"JDC" (space) message & send to 7575

چند روز ولائت میں

آپ کو یاد ہو گا ہمارے بزرگ انگلستان کو ولائت کہتے تھے اور وہاں کی مصنوعہ چیزوں کو ولائتی۔ وہ چونکہ سلطنتِ برطانیہ کے تحت رہے تھے‘ اس لئے انگریزوں سے خاصے مرعوب نظر آتے تھے۔ اپنی طالب علمی کے زمانے میں مجھے برطانیہ اور مغرب کے بارے میں مختلف بلکہ کسی قدر متضاد رویّے مشاہدہ کرنے کو ملے۔ 1960ء کی دہائی میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تھا‘ وہاں انگریزی بولنے والے ہمیں بڑا امپریس کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ہمارے جیسے پینڈو بھی انگریزی بولنے لگے۔ کالج ہوسٹل کے کامن روم میں لائف ٹائم اور فلم فیئر جیسے انگریزی زبان کے میگزین شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ لاہور کے چار سینما گھر صرف انگریزی فلمیں دکھاتے تھے۔ دوسری جانب ایسے طالب علم بھی تھے جو انگریزی زبان کو سامراجیت کی نشانی سمجھتے تھے اور اردو کو ترویج دینا چاہتے تھے۔ کچھ طالب علم بہت مذہبی تھے۔ انہیں نکٹائی میں عیسائیت کا کراس نظر آتا تھا لیکن عمومی طور پر ماحول بہت رواداری اور برداشت کا تھا اور انگریزی ترقی کا زینہ تھی۔ سلطنتِ برطانیہ کا حصہ رہنے کی وجہ سے پاکستانی ملک سے نکلے تو سب سے پہلے انگلستان آئے کیونکہ یہاں زبان کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اور آج یہاں لاکھوں پاکستانی ہیں۔ لندن کا میئر صادق خان بھی پاکستانی ہے۔ حسن نواز بھی لندن میں رہتا ہے۔ اس کی پراپرٹی بھی انگلستان میں ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ برطانیہ چار حصوں پر مشتمل ہے‘ یعنی انگلستان‘ سکاٹ لینڈ‘ ویلز اور شمالی آئرلینڈ۔ سلطنتِ برطانیہ کبھی کی ختم ہو چکی مگر یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے) عسکری سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے آج بھی دنیا میں ایک پوزیشن رکھتا ہے۔ لندن کا نام نیو یارک‘ ہانگ کانگ اور سنگاپور کے ساتھ آج بھی دنیا کے فنانشل مراکز میں آتا ہے۔
میرا چھوٹا بھائی انجینئر وقار حفیظ ایک زمانے سے لندن کے مضافات میں مقیم ہے۔ وہ کیڈٹ کالج حسن ابدال اور انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے فارغ التحصیل ہو کر لندن چلا گیا تھا۔ وہاں مزید تعلیم پائی‘ شادی کی اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اُسے پاکستان سے بے حد محبت ہے۔ کوئی بھی فیملی فنکشن ہو‘ پاکستان ضرور آتا ہے۔ اس مرتبہ اس کے بیٹے عثمان کی شادی تھی‘ لہٰذا میں لندن کھنچا آیا۔ لندن میرے لئے اجنبی نہیں۔ یہاں متعدد بار سرکاری اور پرائیویٹ طور پر آ چکا ہوں۔ اس شہر میں ایک کشش ضرور ہے۔ لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر ہر پندرہ سیکنڈ کے بعد ایک فلائٹ پرواز کرتی ہے یا لینڈ کرتی ہے۔ ہیتھرو ایئر پورٹ کے پانچ ٹرمینل ہیں۔ اس کے علاوہ لندن کے مضافات میں تین چار ایئر پورٹ اور بھی ہیں۔
یورپ نے سائنٹیفک ترقی تب شروع کی جب یہاں تحریکِ احیائے علوم شروع ہوئی۔ چرچ اور ریاست علیحدہ ہوئے۔ برطانیہ میں شاندار تعلیمی ادارے بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملک ایک عظیم بحری طاقت بن گیا اور آج تک اس ملک کی ترقی رکی نہیں۔ آج بھی یہ لوگ اپنے مسئلے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ریسرچ یہاں اعلیٰ پائے کی ہوتی ہے۔ لندن میں کاروں کی بھرمار ہو گئی تو Congestion Charge اس کا حل نکالا گیا‘ یعنی رش کے اوقات میں سنٹرل لندن آنا ہے تو ٹول ٹیکس ادا کرنا لازمی ٹھہرا۔ حالیہ بجٹ میں ڈیزل کی گاڑیوں پر اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے کیونکہ یہ دھواں زیادہ چھوڑتی ہیں۔ بجلی کی کاروں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ بجلی کی کاروں کو مفت چارج کیا جا سکتا ہے۔ آٹھ فیصد بجلی ہوا کی طاقت سے پیدا کی جا رہی ہے۔ ایک زمانے میں لندن کی ہوا میں دھند‘ سموگ اور آلودگی بہت ہوا کرتی تھی۔ آج صورت حال بہت مختلف ہے۔ فضا میں آلودگی بہت کم ہے۔ 
میں پچھلے ہفتے لندن ایئر پورٹ پر اترا تو وقار میرے استقبال کے لیے موجود تھا۔ ایئر پورٹ پر کوئی قلی یا پورٹر نظر نہیں آیا۔ یہاں ہر کام خود کرنا پڑتا ہے۔ ایئر پورٹ سے نکلتے ہی وقار نے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے پارکنگ فیس دی اور ہم کار کی جانب چل دیئے۔ یہاں کرنسی کا استعمال آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے۔ یورپی یونین کو چھوڑنے کا پچھلے سال کا فیصلہ کئی منفی اثرات چھوڑ گیا ہے۔ کرنسی کی ویلیو گری ہے۔ اقتصادی شرح نمو کم ہوئی ہے۔ ریفرنڈم کرانا سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمروں کا فیصلہ تھا اور یورپی یونین کو چھوڑنے کا عوامی فیصلہ منفی نتائج لے کر آیا ہے‘ لیکن عوامی رائے کا احترام جمہوریت کی جان ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کو غلطی کا احساس ہوا اور وہ عہدے سے علیحدہ ہو گئے۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے مذاکرات 2019ء میں مکمل ہوں گے۔ ایک نتیجہ یہ ہے کہ برطانوی حکومت کی ساری توجہ ان مذاکرات پر مرکوز ہو گئی ہے۔ یورپ کی قیادت اب فرانس اور جرمنی کے پاس جا رہی ہے۔ نئی وزیر اعظم تھریسا مے کی مقبولیت خاصی کم ہے اور وقار خوش ہے کہ لیبر پارٹی کے اقتدار میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے لیبر پارٹی کا حامی رہا ہے۔
پاکستانی کمیونٹی عمومی طور پر یہاں خوش ہے۔ میرٹ اور رول آف لاء یہاں کے نظام کے لازمی جزو ہیں۔ ادارے مضبوط ہیں۔ عدالتوں میں انصاف ملتا ہے۔ میں یہاں پہنچا تو اسلام آباد کا دھرنا تیسرے ہفتے میں تھا اور میں بار بار پاکستانی ٹی وی چینل لگا کر تازہ ترین صورتحال معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں مجھے وقار نے درخواست کی کہ بھائی جان پاکستانی چینل کم سے کم دیکھیں۔ میں نے سوال کیا کہ کیوں؟ جواب ملا کہ آپ یہاں شادی اٹینڈ کرنے آئے ہیں‘ انجوائے کریں‘ ہنسی خوشی وقت گزاریں‘ پاکستانی خبریں سُن کر بڑی وحشت ہوتی ہے‘ آدمی خواہ مخواہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ 
بات وقار کی ٹھیک تھی۔ برطانیہ میں ہر طرف نظم و ضبط ہے‘ ڈسپلن ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک سلیقے سے چلتی ہے۔ کسی جگہ رش ہو جائے تو کوئی ہارن نہیں بجاتا۔ ادارے مضبوط ہیں‘ پولیس خوش اخلاق ہے اور مستعد بھی۔ اسی وجہ سے لندن میں کسی قسم کا قبضہ گروپ یا مافیا پروان نہیں چڑھ سکا۔ ہم بارات لے کر مانچسٹر جا رہے ہیں۔ راستے میں ہریاول ہی ہریاول ہے۔ درخت ضرور خزاں کے اثرات دکھا رہے ہیں لیکن کھیتوں میں چراگاہیں ابھی سبز ہیں۔ وقار کی ہونے والی بہو ڈاکٹر ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ لڑکی والوں کا تعلق کس برادری سے ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی ذات برادری کی قیود سے آزاد ہو چکی ہے۔ وقار کو واقعی نہیں معلوم کہ اس کے سمدھی کس برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
مانچسٹر پہنچے تو موسم صاف تھا۔ تھوی دیر بعد گھنگھور گھٹا آئی اور بارش شروع ہو گئی اور پھر اولے نازل ہوئے۔ بارش ختم ہوئی تو ہلکی ہلکی برفباری شروع ہو گئی۔ برطانیہ میں موسم لمحہ بہ لمحہ تیور بدلتا ہے۔ سورج نکل آئے تو لوگ خوش ہوتے ہیں۔ بارات اپنی منزل مقصود پر پہنچی تو چار سو سے زائد لوگ لڑکی والوں کی طرف سے موجود تھے اور اُن میں کئی گورے بھی تھے۔ لڑکی والے مانچسٹر میں ایک عرصے سے رہ رہے ہیں اور دائرہ احباب وسیع ہے۔ انگریز ایشین شادیوں کو میوزک ڈانس اور چٹ پٹے کھانوں کی وجہ سے پسند کرتے ہیں (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں