"JDC" (space) message & send to 7575

چین کا سفر… (2)

ہمارا بیجنگ سے اگلا پڑاؤ شنگھائی تھا‘ چین کا سب سے بڑا اور خوبصورت شہر۔ جانے سے پہلے ہم نے میزبان تھنک ٹینک یعنی CPIFAوالوں سے کہا کہ ہم بیجنگ سے بذریعہ بلٹ ٹرین شنگھائی جانا پسند کریں گے۔ جواب آیا کہ آپ میں کئی حضرات ستر سال سے معمر ہیں‘ آپ کے پاس بھاری سوٹ کیس بھی ہوں گے چنانچہ ٹرین پر چڑھنے اور اترنے میں دقت ہوگی لہٰذا میزبان کی ہدایت کے مطابق یہ سفر بائی ایئر ہوا۔
سُنا تھا کہ آج سے چالیس پینتالیس سال قبل چینی دوست کراچی آ کر حبیب بینک پلازہ کی عمارت کو حیران ہو کر دیکھتے تھے۔ آج کے شنگھائی میں ایک ہزار عمارتیں حبیب بینک پلازہ سے طویل تر ہیں۔ سب سے اونچی عمارت یعنی شنگھائی ٹاور 128منزلہ ہے۔ شنگھائی ایک زمانے سے چین کا تجارتی مرکز ہے۔ اس وقت شنگھائی کی آبادی 25ملین یعنی ڈھائی کروڑ ہے۔ یہ شہر سوشلزم کی آمد سے پہلے خوشحال تھا اور موجودہ صنعتی ترقی میں بھی آگے آگے ہے۔ بیجنگ تا شنگھائی فلائٹ سوا دو گھنٹے کی ہے۔ دونوں چینی میزبان مادام ڈومِن Du Minاور مس شاؤلے ہمارے ساتھ شنگھائی گئیں۔ شنگھائی میں پاکستان کا قونصلیٹ جنرل ہے۔قونصل جنرل کی نمبر ٹو ہمارے استقبال کیلئے ایئرپورٹ پر موجود تھیں۔ ہم جن جیانگ ٹاور Jin Jiang Tower روانہ ہوئے۔ ہوٹل پہنچے تو بتایا گیا کہ ریسٹورنٹ نو بجے بند ہو جائے گا آپ فوراً ہی ڈنر کر لیں۔
اگلے روز یعنی اتوار کے دن دفتر بند تھے لہٰذا شنگھائی سے ستر میل دور نہر کے کنارے آباد ایک قدیم گاؤں کی سیر کرائی گئی۔ نہر خاصی بڑی ہے۔ بس سے اتر کر کشتیوں میں سوار ہوئے اور گاؤں کے مرکز تک پہنچے۔ نہر کے دونوں طرف سیاحوں کے لئے دکانیں اور ریستوران ہیں۔ گاؤں میں ہمیں ایک متمول چینی کا پُرتعیش گھر دکھایا گیا جو تقریباً دس ایکڑ پر محیط تھا۔ 1949ء میں سوشلزم آیا تو حکومت نے گھر اپنی تحویل میں لے لیا اور اب یہ سیاحوں کو دکھایا جاتا ہے۔ گھر میں ایک اونچا ٹاور ہے جو پانچ منزلہ ہے۔ ہر منزل پر ایک وسیع کمرہ ہے۔ ٹاور سے اردگرد کا نظارہ مسحور کن ہے۔ بتایا گیاکہ اس شخص کی پانچ بیویاں تھیں‘ ہر ایک کے لئے ایک کمرہ مختص تھا۔ گھر میں ڈرائنگ روم‘ لائبریری‘ مہمان خانہ سب شامل تھے۔ طرز تعمیر اور فرنیچر اعلیٰ پائے کے تھے۔گاؤں کے بیچوں بیچ ہم نہر کے کنارے تقریباً ایک گھنٹہ چلے۔ پھر ایک بڑے ریسٹورنٹ پہنچے جہاں لنچ کا اہتمام تھا۔ چین میں لنچ اور ڈنر عمومی طور پر گول میز پر کھایا جاتا ہے۔ میز پر دس سے بیس تک لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ میز پر دبیز شیشے کی گول پلیٹ فکس ہوتی ہے جسے گھمایا جا سکتا ہے۔ اس بڑی پلیٹ پر انواع و اقسام کے کھانے سجا دیئے جاتے ہیں۔ لوگ پلیٹ کو گھما کر اپنی پسند کے کھانے لیتے جاتے ہیں۔ چینی کھانے ہمارے حساب سے خاصے پھیکے ہوتے ہیں۔ سبزیوں کو صرف نیم پخت کیا جاتا ہے تاکہ ان کی غذائیت محفوظ رہے۔ Duckیعنی بطخ کا گوشت اعلیٰ ڈش تصور ہوتی ہے۔ میں نے بطخ کا گوشت کھایا‘ واقعی بہت لذیذ تھا۔ سوپ یعنی شوربہ ضروری نہیں کہ کھانے کے آغاز میں ہی آئے اور ہاں چین میں عام طور پر روایتی کھانوں میں سویٹ ڈش کا رواج نہیں۔ صرف دو صوبوں یعنی سچوان اور ہونان میں مرچ والا کھانا کھایا جاتا ہے۔ باقی تمام صوبوں میں مرچ مصالحوں سے پرہیز ہے۔ پاکستان میں بنائے گئے چینی ریسٹورنٹ عام طور پر ہانگ کانگ کے کچن کو فالو کرتے ہیں۔ میں نے دو جگہ دیکھا کہ اُبلے ہوئے بھٹے بھی کھانے کی میز پر سجے تھے۔ چینی کھانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ زود ہضم ہیں لہٰذا بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا۔
لنچ سے فارغ ہو کر واپس شنگھائی آئے اور سیدھے یو گارڈن شاپنگ سٹریٹ گئے۔ یہ بہت بارونق علاقہ ہے۔ چین میں شاپنگ میں بارگیننگ بہت ہوتی ہے۔ چینی دکانداروں کی انگریزی خاصی کمزور ہے لہٰذا کیلکولیٹر پر لکھ کر قیمتیں بتاتے ہیں۔فری ٹریڈ معاہدے کے بعد سے پاکستان سے بڑی تعداد میں تاجر چین جا کر مال خریدتے ہیں۔ پاکستان سے آنے والی فلائٹ میں زیادہ تاجر لوگ تھے یا سٹوڈنٹ۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر میانوالی سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی‘ جو چین میں میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم ہے۔ اس لڑکی نے مجھے بتایا کہ اُس کے ساتھ اور بھی کئی پاکستانی لڑکے لڑکیاں پاکستان سے تعلیم حاصل کرنے آئے ہوئے ہیں اور ان کے میڈیکل کالج میں بعض اساتذہ بھی پاکستانی ڈاکٹر ہیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پاکستانی دنیا کے کونے میں کونے پہنچے ہوئے ہیں لیکن مجھے اُس وقت کا انتظار ہے جب ہمارے تعلیمی اداروں کا معیار اتنا شاندار ہوگا کہ دوسروں ممالک سے سٹوڈنٹ یہاں پڑھنے آئیں گے‘ جب ہماری مصنوعات اتنی اچھی ہونگی کہ دیگر ممالک کے تاجر کراچی اور لاہور بڑے بڑے امپورٹ آرڈر لیکر آئیں گے۔ شنگھائی تجارت، شپنگ، ٹورازم اور انڈسٹری کے لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ جب ہم وہاں تھے تو مصنوعی ذہانت سے متعلق ایک بین الاقوامی ایونٹ ہو رہا تھا۔ ٹور ازم کے فروغ کیلئے ایک اور ایونٹ ہو رہا تھا۔ مختلف ممالک سے کلچرل اور میوزک ٹروپے آئے ہوئے تھے؛ البتہ پاکستان دونوں تقاریب سے غائب تھا۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم عمران خان کا دورئہ چین متوقع ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ وہ شنگھائی ایکسپو بھی جائیں گے۔ ستمبر کے وسط میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی چین گئے۔ چینی دوستوں کے اذہان میں سی پیک کے حوالے سے سوالات جنم لے رہے تھے۔ اس دورے کے بعد وہ شکوک خاصی حد تک ختم ہو چکے ہیں۔ جنرل صاحب نے اعلیٰ ترین چینی قیادت کو باور کرایا کہ پاک فوج سی پیک کی سکیورٹی کے بارے میں یکسو ہے۔ 
اتوار کی شام شنگھائی میں پاکستان کے قونصل جنرل ڈاکٹر نعیم خان نے ڈنر کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ موصوف کا تعلق کسٹم سروس سے ہے اوروہ چین کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اُن سے پاکستانی برآمدات بڑھانے کے حوالے سے دلچسپ گفتگو ہوئی۔ اگلے روز شنگھائی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں بات چیت کا مفصل دور ہوا۔ دونوں جانب سے اپنی اپنی خارجہ پالیسی کے اہم پہلو اجاگر کئے گئے۔ باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی۔ شنگھائی انسٹیٹیوٹ خاصا پرانا تھنک ٹینک ہے جو بین الاقوامی امور کا وسیع تجربہ بھی رکھتا ہے اور یہاں اہم موضوعات پر ہمہ وقت ریسرچ بھی ہوتی رہتی ہے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ تھنک ٹینک عام طور پر سرکاری اداروں سے زیادہ کھل کر بات کرتے ہیں‘ لہٰذا ان سے گفتگو زیادہ مفید رہتی ہے۔
دریائے ہوانگپو Huangpu River کے کنارے بنایا گیا اورینٹل ٹی وی ٹاور شنگھائی کی بلند ترین عمارتوں میں سے ہے۔ اس ٹاور پر ایک شاندار ریوالونگ Revolvingریستوران ہے۔ ہمارے لنچ کا انتظام اسی جگہ تھا۔ ایک ہزار سے زائد فٹ کی بلندی پر انواع و اقسام کے چینی اور انٹرنیشنل کھانے، گھومتا ہوا مطعم اور نیچے دریا۔ گویا کہ لنچ کا مزہ دوبالا ہو گیا۔
ٹاور سے اتر کر بس کی جانب جا رہے تھے کہ مجھے دو بدھ بھکشو نظر آئے۔ بس میں بیٹھ کر مِس شاؤلے سے چین میں مذاہب کے حوالے سے باتیں کرتا رہا۔ چین میں عبادات کی آزادی ہے۔ چینی دستور پانچ مذاہب کو تسلیم کرتا ہے اور وہ ہیں: بدھ مت، ٹاؤازم Taoism،اسلام، کیتھولک مسیحیت اور پروٹسٹنٹ مسیحیت؛ البتہ چینی ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں‘ یعنی یہ ملک مکمل طور پر سیکولر ہے۔ اپنے پیروکاروں کی تعداد کے حوالے سے بدھ میت چین کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ ٹاؤازم دوسرے نمبر پر ہے۔ٹاؤازم کے پیروکار اپنے آپ کو فطرت کے پجاری کہتے ہیں۔ ٹاوازم کے پیروکار فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پر زور دیتے ہیں۔ چین کے علاقے تبت میں بدھ مت کے بہت پیروکار ہیں جبکہ سنکیانگ میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔میں نے مِس شاؤلے سے پوچھا کہ تم کس مذہب کو مانتی ہوں اُس کا جواب تھا: میں کمیونسٹ پارٹی کی ممبر ہوں لہٰذا میں کسی مذہب کو نہیں مانتی۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی ٹوٹل ممبر شپ تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ ہے لہٰذا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ چین کی آبادی کا خاصا بڑا حصہ لادین ہے لیکن خوبصورت بات یہ ہے کہ آبادی کا یہ لادین حصہ جو پاور فل بھی ہے دوسروں کو عبادت کا حق دیتا ہے۔ مذہبی برداشت موجود ہے اور دنیا میں ترقی کے لئے اعتدال پسندی ضروری ہے۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں