیں اور بجلی ہمیں مل گئی۔ ابھی تک گھروں کے چولہے گیس سلنڈر خرید کر جلائے جاتے تھے 2011ء میں سیکٹر کی چند بزرگ خواتین نے بڑی ہمت دکھائی روزانہ آئی نائن میں سوئی گیس کے دفتر پہنچ جاتی تھیں ان میں میری بیگم بھی شامل تھی بالآخر سیکٹر کو گیس بھی مل گئی صفائی پانی اور سیوریج کا بندوبست سی ڈی اے کا تھا جبکہ سیکٹر کی ملکیت فائونڈیشن کی تھی اس دوعملی سے بھی بہت کنفیوژن تھی سی ڈی اے کے عملے کا کہنا تھا کہ ڈویلپمنٹ کا کام بہت ناقص ہوا ہے۔ سڑکیں ٹوٹنے لگیں‘ کچھ بارشوں میں بہہ گئیں جب سی ڈی اے نے گھروں کو پانی دینا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ایف ڈبلیو او والے کچھ مقامات پر پانی کے پائپ ڈالنا بھول گئے ہیں سیوریج کا کام بھی ناقص تھا ایف ڈبلیو‘ کو بلوں کی ادائیگی سے پہلے سی ڈی اے یا فائونڈیشن کے کسی انجینئر نے اپروول ضرور دی ہو گی‘ اس افسر کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
مارچ2015ء میں وفاقی محتسب کے دفتر میں فیصلہ ہوا کہ دو عملی ختم کر کے جی تیرہ اور جی چودہ کا پورا کنٹرول ہائوسنگ فائونڈیشن کو دے دیا جائے۔ سیکٹر کی ویلفیئر تنظیم ہیبیٹاٹ کی صدر مسز سائرہ کریم اور میں اس میٹنگ میں شامل تھے‘ ہمارے کئی اعتراضات تھے جو ببانگ دہل کئے گئے پہلا اعتراض تھا کہ فائونڈیشن ایک کمپنی ہے جبکہ سی ڈی اے اتھارٹی ہے۔ فائونڈیشن کے پاس نہ کوئی قانونی بنیاد ہے اور نہ ہی ٹیکس لگانے کا اختیار۔ گھروں کے نقشے بنانے کی صلاحیت بھی فائونڈیشن کے پاس نہیں اور نہ ہی کوئی مالی ہے آپ سی ڈی اے کے متوازی تنظیم کیوں کھڑی کر رہے ہیں اور وہ بھی نااہل۔ جواب ملا کہ جی تیرہ اسلام آباد کی شہری حدود سے باہر ہے اور دوسرے زمین کی مالک فائونڈیشن ہے ہمارا جواب تھا کہ اسلام آباد شہر کی حدود میں توسیع ہو سکتی ہے اور تمام زمین ہمارے پیسوں سے خریدی گئی ہے اور فیصلے ہم سے بالا بالا ہورہے ہیں۔ ڈی جی وقاص علی محمود نے کہا کہ ہم سڑکوں کی تعمیر صفائی کا نظام ہائوس بلڈنگ کنٹرول آئوٹ سورس کر دیں گے ہم اس سیکٹر کو پیرس بنا دیں گے۔ اگلے روز میں نے ڈی جی صاحب کو کہا کہ آپ جی تیرہ کو پیرس تو نہیں بنا سکے تو آپ اسے اسلام آباد ہی بنا دیں۔ موصوف مجھے حیرت سے تکنے لگے۔
ہائوسنگ فائونڈیشن کے خلاف پہلا احتجاج جی تیرہ کے مکینوں نے نومبر 2015ء میں کیا ان دنوں پانی کی شدید کمی تھی اور ٹینکر مافیا کے مزے تھے۔ دوسرا احتجاج دسمبر 2016ء میں ہوا اور ڈی جی صاحب اسی روز میرے گھر آئے اور کئی لوگوں کے سامنے کہا کہ سیکٹر میں ترقیاتی کام ایک ماہ میں شروع ہوگا مگر ایفائے عہد میں آٹھ ماہ لگے وجہ یہ تھی کہ پورے دفتر میں ایک بھی افسر ایسا نہ تھا جو پی سی ون تیار کر سکے۔ اس دفر میں سفارشیوں کی بھرمار ہے جو صرف اپنا پلاٹ لینے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں سیکٹر کے شروع میں سولہ منزلہ دیوہیکل اپارٹمنٹ عمارات بن رہی ہیں۔ بیس اکتوبر کے احتجاج میں میرا موقف تھا کہ اوریجنل نقشے میں یہ چار منزلہ عمارتیں سولہ سولہ منزلیں کیسے ہو گئیں یہ غیر قانونی فعل ہے پیچھے سے آواز آئی کہ یہ بھی بتائیں کہ موجودہ ٹھیکے دار کا وزیر ہائوسنگ سے کیا تعلق ہے؟ آخر میں خبروں کے مطابق سیکرٹری ہائوسنگ شاہ رخ ارباب نے لائف سٹائل ریذیڈنسی کے بارے میں انکوائری کا حکم دیا اور وہ او ایس ڈی کے عہدے پر سرفراز کر دیئے گئے ہیں۔ حالات یہی رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جی تیرہ کہ مکین کشمیر ہائی وے پر دھرنا دینے پر مجبور ہو جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں