"JDC" (space) message & send to 7575

چھوٹی چھوٹی باتیں

گھر میں پوری فیملی موجود ہے۔ میاں بیوی اور بچے باتیں کر رہے ہیں۔ اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ غالباً کسی قرض خواہ کا فون ہے۔ والد صاحب بیٹے کو کہتے ہیں: ریسیور اٹھاؤ اور اگر فلاں انکل کا فون ہو تو کہہ دو کہ ابو گھر پر نہیں ہیں۔ اُس روز سے چھوٹے میاں کی جھوٹ بولنے کی تربیت شروع ہو جاتی ہے۔ ویسے گھر میں کبھی کبھار اُسے سچ بولنے کے بھاشن بھی ملتے ہیں ‘لیکن فیملی کی حد تک۔ بچہ سمجھ جاتا ہے کہ گھر سے با ہر مصلحتاً جھوٹ بولنا جائز ہے ۔یہ بچہ بڑا ہوکر انکم ٹیکس کے گوشوارے بھی غلط بھرتا ہے؛اگر وکیل بن جائے‘ تو مؤکل کو جھوٹ بولنے کی ترکیبیں سکھاتا ہے۔ عام شہری ہو اور عدالت شہادت کیلئے جانا پڑے تو دوستوں اور برادری کی خوشنودی کے لئے جھوٹی گواہی کے لئے فوراً تیار ہو جاتا ہے۔ یہ بچہ سرکاری ملازم بن جائے اور دفتر جانے کو دل نہ چاہے تو محلے کے ڈاکٹر کو کہہ کر غلط میڈیکل سرٹیفکیٹ بنواکے چھٹی لے لیتا ہے۔ اگر نالائق ہو اور یونیورسٹی کا امتحان آ جائے تو اپنے کسی لائق جگری یار کو اپنی جگہ امتحان میں بیٹھنے پر بھی رضامند کر لیتا ہے اور اگر یہ بچہ کوئی لیڈر بن جائے تو الیکشن کمیشن کیلئے انتخابات کے فارم بھرتے ہوئے غیر ملکی اقامہ چھپاتا ہے یا جعلی ڈگری کاغذات کے ساتھ لگا کر کمیشن کو دیتا ہے یا اپنی فارن شہریت چھپاتا ہے۔
ہمارے ہاں امتحان میں نقل یا Cheating عام رہی ہے۔ ایک زمانے میں اس فن نے اتنا عروج پایا تھا کہ قبیح عمل کے سرپرست بوٹی مافیا کہلاتے تھے۔ ہمارے بڑے بڑے لیڈروں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اسی فعل کے طفیل پاس ہوتے رہے۔ دروغ برگردن راوی۔ عین ممکن ہے کہ لیڈروں کے بارے میں یہ کہانیاں ان کے سیاسی حریفوں نے رائج کی ہوں‘ لیکن یہ بات تو درست ہے کہ نقل لگا کر لوگ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے۔ سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے ایک پرانی اور مؤقر پاکستانی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پر الزام لگا کر اُن کے پی ایچ ڈی تھیسس Thesis میں کئی پیراگراف ایک اور تھیسس سے من و عن نقل کئے گئے ہیں ۔مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس کیس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ابھی حال ہی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک بہت سینئر آفیشل پر یہی الزام لگا ہے کہ وہ سائنس کے ایک مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں‘ انہیں عہدے سے معطل کر دیا گیا ہے۔ اگر شروع ہی سے اساتذہ بچوں کو بتائیں کہ امتحان میں نقل کرنا چوری کے مترادف ہے اور اسلام میں اس قبیح فعل کی سخت سزا ہے تو شاید اس مذموم عمل کی حوصلہ شکنی ہو اور ہاں سکول کے کسی بھی امتحان میں اگر کوئی طالب علم نقل کرتا پکڑا جائے تو سزا کے طور پر اُسے سکول سے نکالا جانا چاہئے۔
جھوٹ نقل اور فریب سے پورا معاشرہ کھوکھلا ہو جاتا ہے‘ کرپشن جنم لیتی ہے اور سوسائٹی کے تساہل سے تن آور درخت بن جاتی ہے۔ خوراک میں ملاوٹ اور نتیجہ کمزور قوم جس کے اولمپک تمغے مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ دوائیوں میں ملاوٹ اور نتیجہ بیماریوں کا پھیلاؤ اور ناقص علاج۔ سڑکوں پلوں اور عمارتوں کی تعمیر میں کمیشن اور کک بیک نتیجہ ناقص تعمیر‘ جو سال دو سال بعد قابل مرمت ہو جائے گی۔
ہم اپنے گھروں کو تو صاف رکھتے ہیں‘ مگر ساتھ ہی بچوں کو یا نوکر کو کہتے ہیں کہ کوڑے سے بھرا شاپر جا کر گلی میں پھینک دو۔ گویا گلی محلے کی صفائی صرف حکومت کی ذمہ داری ہے‘ ہمارا کام محض وہاں گند ڈالنا ہے۔ آپ روزانہ دیکھتے ہوں گے معروف شاہراہوں پر کروڑوں کی لینڈ کروزر والا بھی پیپسی پی کر کین چلتی گاڑی سے سڑک پر پھینکتا ہے اور دو چار لاکھ کی ٹیکسی کا ڈرائیور بھی گنڈیریاں چوس کر سڑک پر پھینکتا جاتا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے‘ مگر یہ نصف ایمان سنگاپور اور شنگھائی میں تو نظر آتا ہے مگر ہمارے ہاں نہیں۔ سنگاپور میں ایک چیونگ گم سڑک پر پھینکنے کا جرمانہ پچاس ڈالر ہے تو پھر کیا عجب کہ یہ دنیا کا سب سے صاف ستھرا شہر ہے۔ ہمارے ہاں بچے اکثر دوستوں سے کھیلنے ان کے گھر چلے جاتے ہیں۔ اُن میں سے چند بچے دوسرے کے کھلونے چوری یا زبردستی اپنے گھر لے آتے ہیں ۔والدین کا فرض ہے کہ ایسی صورت میں بچے کو پیار سے سمجھائیں کہ بیٹا یہ کھلونا تمہارا نہیں اسے واپس کر کے آؤ‘ لیکن اگر والدین کی ذہنیت بھی قبضہ مافیا والی ہے‘ تو وہ اس بات کو اگنور کر دیتے ہیں یا کہتے ہیں کہ چھوٹا سا کھلونا ہی تو ہے‘ اگر گڈو اٹھا لایا ہے تو کونسی بڑی بات ہے اور پھر گڈو کو دوسروں کے کھلونے اٹھانے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔ بڑا ہو کر وہ قبضہ مافیا کا ممبر بن سکتا ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک اچھے متمول خاندان کی بچی اپنی سہیلی کی گڑیا اٹھا لائے اور اُس کے والدین اس بات پر توجہ نہیں دیتے یا عمداً اس بات کو اگنور کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ بڑی ہو کر اس بچی کا بیاہ ایک ہونہار سیاسی لیڈر سے ہو جاتا ہے‘ فرض کریں کہ یہ سیاسی لیڈر الیکشن لڑ کر اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچتا ہے۔
پاکستان میں سیلاب یا زلزلہ آتا ہے۔ فرض کریں کہ ایک برادر ملک سے پاکستانی آفت زدگان کے لئے امداد آتی ہے اور اس امداد میں ایک بیش قیمت ہار بھی ہے‘ جو قیمتی ہیروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ہار مذکورہ بالا فرضی پاکستانی خاتون کے ہاں پہنچ جاتا ہے اور انہیں بے حد پسند آتا ہے ا ور وہ چپکے سے اُسے اپنے پاس رکھ لیتی ہیں ‘معاملہ میڈیا میں آتا ہے۔ پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ ساری دنیا کہتی ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کو چوری کا جنون ہے۔
ہمارے ہاں کے ایک معروف بلڈر جو اب عالی شہرت رکھتے ہیں‘ اکثر زمینوں پر غیر قانونی قبضے کے ا لزام کا سامنا کرتے رہتے ہیں‘ جونہی یہ معاملہ میڈیا میں آتا ہے یا اعلیٰ عدلیہ تک جاتا ہے۔ ٹی وی پر ا شتہار چلنا شروع ہو جاتے ہیں کہ موصوف ہزاروں لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں ‘سینکڑوں لوگوں کو مفت طبی سہولیات دیتے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو رابن ہڈ ثابت کرتے ہیں اور معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے‘ لگتا ہے کہ پاکستان کو ا کیسویں صدی میں پہنچنے میں ابھی بڑا وقت لگے گا۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پاکستان میں ہر کوئی چور ہے یا قبضہ مافیا کا ممبر ہے۔ چند سال پہلے نیو یارک کے ایک پاکستان نژاد ٹیکسی ڈرائیور نے ہزاروں ڈالروں سے بھرپور بٹوہ اپنی سواری کو تلاش کرکے واپس کیا تھا۔ اس ٹیکسی ڈرائیور کے والدین نے یقینا اس کی تربیت بہت اچھی کی ہوگی۔ ہمارے ہاں ایسی کئی مثالیں آئے روز ملتی رہتی ہیں۔
ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب روزانہ میرے ساتھ واک کرتے ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ فوج میں کردار سازی کیسے ہوتی ہے اور کیا فوج میں جھوٹ اور دھوکہ بازی کو کسی حد تک برداشت کیا جاتا ہے۔؟کرنل صاحب کہنے لگے کہ فوج میں جھوٹ اور چیٹنگ Cheating کے لئے زیرو برداشت ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کیا فوجی افسر اور کیا جوان‘ اگر یہ جھوٹ بولنے لگیں تو جنگ نہیں لڑ سکتے۔ جو آرڈر سینئر دیتا ہے‘ جونیئر کو وہ من و عن ماننا پڑتا ہے۔ اگر جونیئر حکم کی تعمیل نہ کرے اور کہہ دے کہ اُس نے مذکورہ کام کر دیا ہے‘ تو فوج کا نظام چل نہیں سکتا ‘لہٰذا کیریکٹر کی خامیوں والے کیڈٹ اکیڈمی سے ہی گھر بھیج دیئے جاتے ہیں اور اس سلسلہ میں کوئی رو رعایت نہیں ہوتی۔
میں نے کرنل صاحب سے پوچھا کہ اپنی بات کی مثال دے کر وضاحت کریں تو کہنے لگے کہ کاکول اکیڈمی میں انسٹرکٹر کلاس لے رہے تھے‘ انہوں نے زیر تربیت کیڈٹس کو کہا کہ اپنا اپنا ہوم ورک دکھاؤ ایک کیڈٹ بولا کہ سر میں اپنی نوٹ بک کمرے میں بھول آیا ہوں‘ دوسرے دن اُسی کیڈٹ نے پھر وہی جواب دیا۔ مزید کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ کیڈٹ جھوٹ بول رہا ہے اور اُسے فوراً اکیڈمی سے نکال دیا گیا۔ جب کیڈٹ سخت اخلاقی اور جسمانی تربیت سے گزرتے ہیں‘ تب وہ صاحب کردار بنتے ہیں‘ یہ شاندار تربیت انہیں دشمن کے خلاف سینہ سپر ہونے کے قابل بناتی ہے۔
قوم کی تربیت اس کے گھروں میں ہوتی ہے سکولوں اور کالجوں میں ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں بچوں کو بتایا جاتا تھا کہ کردار روپے پیسے سے زیادہ اہم ہے۔ ایسے گھروں کے بچے رشوت لینے کو اپنے شایان شان نہیں سمجھتے تھے‘ ایسی تربیت سے گزر کر ہی فوجی افسر اور جوان دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑتے ہیں ‘وطن عزیز کا دفاع کرتے ہیں۔ تو‘ آئیے !بچوں کو سچ بولنے کی ترغیب بھی دیں اور رول ماڈل بنیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں