"JDC" (space) message & send to 7575

آج کا بھارت …(2)

ایک زمانہ تھا کہ انڈیا اپنی ترقی پسندی اور سیکولر ازم کی وجہ سے مشہور تھا۔ بھارت کی اس شناخت کی علمبردار کانگریس پارٹی تھی۔ مولانا آزاد کے پائے کے لیڈر کو بھی خوش گمانی تھی کہ سیکولر انڈیا میں مسلمانوں کیلئے سیاسی ، اقتصادی اور سماجی سپیس ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو البتہ یہ خوش گمانی لاحق نہیں تھی۔ انہیں یقین تھا کہ مولانا آزاد جیسے مسلمان لیڈر کانگریس نے نمائش کیلئے رکھے ہوئے ہیں۔ اسی لئے قائد نے مولانا کو شو بوائے آف کانگریس کہا تھا۔ کانگریس منافقت کو بامِ عروج پر لے گئی تھی۔ اس کی سیاست کے اصل محور گاندھی جی اور سردار پٹیل تھے جو نہرو کی سوچ کے برعکس رام راج پر یقین رکھتے تھے‘ مگر اس کا کیا کیا جاتا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کو گاندھی جی بھی مسلمان دوست نظر آتے تھے۔ اسی آر ایس ایس کی سیاسی مرید یعنی بی جے پی آج کل انڈیا کی 29 میں سے 21 ریاستوں پر حکمران ہے۔ آخری کامیابی بی جے پی کو تری پورہ کی ریاست میں حاصل ہوئی‘ جہاں کمیونسٹ پارٹی پچیس سال بعد ہاری ہے۔ تری پورہ کے ہارنے والے وزیر اعلیٰ مانک سرکار بیس سال تک اپنے عہدے پر رہے‘ وہ اپنی ایمانداری کیلئے مشہور تھے۔ رکشہ میں دفتر جاتے تھے‘ ان کا کوئی ذاتی گھر بھی نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے ایماندار لیڈر کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے کیسے شکست دی۔ اس کی چند ایک وجوہات ہیں: ایک تو یہ کہ عوام پچیس سال کی یکسانیت سے اکتائے ہوئے تھے‘ اور تبدیلی چاہتے تھے۔ دوسری وجہ یہ کہ سوشلزم بطور نظریہ عالمی طور پر پٹ چکا ہے۔ تیسرے یہ کہ بی جے پی بزنس فرینڈلی ہے‘ اور اقتصادی ترقی کا منشور اس کی پہچان ہے اور آخری مگر سب سے اہم وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مودی سرکار بھارت کی ہندو شناخت پر کھل کر عمل پیرا ہے۔
انڈیا میں پرائمری تعلیم کے سلیبس پر نظر ثانی ہو رہی ہے۔ برصغیر کی تاریخ پھر سے لکھی جا رہی ہے ، جدید ترین دریافت یہ ہے کہ لوگ باہر سے نہیں آئے تھے بلکہ یہیں کے رہنے والے لوکل تھے۔ اس تحریف شدہ نظریئے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ دو بڑی اقلیتیں یعنی مسلمان اور کرسچئن بھی سب کے سب لوکل ہیں اور ان کے آبائواجداد نے اپنا مذہب بدلا، لہٰذا یہ اقلیتیں دوبارہ مذہب بدل کر ہندو مت میں داخل ہو سکتی ہیں۔ اس عمل کو ''گھر واپسی‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور بی جے پی گھر واپسی کی پالیسی پر زور و شور سے عمل پیرا ہے۔
پچھلے دنوں اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میں ''انڈیا میں انتہا پسندی‘‘ کے موضوع پر سیمینار ہوا۔ مقبوضہ کشمیر کے مشہور جرنلسٹ مرتضیٰ شبلی مین سپیکر تھے۔ موصوف عرصے سے لندن میں مقیم ہیں‘ ان کی بیگم لاہور سے تعلق رکھتی ہیں‘ لہٰذا پاکستان ان کا آنا جانا تواتر سے رہتا ہے۔ پاکستان کے اخباروں میں بھی لکھتے ہیں۔ دورانِ تقریر شبلی صاحب نے بی جے پی کے ایک نئے پلان کے بارے میں سامعین کو بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی انڈیا کے دستور میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے۔ ترمیم شدہ آئین میں پارلیمنٹ کے تین ہائوس ہوں گے۔ سب سے اعلیٰ و ارفع گرو سبھا ہو گی‘ جسے انڈین صدر نامزد کرے گا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ گرو سبھا مذہبی لوگوں پر مشتمل ہو گی۔ دوسرے ہائوس کا نام رکھشا سبھا ہو گا۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ انڈیا کی نیشنل سکیورٹی کونسل ہو گی۔ تینوں افواج کے سربراہ رکھشا سبھا کے ممبر ہوں گے اور پھر لوک سبھا ہو گی جسے عوام منتخب کریں گے۔ شبلی صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اقلیتوں کے خلاف جب بھی بی جے پی نے ہندو جذبات کو بھڑکایا ہے‘ اس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ پارٹی مقبولیت میں اضافہ کرتی ہے۔ 2019ء انڈیا میں عام انتخابات کا سال ہے‘ لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ کشمیر اور دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف کچھ نہ کچھ ہوتا رہے گا۔ آج کے بھارت کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ 'گائے کی حفاظت‘ کا معاملہ ایک سیاسی نعرہ بن گیا ہے۔ اسی طرح بھارتی مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت‘ دو اور سیاسی نعرے ہیں جو انڈیا کے لوگوں کو متحد کرنے کیلئے لگائے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی کم ہوئی ہے جبکہ بھارت میں پچھلے سالوں میں یہ بڑھتی ہے۔ آج سے دو تین عشرے پہلے کہا جاتا تھا کہ بالی وڈ پر خان چھائے ہوئے ہیں تو کرکٹ پر اظہر الدین اور عرفان پٹھان گویا بھارت میں مذہبی امتیاز ختم ہو چکا ہے لیکن دھمکیاں دلیپ صاحب کو بھی ملیں‘ اور شاہ رخ خان کو بھی ملتی رہتی ہیں۔ پاکستان مخالف نعرے بی جے پی کی سیاست کی اساس ہیں کہ اس سے ووٹوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پچھلے تین چار انتخابات میں انڈیا فیکٹر پاکستان میں نظر نہیں آیا۔ بلاول بھٹو نے آزاد کشمیر کے الیکشن میں نواز شریف کو مودی کا یار ہونے کا طعنہ ضرور دیا تھا لیکن اس سے پیپلز پارٹی کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔
میں خود انڈیا سے اچھے تعلقات کا حامی ہوں کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ ہو گا لیکن تالی بجانے کیلئے دو ہاتھ درکار ہوتے ہیں۔ پاکستان کی یک طرفہ گرم جوشی کا انڈیا ہمیشہ غلط مطلب نکالے گا جیسا کہ نواز شریف کے آخری دور حکومت میں ہوا۔
ذات پات کا نظام انڈیا میں ختم نہیں ہو سکا۔ وہاں اکتالیس فیصد لوگ نچلی ذاتوں سے متعلق ہیں۔ گو کہ وہ ہندو سماج کا حصہ ہیں لیکن انہیں یہ بھی یقین ہے کہ پچھلے جنم میں ضرور بہت پاپ کئے ہوں گے‘ جس کی سزا انہیں نیچ ذات میں پیدائش کی صورت میں ملی ہے اور چونکہ اس سزا میں بھگوان کی مرضی شامل ہے لہٰذا سزا کاٹنا بھی ضروری ہے۔ اس کے مقابلے میں عیسائیت ، اسلام اور سکھ مت انسانی مساوات پر یقین رکھتے ہیں۔ بہرحال مذہب ہر انسانی کا ذاتی معاملہ ہے اور کوئی بھی مذہب اچھائیوں سے خالی نہیں ہوتا ۔ ہندو مت میں لوک سیوا یعنی انسانوں کی خدمت کا اصول راسخ ہے۔ ذرا لاہور پر نظر ڈالئے، گنگا رام اور گلاب دیوی ہسپتال کس نے بنائے، ڈی اے وی کالج جو آج کل اسلامیہ کالج سول لائنز کہلاتا ہے‘ لاہور کی ہندو کمیونٹی کی نشانی ہے۔ اسی طرح آج کے انڈیا میں بھی انسانی فلاح و بہبود کیلئے بے شمار ادارے ہیں۔
اور اب آتے ہیں انڈیا کی خارجہ پالیسی کی طرف۔ بنگلہ دیش کو انڈیا نے اپنا بغل بچہ بنا لیا ہے لیکن پاکستان نیپال ، سری لنکا اور مالدیپ کے ساتھ بھارت کے ایشوز چلتے رہتے ہیں۔ علاقے میں صرف چین ایسا ملک ہے جس کیلئے بھارت کا رویہ محتاط ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دو طرفہ تجارت اسّی بلین ڈالر کو چھو رہی ہے‘ لیکن دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ اقتصادی اور عسکری لحاظ سے چین بھارت سے زیادہ مضبوط اور قوی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پچھلے سال موسم گرما میں چینی اور بھارتی افواج دوکلام کے بارڈر پر بڑے مختصر عرصے کیلئے آمنے سامنے آئیں اور پھر پیچھے ہٹ گئیں۔ دوکلام بارڈر دراصل بھوٹان اور چین کے مابین متنارعہ علاقہ ہے اور بھوٹان خطے میں بھارت کا دوسرا بغل بچہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ چین نے علاقے میں سڑکیں اور فوجی عمارتیں بنا لی ہیں اور انڈیا کچھ نہیں کر سکا۔ وہ اپنے تابع فرمان دوست بھوٹان کی مدد بھی نہیں کر سکا۔ پچھلے دنوں دلائی لامہ نے انڈیا میں پناہ لینے کی سالگرہ منائی تو مودی سرکار نے اپنے افسروں کو اس فنکشن میں جانے سے منع کر دیا۔ آج کا بھارت صرف پیسے اور طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں