"JDC" (space) message & send to 7575

خطرناک یونانی تنظیم نومبر 17

آج سے تقریباً چالیس سال پہلے یونان کی سر زمین پر ایک انتہائی خطرناک اور خفیہ تنظیم نے جنم لیا اور اپنے آپ کو نومبر 17 کا نام دیا۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ یونان میں 1967ئمیں فوجی حکومت آئی تھی جو سات سال تک قائم رہی ۔ عام رائے یہ تھی کہ فوجی حکومت لانے میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔ یہ کولڈ وار کا زمانہ تھا اور یونان میں بائیں بازو کے افکار کے حامل لوگ خاص تعداد میں تھے۔ چنانچہ فوجی حکومت مخالف افکار اور امریکہ کے خلاف نفرت یکجا ہو گئے۔ نئی جنم لینے والی دہشت گرد تنظیم نے سوشلزم کا لبادہ اوڑھا اور اپنے آپ کو غریب عوام کی نقیب کہنے لگی۔ 17 نومبر 1973 ء کوایتھنز میں طالب علموںنے فوجی حکومت کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔ جسے فوج نے پوری قوت سے کچل دیا‘ بیس سٹوڈنٹ مارے گئے۔ اس خفیہ تنظیم کا نام اسی مناسبت سے رکھا گیا۔ایتھنز میں سی آئی اے کا چیف رچرڈ ویلش 1975ئمیں اس تنظیم کا پہلا ہدف بنا۔ 2002ء تک اس خفیہ تنظیم نے چھبیس قتل کیے اور متعدد بینک ڈکیتیوں میں شریک رہی۔ یہ بائیں بازو کی شہری گوریلا جماعت تھی جس کا ہدف امریکی یا برٹش سفارت کار تھے یا کنزرویٹو پارٹی Nea Demokratia (نیا دیموکراطیہ) کے وہ ممبر جو صاحب ثروت تھے۔ ان لوگوں کے بارے میں نومبر 17 والوں کو یقین تھا کہ یہ بین الاقوامی راسمالی نظام اور امریکہ کے پروردہ ہیں لہٰذا ان کا صفایا قومی اور عوامی مفاد کے عین مطابق ہے۔ دہشت گردوں کے اس خطرناک گینگ کی کارروائیاں اکثر و بیشتر ایتھنز تک محدود رہیں ۔ اس گروہ کے ارکان کی تعداد بیس کے قریب تھی ۔یہ لوگ یا تو آپس میں رشتہ دار تھے یا گہرے دوست۔ یہ بڑا گروہ چار پانچ کے چھوٹے گروہوں میں منقسم تھا جن کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا۔ یہ لوگ سال چھ ماہ بعد ایک ہائی پروفائل قتل کرتے تھے اور پھر خاموشی سے بیٹھ جاتے تھے۔
دن دہاڑے متمول لوگوں یا فارنرز کو قتل کرنے والے یہ انتہائی سفاک لوگ ستائیس سال تک دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی کارروائیاں کرتے رہے اور وہ بھی دارالحکومت میں مگر ایک بھی گرفتاری عمل میں نہ آئی۔ فوجی حکومت کے 1974ء میں خاتمے کے بعد یونان میں بائیں بازو کی جماعت PASOK زیادہ عرصہ پاور میں رہی۔ نظریۂ سازش پر یقین رکھنے والے کہتے تھے کہ 17 نومبر والوں کو سرکاری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے اس سلسلہ میں کوئی حتمی رائے دینا مشکل ہے۔ البتہ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ یونانی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں یا تو نالائق تھیں یا نیم دلی سے کام کر رہی تھیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کا ہدف چونکہ انتہائی امیر لوگ تھے یا مغربی سفارت کار لہٰذا عام گریک شہری کی نظر میں یہ لوگ اتنے برے نہیں تھے۔ البتہ بعد میں یہ لوگ اتنے دیدہ دلیر ہوئے کہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانے لگے۔ حتیٰ کہ کمیونسٹ پارٹی آف گریس کے بھی ایک دو لیڈر ان کا نشانہ بنے۔ 17 نومبر والوں کو کمیونسٹ پارٹی والوں سے برخاش تھی کہ یہ لوگ سیاست کے مین دھارے میں آ رہے تھے جبکہ 17 نومبر والے ملک میں انارکی چاہتے تھے۔
میں مارچ 1999 ء میں ایتھنز پہنچا تو نومبر 17 کی تنظیم خاصی فعال تھی‘ البتہ شہر میں کوئی خوف و ہراس کی فضا اس لیے نہیں تھی کہ یہ لوگ سال چھ ماہ میں ایک کارروائی کرتے تھے اور اکثر ہدف عوام نہیں ہوتے تھے۔ ایتھنز کے کولوناکی (KOLONAKI) کے ایریا میں ہمارا سفارت خانہ برٹش ایمبیسی کے بالکل ساتھ تھا۔ ایتھنز کے قریب ہی سیکنڈ ورلڈ وار کے زمانے کا قبرستان ہے ۔اس قبرستان میں کامن ویلتھ میموریل بھی بنایا گیا ہے۔ کامن ویلتھ ڈے پر اس قبرستان میں ایک پروقار تقریب ہوتی تھی۔ برٹش ڈیفنس اتاشی اس سالانہ تقریب کا روح رواں ہوتا اور اسی تقریب میں میری پہلی ملاقات بریگیڈیئر سٹیفن سینڈرز Stephen Sanders سے ہوئی۔ بریگیڈیئر سٹیفن نے ایک خلیجی ملک میں پاک آرمی کو قریب سے دیکھا تھا اور وہ ہماری فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بڑے مداح تھے لہٰذا ہماری یہ ملاقات گہری دوستی کی ابتدا بنی۔ اگلے سال یعنی 2000 ء میں بریگیڈیئر سینڈرز کو 17 نومبر والوں نے دن دہاڑے دفتر جاتے ہوئے قتل کر دیا اور یہی قتل اس تنظیم کے زوال کا سبب بنا۔ مجھے بریگیڈیئر سینڈرز کے قتل کا ذاتی طور پر بڑا صدمہ ہوا۔ میں فوراً ہی برٹش ایمبیسیڈر اور بیوہ سے تعزیت کے لیے گیا۔ اس کے بعد دو سال تک برٹش ڈیفنس اتاشی کی بیوہ نے بڑی ہی یکسوئی سے اس دہشت گرد تنظیم کا تعاقب کیا۔ اس نے برطانیہ واپس جا کر اپنی حکومت کو فعال کیا۔ برطانوی وزیر داخلہ جیک سٹرا Jack Straw نے ایتھنز کا دورہ کیا۔ گریک گورنمنٹ کو سکاٹ لینڈ یارڈ اور برطانوی خارجی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی 6 کی خدمات پیش کیں۔ ڈیفنس اتاشی کی بیوہ ہیتھر سینڈرز Heather Sanders باقاعدگی سے ایتھنز آتی رہیں ‘وہاں ہر دفعہ پریس کانفرنس کی‘ عوام میں پمفلٹ تقسیم کئے۔ نومبر 17 والوں کا کہنا تھا کہ ہم نے برٹش ڈیفنس اتاشی کو قتل کر کے سربیا کے اوپر نیٹو کی طرف سے کئی گئی 1999 ء کی بمباری کا بدلہ لیا ہے۔ بیوہ ہر دفعہ ایتھنز آ کر کہتی تھی کہ میرے خاوند کا سربیا کی بمباری سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ بے گناہ تھا۔ جن لوگوں نے میرا سہاگ چھینا ہے انہیں گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچانا نہایت ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے نومبر 17 کے تین مطالبے تھے کہ یونان سے امریکی فوجی اڈے ختم کیے جائیں۔ یونان نیٹو کے عسکری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرے اور ترک افواج قبرص سے نکل جائیں۔ اس مختصر سی مگر مہلک تنظیم کے اکثر ممبر بڑے پڑھے لکھے لوگ تھے الیگزانڈر جیوٹوپلس Alexender Geotoples اس تنظیم کا لیڈر تھا اور یہ ریاضی کا پروفیسر تھا۔ ایک اور سر کردہ لیڈر دیمتری کوفودیناس Dimitri Koufodinas تھا۔ اس نے شہد کی مکھیاں پال رکھی تھیں۔ یہ خطرناک لوگ دستی بم اور گرنیڈ بنانے کے ماہر تھے۔ 2002 ء میں تنظیم کے بیشتر لوگ ایتھنز سے گرفتار ہوئے پولیس کو ان کے گھروں سے حساب کتاب کی متعدد بکس ملیں غالباً آمدنی اور اخراجات کی تمام تفاصیل لکھ کر یہ لوگ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بینکوں سے لوٹی گئی تمام رقوم ''قومی مفاد‘‘ میں خرچ کی گئی ہیں! 2002 ء تک اس تنظیم کے خلاف گریک پولیس برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ اور خفیہ ایجنسی اور اس کے علاوہ امریکی حکومت سب آپس میں تعاون کر رہے تھے۔ امریکی حکومت نے عرصے سے نومبر 17کو عالمی دہشت گرد تنظیم ڈکلیئر کیا ہوا تھا۔ دوسری جانب عالمی اولمپک گیمز 2004 ء میں ایتھنز میں منعقد ہونا تھے۔ دنیا میں سب سے پہلے اولمپک گیمز یونان کے شہر اولمپیا میں منعقد ہوئے تھے اور پھر 1896 میں پہلے ماڈرن اولمپک گیمز ایتھنز میں ہوئے جو ایک طرح سے قدیم کھیلوں کا احیاء تھا۔ یونانی حکومت کے لیے اب 2004 ء کے کھیلوں کی سکیورٹی اولین ترجیح تھی۔ دنیا کے سینکڑوں ممالک سے کھلاڑی اور تماشائی متوقع تھے۔ یونانی حکومت کو خدشہ تھا کہ نومبر 17 والے اس انٹرنیشنل ایونٹ کے موقع پر حملے کر سکتے ہیں اور ایسی صورت میں پوری دنیا میں یونان کی سبکی ہوتی چنانچہ اب گریک گورنمنٹ اور اس کے ادارے بھی دل و جان سے نومبر 17 والوں کا سراغ لگانے کے در پے تھے۔ یہ معاملہ میڈیا میں بھی خاصا گرم تھا۔
جون 2002 ء میں اس تنظیم کا ایک ممبر Savas Xiros (سواس ذیروس) پیریاس کی بندرگاہ سے کسی جزیرے کی طرف سفر کے لیے تیار تھا۔ ٹکٹ خریدتے وقت وہ کچھ نروس تھا۔ کائونٹر پر بیٹھے ہوئے شخص نے اس سے شناختی کاغذات مانگے تو وہ اپنے بیگ میں کاغذات ڈھونڈنے لگا۔ بیگ میں اس نے چند ہینڈ گرنیڈ بھی چھپا رکھے تھے۔ ان میں سے ایک گرنیڈ غلطی سے گرا اور وہیں پھٹ گیا۔ اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا اور اگلے دو ماہ میں سترہ اور لوگ گرفتار ہوئے۔ 
مارچ 2003ء میں ایک انتہائی سکیورٹی والی جیل میں مقدمہ شروع ہوا۔ اس تنظیم پر استغاثہ نے دو ہزار کے قریب الزامات لگائے۔ عدالت کے سامنے الزامات پڑھنے میں استغاثہ والوں کو چھ گھنٹے لگے۔ انیس لوگوں پر کیس چلا۔ بیشتر کو عمر قید ہوئی یاد رہے کہ یورپی یونین کی ممبر شپ کی وجہ سے یونان سزائے موت نہیں دی جاتی۔ اس پڑھی لکھی تنظیم کے ایک لیڈر نے جیل میں ہی دو کتابیں لکھیں۔ جس روز مقدمہ شروع ہوا ہیتھر سینڈرز ایتھنز میں موجود تھی۔ اسے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان لوگوں کو دیکھنا چاہیں گی؟ ہیتھر نے کہا بالکل نہیں میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ جس طرح ان لوگوں نے مجھے میرے خاوند سے عمر بھر کے لیے جدا کیا ہے‘ یہ بھی اپنے خاندانوں سے عمر بھر الگ رہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں