"JDC" (space) message & send to 7575

صدر ٹرمپ کا مواخذہ؟

گزشتہ چند سالوں سے ہم امریکہ کے زوال کے بارے میں باتیں سن رہے ہیں۔ میں اسی کالم میں لکھ چکا ہوں کہ امریکہ کا زوال اگر ہوا بھی تو یک دم نہیں ہو گا اور یہ کہ امریکہ زوال کے بعد دوبارہ اٹھنے کی سکت بھی رکھتا ہے‘ اس لئے کہ اس ملک کے پاس بہت سے قدرتی وسائل اور اعلیٰ انسانی وسائل یعنی ہیومن ریسورس موجود ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں امریکہ بہت آگے ہے۔ ریسرچ اور نت نئی ایجادات میں امریکہ کا اب بھی کوئی ملک ہم پلہ نہیں۔ دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیاں امریکہ میں ہیں۔
پچھلے سال ان دنوں میں امریکہ میں تھا تو وہاں بھی امریکہ کے ممکنہ زوال کی باتیں ہوتی رہتی تھیں‘ اور جب زوال کے اسباب کی بات ہوتی تھی تو مختلف آراء سننے کو ملتی تھیں۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ افغانستان اور عراق کی جنگیں وسائل کے ضیاع کا سبب بنی ہیں اور دونوں ممالک میں امریکہ اپنے متعلقہ اہداف بھی حاصل نہیں کر سکا۔ اس طرح بطور سپر پاور امریکہ کی ہیبت کے غبارے میں شگاف پڑ گئے ہیں۔ بعض سکالرز کا خیال تھا کہ 2008 کے اقتصادی ڈیپریشن Economic Depression کی وجہ بھی یہ دونوں جنگیں تھیں اور پھر امریکہ جیسی دنیا کی سب سے بڑی اکانومی کو چین سے قرضے لینا پڑے۔
اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کوصدر بنے چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ موصوف وائٹ ہائوس میں آنے سے پہلے ہی متنازع شخصیت تھے۔ میرے وہاں ہوتے ہوئے امریکہ کے ایک قصبے میں کالے اور گورے شہریوں کے درمیان بلوہ ہوا اور صدر ٹرمپ نے گوروں کے حق میں بیان دیا۔ اس بیان پر کافی لے دے ہوئی۔ آج کے امریکہ کی حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی بشمول چینی اور انڈین تعلیم میں گوروں سے آگے نکل گئے ہیں۔ افریقہ سے آئے ہوئے امریکن کھیلوں اور کئی اور فیلڈز میں برتری حاصل کر رہے ہیں۔ آج کا امریکہ پھولوں کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں ہر رنگ کے اور ہر نسل کے لوگ موجود ہیں‘ بلکہ امریکہ کی بنیاد ہی ہجرت پر ہے۔ کولمبس Christopher Columbus امریکہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ نسلی تنوع دراصل ماڈرن امریکہ کی قوت ہے جسے ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں لیکن یہ بہت بڑی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ شمالی کوریا کے لیڈر کے ساتھ صدر ٹرمپ کی نوک جھونک بھی پچھلے موسم گرما میں شروع ہوئی تھی اور اس سے امریکی صدر کے قد کاٹھ میں قطعاً اضافہ نہیں ہوا تھا۔ 
مجھے کئی انڈین اور پاکستانی اوریجن کے امریکیوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ بذات خود امریکہ کے زوال کی نشانی بھی ہیں اور سبب بھی۔ بھلا کسی سپر پاور کا صدر ایسی حرکتیں کر سکتا ہے۔ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان دے سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی الیکشن میں کامیابی کے فوراً بعد یہ بات سامنے آئی کہ ہلیری کلنٹن کی شکست میں روسی حکومت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ ایک گمان یہ بھی تھا کہ ہلیری کے ای میل پیغامات کو افشا کرنے اور سوشل میڈیا میں ان کے خلاف مہم چلانے میں بھی روسیوں کا ہاتھ تھا۔ پھر پتہ چلا کہ ٹرمپ کے چند عزیز اور الیکشن مہم کے کرتا دھرتا بھی روسیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ان میں صدر ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل مائیکل فلِن Michael Flynn بھی شامل تھے۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے تشکیل دی گئی ٹیم کے اہم ممبر تھے۔ چارج سنبھالنے کے چند ہفتے بعد انہوں نے روسیوں سے روابط کا اقرار کیا اور مستعفی ہو گئے۔
امریکہ میں ادارے مضبوط ہیں۔ وہاں قمر زمان چوہدری جیسے لوگ زیادہ دیر سروائیو Survive نہیں کر سکتے۔ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں آنے کے جلد ہی بعد ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی James Comey کو کھانے پر مدعو کیا۔ ایف بی آئی امریکہ کی داخلی سکیورٹی کا سب سے اہم ادارہ ہے‘ جو نیشنل سکیورٹی سے متعلق سنجیدہ الزامات کی تحقیق بھی کرتا ہے۔ جیمز کومی صدر ٹرمپ کے پاس کھانا کھانے تو چلے گئے لیکن میڈیا نے اس بات پر بہت سوال اٹھائے۔ جیمز کومی کو جلد ہی ٹرمپ نے عہدے سے فارغ کر دیا۔ انہی دنوں امریکن میڈیا میں یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ صدر ٹرمپ نے جیمز کومی کو کہا کہ مائیکل فلن کے خلاف ہونے والی تحقیقات ختم کر دی جائیں۔
امریکی نظام چیک اینڈ بیلنس کے نظریہ پر قائم ہے کہ ریاست کے تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں اور کوئی بھی ادارہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے۔ اگر صدر کے خلاف سنجیدہ الزامات ہوں تو کانگریس کا لوئر ہائوس یعنی ایوان نمائندگان اکثریت سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ صدر کا مواخذہ ہونا چاہئے۔ پھر یہ کیس سینیٹ کے پاس جاتا ہے۔ سینیٹ یہاں جیوری کا روپ دھار لیتی ہے۔ اگر سینیٹ دو تہائی اکثریت سے یہ فیصلہ کرے کہ صدر واقعی کسی بڑی غلطی کا مرتکب ہوا ہے تو اسے عہدہ چھوڑنا پڑے گا اور وائس پریذیڈنٹ اس کی جگہ کرسیٔ صدارت پر براجمان ہو جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی کبیرہ غلطیاں ہیں جن کی بنا پر صدر کا مواخذہ امریکہ میں ممکن ہے۔ سب سے بڑا گناہ تو Treason یعنی غداری ہے۔ دوسرا بڑا گناہ رشوت ہے۔ تیسرا گناہ کردار کی گراوٹ کا کوئی بھی ٹھوس ثبوت ہے۔ امریکہ میں بدکرداری یہ نہیں کہ صدر شراب نوش ہے یا خواتین کے معاملے میں دل پھینک ہے۔ وہاں سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے۔ یاد رہے کہ صدر بل کلنٹن پر الزام یہ نہیں تھا کہ اس نے مونیکا نامی لڑکی سے اپنے دفتر میں فحش حرکات کیں بلکہ کلنٹن کی بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے ابتدا میں صحتِ جرم سے انکار کیا یعنی مونیکا سے کسی قسم کے تعلق کے بارے میں سفید جھوٹ بولا۔ بعد میں صدر کلنٹن نے قوم سے معافی مانگی تو سینیٹ نے انہیں معاف کر دیا۔ صدر کلنٹن کے علاوہ امریکہ میں صدر انڈریو جانسن Andrew Johnson کا مواخذہ ہوا تھا جبکہ صدر رچرڈ نکسن نے مواخذے کے ڈر سے خود ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔
بدکرداری کی ایک اور وجہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا بھی ہو سکتی ہے۔ امریکہ والے اس بات پر بڑا فخر کرتے ہیں کہ وہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی بھی امریکن شہری بشمول صدر انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے تو وہ سزا سے بچ نہیں سکتا۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے منیجر Paul Manafort پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے یوکرائن سے کروڑوں ڈالر کمائے۔ منی لانڈرنگ کی اور ٹیکس چوری کی۔ انہیں بھی ممکنہ سزا کا سامنا ہے۔ صدر ٹرمپ پر عدل کی راہ میں رکاوٹ بننے کا الزام لگ سکتا ہے۔ 
پچھلے سال ماہ مئی میں امریکہ کی وزارتِ عدل نے رابرٹ مولر Robert Muller کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں مبینہ روسی مداخلت کا کھوج لگائیں۔ رابرٹ مولر ری پبلکن ہیں اور بہت اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے وکیل ہیں اور تیرہ سال تک ایف بی آئی کے ہیڈ رہے۔ صدر ٹرمپ کا بس چلے تو آج ہی رابرٹ مولر کو عہدے سے فارغ کر دیں۔ لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتے کیونکہ مولر کا پبلک امیج بہت اچھا ہے۔ مولر کے پاس آج کل سپیشل پراسیکیوٹر کا عہدہ ہے۔ ان کے پاس علیحدہ بجٹ ہے‘ سٹاف ہے، اور وہ صدر ٹرمپ کے لئے بہت پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
جہاں تک صدر ٹرمپ کے ممکنہ مواخذے کا تعلق ہے تو یہ فی الحال مشکل نظر آتا ہے کیونکہ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت صدر کے خلاف ووٹ دے اس بات کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے صدر ٹرمپ کے بارے میں امریکی عوام کو صبر کرنا ہو گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں