"JDC" (space) message & send to 7575

تمام تر مشکلات کے باوجود… (3)

ڈاکٹر خالد آفتاب کی کتاب Against all Odds ایک زبوں حال ادارے کے احیائے نو کی دلچسپ کہانی ہے۔ ادارے ختم ہونے کو ہوں تو اُن میں دوبارہ اصلی سپرٹ‘ وژن اور ڈسپلن واپس لانا کارے دارد کے مصداق ہے اور یہاں نہ صرف گورنمنٹ کالج کو دوبارہ اپنی اصلی شکل میں بحال کیا گیا بلکہ اُسے اٹانومی دلا کر 1999ء کے کانووکیشن میں اپنی ڈگریاں دینے کے قابل بنایا گیا اور پھر 2002ء میں اس عظیم ادارے کو یونیورسٹی کا درج ملا۔ اتنا بڑا کام کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہ تھا۔ 2009ء میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پاکستان آئیں تو طالب علموں سے خطاب کے لئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ لاہور کی یہ نئی یونیورسٹی اب عالمی طور پر معروف ہو چکی تھی۔
ضروری ہے کہ قارئین کے لئے یونیورسٹی اور کالج کا فرق واضح کر دیا جائے۔ ہمارے نظام میں ہر گریجویٹ لیول کالج کا کسی نہ کسی یونیورسٹی سے الحاق ضروری ہے۔ عام طور پر یونیورسٹی کا کام سلیبس بنانا‘ کوالٹی کنٹرول امتحان لینا اور ڈگریاں دینا تصور کیا جاتا ہے۔ دراصل فنانشل اور انتظامی اٹانومی کسی بھی یونیورسٹی کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ ہائر ایجوکیشن کمشن (HEC) کے ذریعے ہر تسلیم شدہ یونیورسٹی کو گرانٹ دیتی ہے۔ یونیورسٹیوں کی کارکردگی پر نظر رکھنا بھی کمشن کا کام ہے لیکن ایک حقیقت ہماری نظروں سے اکثر اوجھل رہتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی میں تواتر سے ریسرچ کا کام ہوتا رہتا ہے۔ ریسرچ کے ذریعے نئے علم کی تخلیق ہوتی ہے۔ اچھی ریسرچ کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ اور سٹوڈنٹس کے ذہن کشادہ ہوں۔ یونیورسٹی میں آزادیٔ فکر لازمی ہے۔ یہاں ہر قسم کے سوال پوچھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ برداشت کی وافر مقدار کے بغیر کوئی یونیورسٹی پھل پھول نہیں سکتی۔
گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی بنانے کا مرحلہ آسان نہ تھا۔ ڈاکٹر خالد آفتاب اور ان کے ساتھیوں نے اپنے وژن کے مطابق نئی یونیورسٹی کا چارٹر تجویز کیا‘ تو پنجاب کی سینئر بیوروکریسی کو یہ جدت پسند نہ آئی۔ اس کا اصرار تھا کہ باقی جامعات کی طرز کا سکہ بند چارٹر ہی
بنایا جائے۔ پھر نئی یونیورسٹی کے نام کا مسئلہ زیر بحث رہا۔ پرنسپل خالد آفتاب کی رائے تھی کہ نئے ادارے کا نام ''دی راوی یونیورسٹی‘‘ رکھا جائے اور گورنمنٹ کالج لاہور اس یونیورسٹی کا ملحقہ ادارہ ہو۔ استدلال یہ تھا کہ دنیا کی کئی یونیورسٹیاں قریب بہنے والے دریائوں سے منسوب ہیں مثلاً کیمبرج۔ دوسرے یہ کہ کالج میگزین کا نام بھی راوی ہے اور اسی مناسبت سے کالج کے پرانے سٹوڈنٹ اولڈ راوین کہلاتے ہیں۔ ایک استدلال یہ تھا کہ نیا نام اختیار کر کے ادارہ اپنی شناخت کھو بیٹھے گا اور اولڈ راوینز کی اکثریت بضد تھی کہ پرانے نام کے ساتھ یونیورسٹی کا لاحقہ لگا کر کام چلا لیا جائے؛ چنانچہ یہی رائے غالب آئی‘ اگرچہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ایک متضاد قسم کا مرکب ہے۔ دنیا بھر میں تصور یہ ہے کہ ہر یونیورسٹی کو گورنمنٹ کے براہ راست کنٹرول سے آزاد ہونا چاہیے اور پھر یہ کہ ایک ادارہ بیک وقت کالج اور یونیورسٹی کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ بھی کھلا تضاد ہے لیکن کیا کیا جائے دنیا میں کئی قسم کے تضادات موجود ہیں۔
1999ء میں فوجی حکومت آئی تو پنجاب میں بھی دیگر صوبوں کی طرح نئی کابینہ تشکیل پا رہی تھی۔ عمومی طور پر فوجی حکمران اس بات کا پاس ضرور رکھتے ہیں کہ غیر سیاسی مگر اچھے اشخاص سامنے لائیں‘ جو اپنے فیلڈ کے ماہر بھی ہوں۔ اُس وقت کے کور کمانڈر لاہور جنرل خالد مقبول نے پروفیسر خالد آفتاب کو چائے کے لئے بلایا اور وزیر تعلیم پنجاب بننے کی آفر دی۔ خالد صاحب کا جواب تھا کہ میں اتنے بڑے عہدے کی ذمہ داری شاید نہ نبھا سکوں۔ ظاہراً وہ کسرِ نفسی سے کام لے رہے تھے لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ وہ گورنمنٹ کالج کی بہتری پر اپنی تمام تر توجہ فوکس رکھنا چاہتے تھے۔ پچھلے کالم میں عبدالسلام سکول آف ریاضیات کا ذکر آیا تھا۔ ڈاکٹر خالد آفتاب نے مخالفت کے باوجود اس انٹرنیشنل سکول کا نام یہی رکھا۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ڈاکٹر عبدالسلام مغرب کے تعلیمی حلقوں میں ایک عظیم سائنس دان کے طور پر معروف تھے۔ اس طرح گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ملحقہ ایک اور شاندار ادارہ تشکیل پایا۔ 2010ء میں یورپین سوسائٹی برائے ریاضیات نے اس ادارے کا شمار دنیا بھر میں تین ابھرتے ہوئے ریاضی کے مراکز میں کیا۔ اس ادارے نے گیارہ سال کے مختصر عرصے میں ایک صد پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر پیدا کئے۔ چودہ مختلف ممالک سے 43 پروفیسروں نے اس سکول میں پڑھایا۔ فارن فیکلٹی میں انگلینڈ‘ جرمنی‘ فرانس‘ روس‘ ناروے‘ چائنا‘ امریکہ‘ انڈونیشیا اور دیگر ممالک کے پروفیسر شامل تھے۔ یہ ادارہ بہت جلد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے لئے باعث افتخار بن گیا۔ پاکستان اب دنیا کے تعلیمی نقشے پر تھا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اس ادارے کا بجٹ سکڑنے لگا۔ یہ بھی طُرفہ تماشہ ہے کہ جو ادارہ فوجی حکومت کے عرصے میں پھلا پھولا وہ جمہوری عہد میں زوال پذیر ہوا۔ ہمیں تعلیم کی قدر جاننے والے بڑے لیڈر چاہئیں۔ آصف زرداری اور نواز شریف تعلیم کی اہمیت کا ادراک نہیں کر سکتے۔
اپنے وجود کے 138 سال بعد گورنمنٹ کالج لاہور کو یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ دس ستمبر 2002ء کو آرڈیننس جاری ہوا۔ اُس روز کالج کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر لائٹنر کی روح بڑی خوش ہوئی ہو گی۔ گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی بنانے کا خواب سب سے پہلے ڈاکٹر لائٹنر Dr.w.g Leitiner نے دیکھا تھا۔
ڈاکٹر خالد آفتاب کا راسخ عقیدہ ہے کہ ایک اچھا تعلیمی ادارہ بہتے دریا کی مانند ہوتا ہے جو ہر لمحہ اپنی تجدید کرتا رہتا ہے۔ ہم گلوبل ویلیج میں رہتے ہیں۔ تمام علوم بنی نوعِ انسان کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ پروفیسر خالد آفتاب اپنی یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف سائوتھ ایشیا سٹڈیز بنانا چاہتے تھے۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے لئے پرانے جمنیزیم کی بلڈنگ کا انتخاب کیا گیا۔ یہ عمارت کالج کی مین بلڈنگ سے پرانی ہے۔ عمارت خستہ حال تھی۔ مرمت کے لئے پنجاب گورنمنٹ کے فنڈز ناکافی تھے۔ باقی کی رقم انڈیا کے ریٹائرڈ سفیر مدن جیت سنگھ نے دی جو اولڈ راوین تھے۔ لیکن بوجوہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ تفصیل کتاب میں موجود ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ انڈیا‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے پروفیسر ہمارے ہاں پڑھاتے اور ہمارے استاد وہاں جاتے۔ بہرحال ڈاکٹر خالد آفتاب کے زمانے میں انڈیا سے اولڈ راوین بڑی تعداد میں لاہور آتے رہے۔ کتاب کے کئی اور دلچسپ پہلو ہیں لیکن کالم کی کوتاہ دامنی آڑے آ رہی ہے۔ ہر راوین اور اولڈ راوین کو اس اچھی تصنیف کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ (ختم)
فیڈرل گورنمنٹ ہائر ایجوکیشن کمشن (HEC) کے ذریعے ہر تسلیم شدہ یونیورسٹی کو گرانٹ دیتی ہے۔ یونیورسٹیوں کی کارکردگی پر نظر رکھنا بھی کمشن کا کام ہے لیکن ایک حقیقت ہماری نظروں سے اکثر اوجھل رہتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی میں تواتر سے ریسرچ کا کام ہوتا رہتا ہے۔ ریسرچ کے ذریعے نئے علم کی تخلیق ہوتی ہے۔ اچھی ریسرچ کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ اور سٹوڈنٹس کے ذہن کشادہ ہوں۔ یونیورسٹی میں آزادیٔ فکر لازمی ہے۔ یہاں ہر قسم کے سوال پوچھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ برداشت کی وافر مقدار کے بغیر کوئی یونیورسٹی پھل پھول نہیں سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں