"JDC" (space) message & send to 7575

ناقابلِ فراموش

میری ابتدائی یادیں ایک چھوٹے سے قصبے گوجرہ کی ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں اس قصبے کی آبادی بیس سے پچیس ہزار کے درمیان تھی۔ میونسپل کمیٹی کے بالکل ساتھ اور تھانے کے عین مقابل ہمارا گھر تھا۔ صبح صبح لائل پور سے آنے والی پہلی ٹرین سے اردو کے دو اخبار آتے تھے۔ تجارتی سرگرمیاں غلہ منڈی کے گرد گھومتی تھیں۔ سکول میں شہر کے تمام بچے پیدل آتے تھے، البتہ ہائی سکول میں نواحی دیہات سے آنے والے سٹوڈنٹ سائیکل یا تانگے پر آتے تھے۔ مجموعی ماحول پرامن تھا۔ ایک روز اخبار کی سرخی یہ تھی کہ گوجرہ ہائی سکول کے چند لڑکوں نے ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی اور پکڑے گئے۔ ہم نے والد صاحب سے فرمائش کی کہ اس انہونی سی خبر کی تصدیق کے لیے ہمیں سامنے والے تھانے لے چلیں تاکہ ہم اپنے سکول کے ننھے منے ڈاکو دیکھ سکیں۔ والد صاحب شروع میں کچھ متذبذب تھے کیونکہ شرفا کسی بھی صورت تھانے جانے کو معیوب سمجھتے تھے لیکن بالآخر راضی ہو گئے۔ ہم نے حوالات میں تین چار لڑکے دیکھے جو بارہ تیرہ سال کی عمر کے تھے۔ یہ سب سکول میں ہم سے سینئر تھے۔ نوعمر ڈاکوئوں کے اس گینگ کے سرغنہ بعد میں ایم این اے منتخب ہو کر پارلیمنٹ پہنچے۔
1956ء کی بات ہے میں نیا نیا ہائی سکول گیا تھا کہ ایک روز ایک بڑا جلوس سکول میں داخل ہوا۔ ہمارا ہائی سکول وسیع و عریض تھا اور کئی ایکڑوں پر محیط تھا۔ جلوس والے بڑے جذباتی نعرے لگا رہے تھے جو ہماری سمجھ سے باہر تھے۔ جلوس والے طلبا سے کہہ رہے تھے کہ ہمارے ساتھ چلو‘ برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر برادر اسلامی ملک مصر پر حملہ کر دیا ہے۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر میاں منظور محمد صاحب سخت ڈسپلن والے تھے۔ انہیں جلوس کا اس طرح سکول میں داخل ہونا پسند نہ آیا۔ بہرحال ہم کئی گھنٹے شہر کی سڑکوں پر تین حملہ آور ملکوں کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ ہمارے جلوس کے ساتھ جانے کے بعد پورے سکول میں دوبارہ Roll Call ہوئی‘ اور غیر حاضر طلبا کو جرمانہ ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت ایک دن کی غیر حاضری کا جرمانہ ایک آنہ ہوا کرتا تھا۔ 
ہمارے سکول کو صوبائی حکومت سے گرانٹ ضرور ملتی تھی لیکن اس کا انتظام و انصرام میونسپل کمیٹی گوجرہ کے پاس تھا‘ جہاں میرے والد سیکرٹری تھے۔ وہ 1934 کے گریجوایٹ تھے اور تعلیم کی ترقی اور نشوونما میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ میاں منظور محمد درویش صفت انسان تھے، باریش تھے اور تہجد گزار۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار پر ہمیشہ زور دیتے۔ سکول میں ڈسپلن اعلیٰ درجے کا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کی تنخواہ اُس زمانے میں چار سو روپے تھی۔ ایک روز میرے والد صاحب نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو بتایا کہ میونسپل بورڈ نے آپ کی تنخواہ ساڑھے چار سو روپے ماہانہ کر دی ہے۔ میاں صاحب کا جواب تھا: میرا گزارہ موجودہ تنخواہ میں معقول طریقے سے ہو رہا ہے‘ اس میں اضافے کی کیا ضرورت تھی۔ ایسے قناعت پسند لوگ اب ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ والد صاحب کی نظر میں اس درویش کا احترام مزید بڑھ گیا۔ آج اس سادگی پسند عظیم انسان کا پوتا بہت بڑا فوجی افسر ہے۔
میں نے 1961ء میں میٹرک کا امتحان بہت اچھے مارکس کے ساتھ پاس کیا۔ گوجرہ میں کالج بن چکا تھا۔ میٹرک کا رزلٹ آیا تو معروف سیاست دان حمزہ صاحب والد صاحب کو ملنے ہمارے گھر آئے۔ والد صاحب ڈبل مائنڈڈ تھے کہ مجھے گوجرہ کالج میں داخل کرائیں یا کہیں اور بھیجیں۔ اُن کے مالی وسائل محدود تھے اور سروس بھی وہ پوری ایمانداری سے کرتے تھے۔ حمزہ صاحب کا مشورہ تھا کہ اگر لڑکے کا مستقبل بنانا ہے تو اسے گورنمنٹ کالج لاہور داخل کرائیں اور یہ بہت صائب مشورہ تھا۔ والد صاحب نے اس پر عمل کرتے ہوئے مجھے راوین بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کالج میں تعلیم حاصل کرکے مجھے انگریزی لکھنا اور بولنا آ گئی‘ جس کا پورے کیریئر میں فائدہ ہوا۔ کالج میں آرٹس کا ہر اچھا طالب علم سی ایس پی بننا چاہتا تھا، میں نے 1971ء میں سی ایس ایس کا امتحان دیا۔ تب عرفِ عامہ میں اسے مقابلے کا امتحان کہا جاتا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا شمار اعلیٰ ترین طالب علموں میں نہیں ہوتا تھا کہ وہاں ایک سے ایک ذہین سٹوڈنٹ موجود تھے‘ لیکن سی ایس ایس کی تیاری میں نے اتنی سوچ سمجھ کر اور دلجمعی سے کی کہ فائنل رزلٹ میں‘ میں چودہ نمبر پر تھا۔ پبلک سروس کمیشن والوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ بارڈر لائن کیس ہے، پولیس سروس ملنے کا زیادہ امکان ہے لیکن فارن سروس بھی آ سکتی ہے۔ میں اُن دنوں سرگودھا میں انڈر ٹریننگ مجسٹریٹ تھا۔ یہ خبر لے کر والد صاحب کے پاس گیا۔ وہ ایک عرصے سے پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ وہ ہر نماز کے بعد دعا کرنے لگے کہ میرا بیٹا پولیس سروس میں نہ جائے حالانکہ ہمارا اوریجن دیہاتی ہے اور گائوں کے لوگ پولیس سروس کو بڑی للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ میں نے استفسار کیا تو والد صاحب کا جواب تھا کہ پولیس آفیسر کتنا بھی ایماندار کیوں نہ ہو اُس سے سہواً بھی ظلم ہو سکتا ہے۔ والد صاحب کی دعائیں رنگ لائیں اور مجھے فارن سروس مل گئی۔ پندرہ پوزیشن پر آنے والے صاحب پولیس سروس میں آئے۔ ان کا مجھے اکیڈمی میں پیغام آیا کہ اگر پولیس سروس میں آنا چاہتے ہو تو ہم سروس ایکسچینج کرنے کی درخواست دے سکتے ہیں۔ مجھے والد صاحب کی بات یاد آ گئی اور میں نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی۔
1995ء کے آغاز میں مجھے میری مرضی کے خلاف دوشنبے بطور سفیر بھیج دیا گیا۔ میں نے وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو تحریری درخواست دی کہ میرے تین بچے سکولنگ کے مختلف مراحل میں ہیں اور دوشنبے میں ایک بھی انگلش میڈیم سکول نہیں لہٰذا مجھے کسی ایسے سٹیشن پر بھیجا جائے جہاں تعلیم کا مناسب بندوبست ہو۔ محترمہ اپنے حکم کو حرفِ آخر سمجھتی تھیں لہٰذا میری درخواست داخل دفتر ہو گئی اور مجھے فیملی کو اسلام آباد چھوڑ کر دوشنبے جانا پڑا۔ میں ڈھائی سال فیملی سے دور رہا۔ دوشنبے کے بعد میرا تبادلہ رنگون ہوا، جہاں دو تین اچھے سکول تھے۔ ابھی مجھے رنگون میں چھ ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ پھر اذنِ سفر ہوا۔ میں نے پوچھا کہ میرا قصور کیا ہے۔ جواب ملا: آپ نے کوئی غلطی نہیں کی، بس جو صاحب رنگون آنا چاہتے ہیں انہیں ہم روک نہیں سکتے۔ یہ دسمبر 1997ء کی بات ہے۔ ہیوی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد میاں صاحب میں بہت رعونت آ گئی تھی۔ میری جگہ نامزد سفیر میاں صاحب کے ہم زلف تھے یعنی مریم بی بی کے خالو۔ ظاہر ہے کہ فارن آفس وزیراعظم کو انکار نہیں کر سکتا تھا‘ لیکن عامر حفیظ بٹ صاحب رنگون آنے کے لیے اتنا کیوں تڑپ رہے تھے، اس کا ذکر پھر کبھی ہوگا۔ میری فیملی اگلے آٹھ ماہ دربدر رہی۔ بچوں کو پھر سے اسلام آباد کے سکولوں میں داخل کرایا گیا۔ میاں صاحب میں اقربا پروری کا عنصر نمایاں تھا۔
خیر بہت تگ و دو کے بعد یونان پوسٹنگ ہوئی۔ ایتھنز پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ ایمبیسی میں ایک عرصے تک رشوت کا بازار گرم رہا ہے۔ بات ماضی تک ہی محدود رہتی تو شاید میں نظر انداز کر دیتا۔ ایک روز ایمبیسی کا عارضی کلرک‘ جو ہمارے علاقے سے تعلق رکھتا تھا‘ کہنے لگا کہ آپ تو ایماندار ہیں لیکن ایسی دیانت کا کیا فائدہ جو دوسروں کی کرپشن نہ روک سکے۔ میں نے استفسار کیا کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ اُسکا جواب تھا کہ آپ کا نمبر ٹو تو اب بھی کرپشن کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ تمہارے پاس اس الزام کا کوئی ٹھوس ثبوت ہے۔ اُس نے فوراً مجھے سفارت خانے کی ایشو کردہ ایک جعلی رسید لا کر دی جو میرے آنے کے بعد کی تھی۔ میں نے فی الفور پاسپورٹ ویزہ سیکشن جا کر تمام رسید بُکس قبضے میں لے لیں۔ انکوائری شروع ہوئی۔ وزارت خارجہ نے تہران میں سفیرِ پاکستان کو انکوائری افسر مقرر کیا۔ میرے پیشرو کو جبری ریٹائر کیا گیا۔ میرے نمبر ٹو یعنی فرسٹ سیکرٹری کو ڈسمس کیا گیا۔ چونکہ والدین اور میاں منظور محمد جیسے اساتذہ کی تعلیم ایمانداری کی تھی لہٰذا میں نے بساط بھر کرپشن کے خلاف جہاد میں حصہ لیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد 2008ء سے جب بھی پاکستان کے حوالے سے کوئی بڑی خبر آتی ہے تو عربی کے ٹی وی چینل مجھے بطور تجزیہ نگار بُلا لیتے ہیں لہٰذا کئی عرب ناظرین کے لیے میرا چہرہ شناسا ہے۔ کوئی ایک سال ہوتا ہے کہ ریاض سے مجھے ڈاکٹر بدر کا فون آیا کہ میں کنگ عبداللہ بن عبدالعزیز انسٹیٹیوٹ برائے عربک لینگوئج کا ڈی جی ہوں۔ ہمیں چند ایسے غیر عرب اشخاص کی تلاش ہے جو اعلیٰ عہدوں تک پہنچے ہوں اور عربی زبان پر عبور رکھتے ہوں۔ ہم ان لوگوں کے بارے میں ایک کتاب شائع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کا نام مع ایک مضمون کے اس کتاب میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ میرے لیے یہ فون کال ناقابلِ فراموش تھی۔ یہ میری لمبی محنت کا اعتراف تھا، جو ایک معتبر ادارے نے کیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں