"JDC" (space) message & send to 7575

ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان

اگلے روز میرے ایک پڑھے لکھے اور سنجیدہ دوست نے تجویز دی کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کا باہمی موازنہ ایک کالم کی شکل میں لکھوں۔ مجھے یہ امر مانع تھا کہ میں کپتان کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں گو کہ پی ٹی آئی کا باقاعدہ ممبر نہیں ہوں ۔ اور ایسی صورت میں بے لاگ تجزیہ ذرا مشکل ہو جاتا ہے لیکن دونوں شخصیات اس قدر دلچسپ ہیں اور اہم بھی کہ ان کا موازنہ قارئین کے لئے جاذب بھی ہوگا اور شاید مفید بھی۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی پسند یا ناپسند سے بالا تر ہو کر لکھوں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہر دو شخصیات میں کونسی اطوار مشترک ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے دونوں سسٹم کا حصہ نہیں تھے‘ یعنی اس سے قبل وہ کسی بڑے سرکاری منصب پر فائز نہیں رہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ دونوں کے قومی اہداف حقیقت پسندانہ نہیں تھے۔ دونوں نے یوٹرن لئے ہیں۔ دونوں نرگسیت یعنی اپنے آپ سے محبت کا شکار ہیں۔ دونوں نے تین مرتبہ شادی کی۔ دونوں جوانی میں خوش شکل یعنی ہینڈ سم تھے اور خواتین کے لئے جاذب نظر۔ دونوں کا اپنے اپنے ممالک میں خاصا بڑا فین کلب ہے۔ دوسری جانب دونوں سے شدید اختلاف کرنے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ دونوں جذباتی ہیں اور جلد غصے میں آ جاتے ہیں۔ دونوں کھری کھری سنانے کے عادی ہیں۔ ٹرمپ امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کے متمنی ہیں اور عمران خان 'پاکستان فرسٹ‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے ممالک کے ماضی کے حکمرانوں کے شدید ناقد ہیں۔
اور اب آتے ہیں دونوں لیڈروں کی یوٹرن لینے کی عادت کی جانب۔ عمران خان صاحب کی ماضی قریب کی سیاست میں متعدد یوٹرن ملتے ہیں۔ ایک زمانے میں وہ ایک سیاست دان کا نام لے کر دعا مانگتے تھے کہ اللہ مجھے ان جیسا کامیاب سیاست دان نہ بنائے۔ کہنے کا مطلب تھا کہ میں اصول پسند سیاست دان ہوں جبکہ موصوف سویلین اور فوجی دونوں کشتیوں میں سوار رہے۔ نواز شریف کی کابینہ میں رہے اور جنرل مشرف کا بھی ساتھ دیا۔ اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ عمران خان نے مسلم لیگ (ق) کے ایک رہنما پر تنقید کی تھی‘ آج وہی جماعت حکومتی کولیشن کا اہم حصہ ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کپتان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن تھا؟ اگر وہ اس بات پر بضد رہتے کہ میں صرف اور صرف بے داغ ماضی والے سیاست دانوں کو ہی ساتھ لے کر چلوں گا‘ تو وہ ا یئر مارشل اصغر خان بن چکے ہوتے اور پی ٹی آئی تحریک استقلال کی طرح ہوا میں تحلیل ہو گئی ہوتی۔ لیکن کپتان کی زندگی کا سب سے اہم اور دلچسپ یوٹرن یہ ہے کہ کل کا پلے بوائے آج ہاتھ میں تسبیح لئے پھرتا ہیَ ہمیں کسی کی پرائیویٹ زندگی میں جھانکنے کا کوئی اختیار نہیں لیکن لیڈر پبلک پراپرٹی بھی ہوتا ہے اور میں یہ بھی اضافہ کرتا چلوں کہ کپتان کی زندگی کا یہ 180ڈگری کا ٹرن خوش آئند ہے۔
صدر ٹرمپ بھی یوٹرن لینے کے لئے مشہور ہیں۔ موصوف لمبا عرصہ کہتے رہے کہ نیٹو بے کار ادارہ ہے اس نے دہشت گردی کے خلاف کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا مگر چند روز پہلے نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے نیٹو کی تعریف کی۔ ابھی چند ہفتے کی بات ہے کہ ٹرمپ نے پاکستان پر افغانستان کے معاملے میں جھوٹ اور دھوکہ دہی کے ا لزامات لگائے تھے اور پھر زلمے خلیل زاد کو پاکستان بھیج کر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی درخواست کی۔ ٹرمپ اپنی الیکشن مہم میں شام کے صدر بشار الاسد کو مڈل ایسٹ کا قصاب کہتے رہے‘ مگر اب یہ مان گئے ہیں کہ بشار الاسد کا شام کا صدر رہنا ملکی مفاد میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے یوٹرنز کی فہرست طویل ہے‘ مگر کالم کی کوتاہ دامنی ملحوظ خاطر ہے۔
عمران خان اور ٹرمپ دونوں مقناطیسی شخصیات کے حامل ہیں۔ ان کے فین کلب کے ممبران اس امر کا مکمل یقین رکھتے ہیں کہ اُن کا لیڈر کوئی غلطی نہیں کر سکتا۔ یہی فین کلب کرشماتی لیڈروں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ مافوق الفطرت کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں۔ نرگسی شخصیت تنقید بالکل برداشت نہیں کر سکتی۔ اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے ٹرمپ نے امریکی میڈیا سے ٹکر لی ہوئی ہے‘ خاص طور پر سی این این کے ساتھ۔ دونوں کے دعوے حقیقت سے دور تھے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنے گی اور اسے فنانس میکسیکو کی گورنمنٹ کرے گی۔ 2013ء کی انتخابی مہم میں عمران خان صاحب کا دعویٰ تھا کہ انہیں حکومت مل گئی تو نوے روز کے اندر کرپشن اور دہشت پسندی دونوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر نفسیات کے مطابق نرگسیت کے شکار افراد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تعمیری نرگسی شخصیت جس کے لئے اس نے بل گیٹس کی مثال دی اور دوسرے‘ کرشماتی نرگسی شخصیات جن میں عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ آتے ہیں‘ لیکن دونوں شخصیات ایک حد تک سیلف میڈ بھی ہیں۔ عمران صاحب سخت محنت اور مضبوط ارادے کی وجہ سے کرکٹ سٹار بنے‘ شوکت خانم ہسپتال بنایا۔ ٹرمپ نے رئیل اسٹیٹ بزنس میں بڑی محنت کی۔ 
اور اب دیکھتے ہیں دونوں شخصیات کہاں تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ پہلی بات تو عمر کا فرق ہے۔ عمران خان صاحب ٹرمپ سے تقریباً ایک عشرہ چھوٹے ہیں۔ ٹرمپ ایک بزنس مین ہیں۔ وہ ہر سیاسی معاملے کو بھی بزنس ڈیل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ 'پیسہ پھینک تماشہ دیکھ‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہیں جبکہ عمران خان میں لالچ نام کی کوئی چیز نہیں۔ ان کی پہچان بطور مسٹر کلین ہے۔ عمران صاحب نے انسانی فلاح کے لئے دو عظیم پراجیکٹ بنائے جبکہ ٹرمپ نے کوئی ایسا خاص کام نہیں کیا۔ ٹرمپ کے مقابلے میں عمران خان کی سیاسی جدوجہد بہت لمبی ہے۔ کپتان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں جبکہ ٹرمپ کے تعلقات پینٹاگون اور امریکی میڈیا سے کشیدہ رہتے ہیں۔ ویسے تو دونوں اپنے سیاسی حریفوں کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے ہیں لیکن ٹرمپ خان صاحب کے مقابلے میں بہت منہ پھٹ ہیں۔ کپتان خاصی حد تک شرمیلا ہے اور اس بات کو ریحام خان نے بھی کنفرم کیا ہے جبکہ ٹرمپ میں ایسی کوئی بات نہیں۔
اگر ہم مشترکہ اقدار اور اطوار کی جانب پھر سے نگاہ دوڑائیں تو لگتا ہے کہ دونوں ٹیفلون Teflon کے بنے ہوئے ہیں۔ دونوں پر جتنے مرضی الزامات لگا لیں‘ وہ چپکتے نہیں۔ دونوں کے فین ان کی غلطیوں سے نہ صرف صرفِ نظر کرتے ہیں بلکہ ان کے چاہنے والوں کی اکثریت کو اس بات کا تقریباً یقین ہے کہ ان کا لیڈر کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتا۔ متعدد خواتین نے امریکہ میں ٹرمپ پر جنسی ہراسگی کے پرانے واقعات کا اعادہ کیا لیکن ان کے فین کلب نے یہ باتیں نظر انداز کیں۔ ادھر ریحام خان نے کپتان پر پوری کتاب لکھ ماری‘ جس میں دنیا جہاں کے عیب درج کئے‘ لیکن الیکشن پھر بھی تحریک انصاف نے جیتا۔ عمران خان کے ووٹ بینک پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
ٹرمپ کے دور میں امریکی اکانومی خاصی بہتر ہوئی ہے جبکہ عمران خان کے لئے یہ چیلنج ابھی باقی ہے۔ دونوں کا خیال بلکہ یقین ہے کہ ان کے ممالک کا مستقبل شاندار ہے‘ لیکن کپتان کی سوچ ذرا سادہ ہے۔ وہ اکثر چیزوں کو بلیک اینڈ وائٹ رنگوں میں دیکھتے ہیں۔ سیاسی میدان کرکٹ گراؤنڈ سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ کرکٹ گرائونڈ میں بائولر کو وکٹیں نظر آتی ہیں اور بیٹسمین کو گیند۔ سیاسی میدان میں بہت سے اہداف واضح نظر نہیں آتے۔ سیاسی میدان کے رنگ بلیک اینڈ وائٹ کی بجائے اکثر ملگجی ہوتے ہیں۔
ہمارے زیر بحث دونوں لیڈر بنیادی طور پر دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں گو کہ کپتان نے فلاحی ریاست کی باتیں بھی شروع کر دی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی اکنامک پالیسی زیادہ بزنس فرینڈلی ہے جبکہ ہمارے ہاں تاجر طبقہ کپتان سے نالاں نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کے لئے چین‘ روس اور میکسیکو سے چھیڑ چھاڑ اس لئے ممکن ہے کہ وہ ایک سپر پاور کا صدر ہے جبکہ عمران خان کو خارجہ پالیسی میں محتاط ہو کر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ خوشامدیوں کے حصار سے نکل کر عوام کی نبض پر براہ راست ہاتھ رکھا جائے۔ یہ سوچ بھی سادگی پر مبنی ہے کہ کرپشن پاکستان کا اکلوتا مسئلہ ہے۔ آبی وسائل کا مناسب استعمال آبادی کے سیلاب کی روک تھام اور تعلیم کے معیار میں بہتری دوسرے بڑے قومی لیول کے کام ہیں اور ہاں اس وقت سب سے اہم کام معیشت کی گاڑی کو دھکا لگا کر سٹارٹ کرنا ہے۔ پاکستان میں ابھرنے کی مکمل صلاحیت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں