"JDC" (space) message & send to 7575

قدرت اللہ شہاب سے فواد حسن فواد تک …(2)

چلئے سول سروس کی زبوں حالی کا مرثیہ کافی ہو چکا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اصلاح ِاحوال کیسے ممکن ہے؟ ہمارے ہاں افسر ایک دفعہ سلیکٹ ہو کر ٹرکوں کی لائن میں لگ جاتا ہے۔ لائن آگے چلتی رہتی ہے پروموشن ہوتی جاتی ہے۔ ایسے نہیں ہونا چاہئے۔ برطانیہ میں ہر پروموشن کے مرحلہ پر سول سرونٹ کو امتحان دینا پڑتا ہے۔ دورانِ سروس ٹریننگ بہت ضروری ہے‘ لیکن ہمارے ہاں دورانِ سروس ٹریننگ کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ چند ماہ قبل جب فواد حسن فواد پر کرپشن کے الزامات لگے‘ تو اسے ڈی جی سول سروس اکیڈیمی لاہور لگا دیا گیا۔ استاد کو زیر تربیت افسروں کے لئے رول ماڈل ہونا چاہئے۔ فواد یقینا کوئی احسن رول ماڈل نہ تھے‘ لیکن ہمارے ٹریننگ ادارے کھڈے لائن سمجھے جاتے ہیں ‘جبکہ کاکول ملٹری اکیڈمی میں اچھے سے اچھے افسر بطور انسٹرکٹر جاتے ہیں۔جی ہاں! بات امتحان کی ہو رہی تھی‘ یہ تجویز پہلے بھی سامنے آ چکی ہے‘ لیکن سنا ہے کہ دو پاور فل سروس گروپس‘ یعنی ڈی ایم جی اور پولیس اس پرپوزل کی مخالفت کرتے رہے ہیں کہ ان کے ہاں پڑھائی لکھائی کا کلچر کمزور ہے۔ مجھے یہ بات کچھ عجیب سی لگی‘ کیونکہ یہ دونوں گروپ سی ایس ایس میں اچھی خاصی پوزیشن پانے والوں کو ملتے ہیں۔ ان سروس امتحان کا فلسفہ یہ ہے کہ صرف وہ افسر اونچے عہدوں پر جائیں‘ جن میں چمکنے کی استعداد ہو‘ جو بیدار مغز ہوں اور مسائل کے حل ڈھونڈنے کے قابل ہوں۔ اور وہ افسر جو 'ماٹھے ‘ہوں‘ انہیں ترقی نہیں ملنی چاہئے ‘وہ یا تو باقی کیریئر جونیئر عہدوں پر گزاریں یا جلدی ریٹائرمنٹ لے کر کوئی اور کام کریں۔ سروس کی زبان میں انہیں Dead Wood کہا جاتا ہے‘ یعنی اگر کوئی شاخ ہرے بھرے درخت کے اوپر سوکھ گئی ہے‘ تو اسے کاٹ دینا چاہئے‘ تاکہ وہ باقی شاخوں پر منفی اثرات نہ چھوڑے۔ ڈیڈ وڈ کا تعین صرف سروس ریکارڈ اور مزید امتحان سے ہی ممکن ہے۔
سی ایس ایس ‘یعنی دس بارہ نام نہاد سپریئر سروسز کے علاوہ دوسری سروسز کے بھی باقاعدہ سٹرکچر اور کاڈر بنائے جائیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے پروفیسر سی ایس ایس میں کامیابی حاصل کر کے ایجوکیشن کو خیر باد کہہ دیتے ہیں‘ اس لئے کہ انہیں اپنے پیشے میں ترقی کے امکانات کم نظر آتے ہیں اور ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں پولیس افسر کی اہمیت استاد سے زیادہ ہے۔ میں فارن سروس میں آنے سے پہلے لاہور کے ایک کالج میں لیکچرار تھا۔ کئی ساتھی سی ایس ایس کی تیاری کر رہے تھے‘ عام تاثر تھا کہ جو لیکچرار سی ایس ایس کا امتحان نہیں دیتا‘ وہ یا تو صریحاً نالائق ہے یا امتحان سے خوفزدہ ہے؛ چنانچہ معاشرے کے دباؤ میں ہم نے بھی امتحان دے دیا؛ اگر ایجوکیشن میں ترقی کے واضح امکانات ہوتے تو میں کبھی سی ایس ایس کا امتحان نہ دیتا۔ برطانیہ‘ امریکا اور کینیڈا میں اکثر کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ سول سروس کا امتحان نہیں دیتے۔ہمارے ہاں تو بہت سے ڈاکٹر بھی سی ایس ایس کا امتحان کامیابی سے دیتے رہے ہیں اور یہ وسائل کا ضیاع ہے۔ ایک ڈاکٹر کو ٹرین کرنے میں لاکھوں کروڑوں لگتے ہیں اور پھر وہ اے ایس پی یا تھرڈ سیکرٹری یا آئی ٹی او بن جائے‘ تو افسوس کی بات ہے‘ ہمیں میڈیکل سروس کو بہتر بنانا چاہئے۔
ہر نوع کے سول سرونٹ کی تنخواہ بڑھانے کی ضرورت ہے اور ایڈ فیصلوں سے تنخواہوں میں جو تضادات آ گئے ہیں ‘انہیں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ جو احد چیمہ اور فواد حسن فواد چھلانگ لگا کر پرائیویٹ سیکٹر کے مزے لیتے رہے ہیں اس کا کلچر ختم ہونا چاہئے۔ پی آئی اے‘ پی ایس او‘ مری گیس کے اعلیٰ عہدے صرف صاف اور شفاف میرٹ کے ذریعے پُر ہونا چاہئیں۔موجودہ پی ٹی آئی گورنمنٹ کا نعرہ تھا کہ سرکاری محکموں میں سیاسی مداخلت کم سے کم ہوگی اور اس کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ سول سرونٹ کی دستوری گارنٹی بحال کی جائے‘ تاکہ اُس میں صحیح اور بے خوف فیصلے کرنے کی صلاحیت پھر سے پیدا ہو۔ اصل ضرورت ڈی سی او اور ڈی پی او کو وزیروں ایم این اے اور ایم پی اے سے آزاد کرانے کی ہے اور آزاد کرانے کا نسخہ میں نے لکھ دیا ہے۔ ہمارے ہاں فیڈرل منسٹر اعظم سواتی کا خیال تھا کہ آئی جی جان محمد اس کا ذاتی ملازم ہے۔جب دستوری گارنٹی بحال ہو جائے‘ تنخواہیں بڑھ جائیں تو بیورو کریٹ کا کڑا احتساب ہونا چاہئے۔ ایف بی آر والوں کو فائلرز کی تعداد بڑھانے کا ٹارگٹ دیں۔ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ افسروں کی ذمہ داریاں بتدریج بڑھائی جاتی ہیں‘ جس افسر نے کسی چھوٹے ضلعے میں ڈی سی او کی ذمہ داریاں نہ نبھائی ہوں‘ اسے فوراً لاہور یا کراچی کا چارج نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح فارن سروس میں واشنگٹن‘ نیو دہلی‘ کابل‘ ریاض‘ تہران اور لندن منجھے ہوئے سفارت کار ہی بطور سفیر بھیجے جاتے ہیں‘ مگر ہمارے ہاں علی جہانگیر صدیقی کو واشنگٹن بھیج دیا جاتا ہے‘ صاحبزادہ احمد خان کو پہلی سفارت لندن کی ملتی ہے۔ شنید ہے کہ شاہد خاقان عباسی انہیں پسند کرتے تھے۔ ستمبر کے آغاز میں لندن میں کوئی فنکشن تھا‘ پاکستان سے آرٹسٹ گئے ہوئے تھے۔ ہزایکسیلنسی کو سٹیج پر بلایا گیا تو نشے کی حالت میں تھے۔ ان کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے۔ ہائی کمشنر کو اسلام آباد طلب کیا گیا اور پھر پتا چلا کہ موصوف کو کیوبا بطور سفیر بھیج دیا گیا ہے۔ یہ تو کوئی سزا نہیں۔ پاکستان کے سفیر کو شراب نوشی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں ایسے شخص کو پاکستان کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں ‘مگر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پیر سائیں بھی ہیں‘ وہ عرصے سے ملنگوں کو دھمال ڈالتے دیکھ رہے ہیں‘ لہٰذا اس کیس میں نرم رویہ اختیار کیا اور پاکستانی سسٹم میں جو پیا من بھائے وہی سہاگن ہوتی ہے۔
ہمارا اے سی آر‘ یعنی سالانہ سیکرٹ رپورٹ کا نظام فرسودہ ہو گیا ہے۔ خوشامدی قسم کے افسر اکثر اچھی رپورٹ حاصل کرتے ہیں اور یہی رپورٹیں پروموشن کے وقت دیکھی جاتی ہیں۔ پاک فوج کے ہیومن ریسورس نظام میں کسی 'ماٹھے‘ افسر کو یکدم اعلیٰ رپورٹ مل جائے تو کمپیوٹر میں موجود سوفٹ ویئر فوراً الرٹ کرتا ہے اور پھر رپورٹ لکھنے والے افسر سے پوچھا جاتا ہے کہ ماتحت افسر میں کیا کیا اچھی تبدیلیاں آئی ہیں‘ انہیں ثابت کریں۔ سول میں رپورٹنگ آفیسر کی نگرانی کا کوئی مناسب بندوبست نہیں‘ لہٰذا ضروری ہے پروموشن سے پہلے ہر افسر کا امتحان لیا جائے‘ جو نیوٹرل امپائر کنڈکٹ کرے۔آج کا عہد اختصاص‘ یعنی Specialisationکا ہے۔ میرے ایک دوست ساری عمر ایجوکیشن منسٹری سے دور رہے‘ جب وہ گریڈ 22میں پہنچے تو فیڈرل ایجوکیشن سیکرٹری بنا دیئے گئے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ انہیں ایجوکیشن کے معاملات سمجھنے میں چند ماہ لگے۔ اگر ان کی جگہ کسی معروف یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایجوکیشن سیکرٹری بنایا جاتا تو وہ پہلے ہی روز سے اپنا کام پوری استعداد کے ساتھ شروع کر دیتا۔ اسی طرح میرے ایک اور دوست‘ جن کی ساری عمر انفارمیشن منسٹری میں گزری‘ کو ہیلتھ سیکرٹری لگا دیا گیا۔ جس کا کام اُسی کو ساجھے کے مصداق ٹیکنیکل وزرارتوں کے ہیڈ صرف ٹیکنیکل ایکسپرٹ ہونے چا ہئیں۔
ہمارا سی ایس ایس کے امتحان کا طریقہ بھی فرسودہ ہو گیا ہے۔ نارتھ امریکہ میں میڈیکل‘ انجینئرنگ اور اکاؤنٹسی میں جانے والوں کے لئے تین بالکل مختلف ٹیسٹ ہیں۔ ہمارے ہاں سفارت کار‘ تھانیدار‘ انکم ٹیکس آفیسر‘ ڈپٹی کمشنر وغیرہ بنانے کے لئے ایک ہی امتحان ہے اور یہ وہ امتحان ہے‘ جس میں 97 فیصد امیدوار انگریزی مضمون نگاری میں فیل ہوتے ہیں۔ اگر ایک آئی جی پولیس فر فر انگریزی نہیں بول سکے گا ‘تو کیا فرق پڑے گا۔ ایک آئی ٹی او کے لئے اعلیٰ قسم کی انگریزی لکھنا کیوں ضروری ہے؟ فیڈرل سروس کمیشن بوڑھا گھر بنا ہوا ہے‘ جہاں ریٹائرڈ بیورو کریٹس کو پارک کیا جاتا ہے اور حال ہی ریٹائر ہونے والے چیئرمین تو ایسے تھے کہ خود سی ایس ایس کا امتحان دینے کے اہل نہ تھے‘ کیونکہ اُن کے پاس بی اے سیکنڈ ڈویژن کی ڈگری نہ تھی۔1973ء کے آئین میں لکھا گیا تھا کہ صوبوں کے لئے مقرر کیا گیا کوٹہ سسٹم صرف چالیس سال کے لئے ہے‘ مگر اس سے آج تک ہماری جان نہیں چھوٹ سکی۔ کوٹہ سسٹم ختم ہو گا‘ تو بہتر کوالٹی کے افسر آئیں گے۔ امیدواروں کو اردو میں جواب لکھنے کی اجازت ہونی چاہئے ‘انٹرویو میں بھی آدھے سوال اردو میں ہونے چاہئیں۔حکومت کا سائز کم کریں اور تنخواہیں بڑھائیں ۔جو ڈیلیور نہیں کرتا ‘اسے گھر بھیج دیں۔ کرپٹ افسر کو برداشت قطعاً نہ کیا جائے۔ اگر کسی افسر کا تبادلہ تین سال سے پہلے کیا جاتا ہے تو ساتھ ہی لکھ کر وجوہات بتائی جائیں۔ بیورو کریسی ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں