"JDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا دورئہ ایران

پاکستان کے چار جغرافیائی ہمسایوں میں سے دو کے ساتھ ہمارے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔ انڈیا کے ساتھ تو ٹینشن بہت بڑھنے لگی تھی۔ بات جنگ کی طرف جا رہی تھی کہ چند اہم ممالک نے ایٹمی تباہی کے خوف سے بیچ بچاؤ کرا دیا۔ کابل سے کبھی کبھار ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیںمگر پھر لَو کے تھپیڑے چلنے لگتے ہیں۔ اس صورت حال میں از بس ضروری ہے کہ ایران کے ساتھ ہمارے معاملات دوستانہ رہیں یا کم از کم دوطرفہ تعلقات میں تناؤ نہ آئے۔ ہم بیک وقت تین محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور ایران کے ساتھ ہمارا کوئی سرحدی جھگڑا بھی نہیں۔ صدیوں پرانے تجارتی اور روحانی تعلقات ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد میں بزرگوں کے مزاروں پر آپ کو اکثر کاظمی، مشہدی لکھا ہوا ملے گا۔
مجھے اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں ہم قدرے غیر محتاط رہے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ایرانی بلوچستان میں دہشت گردی کی جب بھی کارروائی ہوتی ہے تو پاکستان اور اُس کے چند اداروں پر تابڑ توڑ حملے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایرانی میڈیا پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ پاکستانی سفیر کو وزارتِ خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا جاتا ہے۔
تو کیا ضروری ہے کہ ہر بات کا جواب ترکی بہ ترکی دیا جائے۔ خیالِ خاطرِ احباب رکھنا بھی تو ضروری ہے۔ سفارت کاری میں ٹائمنگ، طریقہ سلیقہ اور حفظ مراتب سب اہم ہوتے ہیں۔ مارچ 2016ء میں ایران کے صدر حسن روحانی پاکستان سرکاری دورے پر آئے۔ بہت سالوں بعد ایران سے ہائی لیول وزٹ ہو رہی تھی۔ کلبھوشن یادیو کا واقعہ نیا نیا ہوا تھا۔ سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایرانی صدر سے اسلام آباد میں ملے تو اس واقعہ کا ذکر کیا۔ میرے خیال میں درست یہ ہوتا کہ صدر ممنون حسین اس موضوع پر بات کرتے۔
پچھلے ہفتے اورماڑہ میں بہت بڑی ٹریجڈی ہوئی۔ پاکستان کے محافظ جوانوں کو چُن چُن کر شہید کیا گیا۔ پاکستانی اطلاعات کے مطابق دہشت گرد ایران سے آئے تھے اور وہیں واپس گئے۔ اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانہ کو تمام تفاصیل کے ساتھ مراسلہ بھیجا گیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پریس کانفرنس کردی جس کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ شروع ہونے والا تھا۔ صحیح طریقہ یہ ہوتا کہ احتجاجی مراسلہ وزارت خارجہ سے ایرانی سفارت خانہ کو چلا جاتا اور پھر تہران میں وزیراعظم عمران خان صدر حسن روحانی سے یہ موضوع چھیڑتے۔ وزٹ شروع کرنے سے پہلے ماحول پر منفی سائے ڈالنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔
وزیراعظم تہران پہنچنے سے پہلے مشہد اقدس گئے۔ میرے خیال میں بہتر ہوتا کہ وہ سیدھے تہران پہنچتے کیونکہ وزٹ آفیشل تھی۔ ایک عظیم ہستی کے مزار پر حاضری دینا اور وہاں نوافل ادا کرنا یقینا باعثِ سعادت ہے لیکن یہ سعادت واپسی پر بھی حاصل کی جا سکتی تھی۔
خطے کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ امریکہ افغانی کمبل سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن کمبل اُسے چھوڑ نہیں رہا۔ پچھلے چند سالوں میں ایران نے افغان طالبان سے اپنے تعلقات بہتر کئے ہیں۔ ایران کو ڈھائی ہزار سال کا خارجہ امور کا تجربہ ہے۔ وہ دور اندیش لوگ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ امریکہ یہاں سے چلا جائے گا لیکن افغان طالبان یہیں رہیں گے۔ آج کا ایران چین ،روس اور انڈیا سے قریب تر ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکہ اور ایران کے تعلقات میں مزید تناؤ آ رہا ہے پہلے ایران پر اقتصادی پابندیاں ضرور تھیں لیکن اُسے چند ممالک کو ایک حد تک تیل ایکسپورٹ کرنے کی اجازت تھی۔ اب امریکہ نے وہ سہولت بھی کینسل کر دی ہے۔ پاسداران نے مضیق ہُرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ امریکہ نے ایرانی پاسداران کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے تو ایران نے مڈل ایسٹ میں موجود تمام امریکی فوجیوں کو وہی لقب سرکاری طور پر دے دیا ہے۔ بحرین میں امریکی بحریہ کا اڈہ ہے تو قطر میں امریکی ایئر فورس کا بیس ہے۔ اگر آبنائے ہُرمز بند ہو جائے تو امریکہ نے دقم نامی عمانی بندرگاہ سے اپنے فوجیوں کو سپلائز بھیجنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ خلیج کے پانیوں میں شدید تلاطم کی کیفیت ہے۔ اگر صورت حال کو کنٹرول نہ کیا گیا تو عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اور یہ اثرات پاکستان تک آئیں گے۔ 
بصورت مجموعی وزیراعظم کا دورئہ ایران کامیاب رہا ہے۔ ایران اس وقت مشکلات میںگھرا ہوا ہے۔ ایسے حالات میں ہمسائے کے گھر جانا بذات خود بہت اچھی بات ہے۔
وزیراعظم کا تہران میں یہ بیان کہ ''ماضی میں پاکستانی سرزمین سے ایران میں دہشت گردی ہوئی ہے‘ ‘آج کل ہر جگہ زیر بحث ہے۔ بہت بہتر ہوتا اگر وزیراعظم یہی بات ایرانی قائدین سے علیحدہ ملاقاتوں میں کرتے۔ ہمیں یہ بخوبی علم ہے کہ ایرانی بلوچستان میں بھی پاکستان مخالف گروہ ایک عرصے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کلبھوشن یادیو اسی قسم کے لوگوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا تھا لیکن ایرانی لیڈر شپ نے اپنے تساہل کا کبھی علی الاعلان ذکر نہیں کیا۔ وہ ڈھائی ہزار سال سے سفارت کاری کر رہے ہیں اور ہم ابھی طفلِ مکتب ہیں۔
لیکن ذرا غور کریں تو وزیراعظم عمران خان کا اعتراف کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ماضی میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ ہم نان سٹیٹ ایکٹرز کو انڈیا کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ بطور وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ میں کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے پاکستان مزید ایکشن لینا چاہتا ہے۔ جنوری 2004ء میں جب وزیراعظم واجپائی سارک سمٹ کے لئے اسلام آباد آئے تو ایک پاک ہند مشترکہ بیان ایشو کیا گیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان آئندہ اپنی سرزمین کو کسی ہمسایہ ملک میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دے گا۔ اُس وقت تو جنرل مشرف پر کسی نے تنقید نہیں کی۔ یہ جو اب چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا جا رہا ہے یہ فقط سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے۔
پاک ایران بارڈر نو سو کلو میٹر لمبا ہے۔ اس بے آب و گیاہ علاقے میں آبادی بہت کم ہے۔ سرحد کے دونوں جانب لوگوں کی عزیز داری ہے مثلاً ریگی قبیلہ دونوں جانب آباد ہے۔ ایک پرانے معاہدے کے مطابق یہ لوگ اپنے رشتہ داروں کوملنے کے لئے اکثر سرحد کراس کرتے رہتے ہیں۔ اگر پاکستانی بلوچستان کے چند اضلاع میں سیاسی بے چینی ہے تو ایرانی بلوچستان کے مسائل کہیں زیادہ ہیں۔ یہاں ہیومن سمگلنگ بھی ہوتی ہے اور ڈرگ سمگلنگ بھی۔ ایران اور پاکستان دشمن ایجنسیاں یہاں ہر وقت اپنے ا پنے مہرے تلاش کرتی رہتی ہیں۔ جنداللہ اور جیش العدل دراصل ایرانی بلوچستان کی تنظیمیں ہیں جو ہماری جانب بھی آ جاتی ہیں۔ دہشت گردی دونوں جانب سے ماضی قریب میں ہوتی رہی ہے۔
اس دورے کا سب سے بڑا ثمر یہ ہے کہ ایک مشترکہ تیز رفتار فورس بنانے کا فیصلہ ہوا ہے جو سرحدوں کی مل کر نگرانی کرے گی۔ پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ اپنے خلیجی دوستوں اور ہمسایہ ایران کے مابین توازن قائم رکھے۔ ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو پرامن اور پرابلم فری رکھنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ ایران اس وقت بہت مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور دوست وہی ہوتا ہے جومشکل حالات میں کام آئے۔
اس دورے سے کسی حد تک باہمی شکوک و شبہات کو دور کرنے میں مدد ملی ہے۔ باہمی اعتماد کا ایک نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔ ہمارے ثقافتی رشتوں کی عکاسی وزیراعظم کی ایک بات سے ہوتی ہے۔ انہوں نے تہران میں ایرانی قیادت سے ملاقات میں کہا کہ اگر انگریز برصغیر پر قابض نہ ہوتے تو ہمیں ترجمان کی ضرورت نہ پڑتی، میں بھی آج فارسی میں بات کر رہا ہوتا۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ ایران کو سی پیک میں گہری دلچسپی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تعلقات میں بہتری کی شروعات اس دورے سے ہو چکی ہے۔ میں وزیراعظم کو کامیاب دورے کی مبارک دیتا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں