"JDC" (space) message & send to 7575

فارن سروس پر ایک اور وار

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی فارن سروس پر پے در پے حملے کر رہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے انہوں نے علی جہانگیر صدیقی کو امریکہ میں سفیر نامزد کرنے کا غلط اور بے محل فیصلہ کیا تھا اور اب جبکہ ان کی حکومت چند ہفتے کی مہمان ہے قطر میں پاکستان کے سفیر شہزاد احمد کو مزید ایک سال کی توسیع دے دی گئی ہے۔ فارن آفس کے ترجمان نے کہا ہے کہ شہزاد احمد نان کیرئیر سفیر ہیں گویا کہ ان کا فارن سروس سے کوئی تعلق نہیں۔
شہزاد احمد کو مارچ 2014 ء میں میاں نوازشریف نے سفیر مقرر کیا تھا۔ ان کے پیشرو سید حسن رضا کو فقط چند ماہ دوحہ کی سفارت ملی۔ حسن رضا کا تعلق فارن سروس سے تھا۔ اس زمانے میں بھی اس اچانک پوسٹنگ پر کئی مبصروں کے کان کھڑے ہوئے تھے۔ کہا گیا کہ شہزاد احمد کی فیملی کے میاں صاحب سے پرانے تعلقات ہیں۔ موصوف پیشے کے اعتبار سے بینکر ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ پاکستان کے علاوہ برطانیہ کی شہرت بھی رکھتے ہیں۔ اس بات پر بھی بحث ہوتی رہی ہے کہ قطر کے ساتھ ایل این جی کا معاہدہ ہوتے ہی وہاں اپنا بندہ کیوں بھیجا گیا ۔ اب پانچویں سال کے لیے سفیر کبیر کی توسیع مزید شکوک کو جنم دے گی۔
فارن سروس کا افسر سی ایس ایس کا مشکل امتحان پاس کر کے سروس شروع کرتا ہے وہ ایک سال والٹن لاہور میں واقع سول سروس اکیڈمی میں کامن ٹریننگ کرتا ہے اور پھر اسلام آباد میں فارن سروس اکیڈمی میں سال کی تربیت پاتا ہے۔ اس اکیڈمی میں سابق سفراء اور معروف پروفیسرز انٹرنیشنل لا ،بین الاقوامی تعلقات اور ڈپلومیسی کے اصول و ضوابط کے بارے میں لیکچرز دیتے ہیں۔ اس ٹریننگ کے اختتام پر محکمانہ امتحان پاس کرنا لازمی ہے۔ اس مرحلے سے آگے افسر مختلف زبانیں سیکھنے کے لیے بیرون ملک بھیج دیئے جاتے ہیں۔
لینگوئج ٹریننگ کے بعد افسر تھرڈ سیکرٹری لگتا ہے۔ ہر سال اس کی کارکردگی پر رپورٹ لکھی جاتی ہے۔ گریڈ بیس میں آنے تک وہ دو ٹریننگ کورس کرتا ہے جن میں نیپا کا کورس شامل ہے۔ گریڈ اکیس میں جانے کے لیے افسر کے لیے سٹاف کالج یا نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ٹریننگ کورس سے گزرنا ضروری ہے۔ سفارت خانے میں ایک جونیئر افسر عام طور پر پاسپورٹ کا کام کرتا ہے ۔ماہانہ رپورٹ لکھتا ہے۔ ایمبیسی کے اکائونٹس کا چارج اس کے پاس ہوتا ہے ۔جب وہ تھرڈ سیکرٹری ،سیکنڈ سیکرٹری اور فسٹ سیکرٹری کے عہدوں سے ہوتا ہوا کونسلر بنتا ہے تو سفیر کا دست راست ہوتا ہے، انتظامی امور سے لے کر سیاسی اور اقتصادی امور کی تجزیہ کاری کرتا ہے۔ میزبان ملک کی وزارت خارجہ جا کراہم امور پر پاکستان کا نقطہ نظر سمجھاتا ہے۔ جب سروس بیس سال کے لگ بھگ ہو جاتی ہے تو افسر پہلی مرتبہ سفارت کے عہدے تک پہنچتا ہے اور یہ وہ منزل ہے جس کا فارن سروس کے افسر سالوں انتظار کرتے ہیں اور پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ ہر افسر سفارت کی کرسی پر فائز ہو سکے۔ کئی افسر اپنی ناقص پرفارمنس کی وجہ سے گریڈ بیس تک نہیں پہنچ پاتے۔
لیکن جب شہزاد احمد جیسے نووارد ایک ہی جمپ لگا کر سفارت کے عہدے پر متمکن ہو جائیں تو سروس کے لوگوں کا دل دکھنا لازمی امر ہے۔ موصوف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ نااہل وزیراعظم کے منظور نظر ہیں اور یہ بھی محل نظر رہے کہ قطری شہزادے کے مشہور و معروف خط کو بھی شہزاد صاحب نے تصدیق کیا تھا۔ قطر میں سیف الرحمن عرف احتساب الرحمن اور شہزاد احمد حکومت کے خاص معتمد ہیں ۔یاد رہے کہ قطری خط کے حصول میں سیف الرحمن کا مرکزی رول تھا۔ تمام اہم ممالک سفیر مقرر کرتے وقت بڑی سنجیدگی سے کام لیتے ہیں۔ انڈیا اور ترکی میں اب نان کیرئیر نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ یہ پیشہ خاصا ٹیکنیکل ہو گیا ہے کوئی بھی سنجیدہ حکومت اپنی اور ملک کی پہلی دفاعی لائن نان پروفیشنل لوگوں کے سپرد نہیں کرتی لیکن پاکستان کا باو آدم ہی نرالا ہے ۔یہاں پیپلز پارٹی نے حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کو اہم ملکوں میں سفیر لگایا۔ حسین حقانی پر لاکھوں ڈالر کا سیکرٹ فنڈ غائب کرنے کا الزام ہے ۔اس ننگ وطن نے ساری عمر نمک پاکستان کا کھایا اور آج واشنگٹن میں بیٹھ کر انڈین لابی کا چہیتا ہے ۔واجد شمس الحسن لندن میں سفیر تھے اور آصف زرداری کے سوئس اکائونٹس کا ریکارڈ قبضے میں لینے خود زیورخ گئے۔ جنرل مشرف نے جس شخص کو انڈونیشیا میں سفیر مقرر کیا اس نے فارن آفس سے پوچھے بغیر قیمتی سرکاری عمارتیں بمع وسیع قطعات اراضی بیچ دیئے۔ میاں نوازشریف نے ایسے ایسے سفیر لگائے کہ آپ ان کو دیکھ کر حیران ہو جائیں۔ اپنے ہم زلف کو برما میں سفیر لگایا موصوف سفارت کاری کی ابجد سے بھی ناآشنا تھے ۔آپ کو پتہ ہے کہ امریکہ میں ہر نامزد سفیر کو سینیٹ کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور اگر سینیٹ منظوری نہ دے تو وہ ملک کا پرچم بیرون ملک اپنی کار اور گھر پر نہیں لگا سکتا مگر ہمارے ہاں وزیراعظم کسی بھی ایرے غیرے کو بیک جنبش قلم سفیر بنا سکتا ہے۔ وزارت خارجہ ہمارے ہاں حلوائی کی دکان بن چکی ہے جہاں پر حکمران اپنے چہیتوں کو لے جا کر گاڑھے شیرے والی جلیبیاں کھلاتا ہے ۔اب وقت آ گیا ہے ۔ہمارے ہاں ہر نان کیرئیر سفارت کا طلب گار نیشنل اسمبلی اور سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سامنے پیش ہو۔ اس طرح ہماری پارلیمنٹ کی توقیر بڑھے گی۔
شہزاد احمد کئی اور سفراء کی طرح دوہری شہریت کے حامل ہیں گویا ان کی وفاداری منقسم ہے۔یہ لوگ دو کشتیوں کے سوار ہیں اور ہر سفیر کو پاکستانی حکومت کی خفیہ خط و کتابت کے کوڈ تک رسائی ہوتی ہے ۔آپ تصور کریں کہ اگر حسین حقانی جیسے ننگ وطن کے پاس ملکی راز ہوں تو وہ ان کا کیا حشر کرے گا۔ حسین حقانی کی بیگم فرح ناز اصفہانی امریکی شہریت رکھتی تھیں، پیپلز پارٹی کی ایم این اے تھیں اور صدر زرداری کی ترجمان بھی۔
شہزاد احمد کو توسیع دینے کا فیصلہ میرے اندازے میں میرٹ پر مبنی نہیں یہ صرف نااہل وزیراعظم کی ذاتی خواہش پر مبنی لگتا ہے ورنہ فارن آفس کی رائے لی جاتی۔ پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بتایا جاتا کہ اس نابغۂ روزگار نے قطر میں کون کون سے تیر چلائے ہیں۔
کئی سال پہلے ایک پالیسی طے کی گئی تھی کہ بیس فیصد سفراء نان کیرئیر یعنی فارن سروس سے باہر کے ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی عہد کیا گیا تھا کہ باہر سے آنے والے سفراء کی تعداد بتدریج کم کر دی جائے گی لیکن یہ وعدہ آج تک وفا نہیں ہو سکا۔ وجہ یہ ہے کہ سیاسی رشوت اور بے پناہ اختیارات حکمرانوں کو سوٹ کرتے ہیں۔ انڈیا اور ترکی نے اپنے نان کیریئر سفیر بہت کم کر دئیے ہیں ۔جب میں یونان میں سفیر تھا تو میںنے گریک سفارت کاروں سے پوچھا کہ آپ کے بیرون ملک نان کیرئیر سفیر کتنے ہیں؟ جواب ملا صرف ایک اور وہ یونیسکو پیرس میں ہے۔ یوینسکو چونکہ تعلیم کے معاملات سے ڈیل کرتا ہے لہٰذا وہاں گریک حکومت کوئی چوٹی کا پروفیسر کسی اعلیٰ یونیورسٹی سے بھیجتی ہے۔
ہمیں اپنی پہلی دفاعی لائن کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ہماری فارن سروس میں پانچ چھ ایسے لائق فائق افسر ہونے چاہئیں جن کے پاس ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں سے انٹرنیشنل لاء میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم ہو۔ ہمارے سفارت کاروں کو عربی ،فرنچ ،چینی اور ہسپانوی زبانیں فرفر بولنی چاہئیں۔ انہیں عالمی تجارتی امور کا ماہر ہونا چاہیے مگر ہم ہیں کہ شہزاد احمد جیسے لوگوں کو توسیع پر توسیع دیئے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کی فکر ہی نہیں کہ ہماری فارن سروس کا مورال گر رہا ہے ۔فارن سروس جائے بھاڑ میں ہم نے اپنے دوستوں کو خوش کرنا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں