"JDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم کا دورہ امریکہ

وزیر اعظم کا دورہ امریکہ خاصا کامیاب رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ مریم نواز شریف کو اس وزٹ کو ناکام ثابت کرنے کیلئے درجنوں ٹویٹ کرنا پڑے ہیں؛ البتہ میچورٹی کا ثبوت دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہر بات پر تنقید کرنا ضروری نہیں کیونکہ وہ امریکہ بطور پاکستانی لیڈر گئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دورے کے بعد دو طرفہ تعلقات میں پھر سے جان پڑ گئی ہے۔ میں یہ بات اس تناظر میں کہہ رہا ہوں کہ 2018 میں یہ تعلقات بہت ادنیٰ سطح پر آ گئے تھے۔ ہر وقت محسوس ہوتا تھا کہ امریکہ اب پاکستان کو انڈیا کی عینک سے دیکھتا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے مابین پانچ سال کے بعد اعلیٰ سطح کی ملاقات ہوئی ہے۔ ان پانچ میں سے چار سال پاکستان کا کوئی ہمہ وقت وزیر خارجہ بھی نہیں تھا۔ جز وقتی چارج وزیر اعظم کے پاس تھا‘ اور میاں صاحب کا امور خارجہ کا ادراک واجبی سا ہے۔ وہ غیر ملکیوں سے مل کر زیادہ خوش نہیں ہوتے تھے۔ برطانیہ اور امریکہ جا کر بھی انہیں ایسے شخص کی تلاش رہتی تھی‘ جس سے وہ پنجابی میں دل کی باتیں کر سکیں اور وہ ناصر بٹ یا سعید شیخ ڈھونڈ لیتے تھے۔ اُن کے مقابلے میں عمران خان چونکہ مغربی درسگاہوں میں پڑھے اور پھر وہاں کرکٹ کھیلنے کے لئے مقیم رہے اسی لئے وہ دورے کے دوران زیادہ بااعتماد نظر آئے اور اسی وجہ سے امریکی لیڈرشپ اُن سے ملتے ہوئے کمفرٹیبل محسوس کر رہی تھی۔
وزیر اعظم عام کمرشل فلائٹ پر چھوٹے سے وفد کے ساتھ گئے۔ پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کے گھر قیام کیا۔ ان کے دورے کا ٹوٹل خرچ پچاس ہزار ڈالر ہے جبکہ میاں صاحب کے دورہ امریکہ کے اخراجات اس سے نو دس گنا زیادہ ہوتے تھے۔ کپتان کی طبیعت میں ایک عجیب سی درویشی ہے مگر خود اعتمادی کے ساتھ پاکستان سے ان کی فراواں محبت ان کی شخصیت سے جھلکتی ہے۔ وہ انتھک انسان ہیں۔ تین دن میں وہ صدر ٹرمپ سے ملے، سینیٹر لندسے گراہم اور وزیر خارجہ پومپیو سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں‘ کیپٹل ہل یعنی کانگرس گئے‘ ایوان زیریں کی سپیکر نینسی پلوسی سے ملے‘ پارلیمنٹ کے ممبران کے ایک گروپ سے خطاب کیا۔ پاکستانی کمیونٹی نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ کیپٹل ارینا ون Capital Arena one میں ہونے والا جلسہ دیر تک یاد رہے گا۔ بزنس مینوں اور سرمایہ کاروں کے وفد سے ملے۔ ایک تھنک ٹینک سے خطاب کیا۔ ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا۔ اس دورے کے دوران کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے سنجیدہ بات چیت بھی ہوئی اور انڈین میڈیا تو جل بھن کر راکھ ہو گیا۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے وزیر اعظم کے بارے میں بے شمار لوگوں نے اپنی آرا کا اظہار کیا۔ مختصر یہ کہ تین روز میں امریکہ اور مغربی دنیا میں پاکستان کا سوفٹ امیج خوب اجاگر ہوا۔
کشمیر میں امریکی ثالثی کے حوالے سے بحث اب بھی چل رہی ہے۔ امریکی اپنی بات پر قائم ہیں کہ انڈیا کے وزیر اعظم نے صدر ٹرمپ کو واقعی کشمیر پر ثالثی کے لئے کہا تھا۔ انڈیا فارن آفس نے اس کی تردید کی ہے لیکن مودی خود خاموش رہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس بحث میں پڑ کر امریکہ بہادر کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہوں گے۔ انڈین اپوزیشن اس حوالے سے اپنی سرکار پر خوب برسی۔ لوک سبھا میں حکومت کے خوب لتّے لئے گئے۔ اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ انڈیا میں سب جماعتیں کشمیر کو ہڑپ کرنے کی پالیسی میں یکسو ہیں اور کبھی بھی امریکی ثالثی پر رضامند نہیں ہوں گی لہٰذا ہمیں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں‘ پرنالہ وہیں رہے گا جہاں پہلے تھا؛ البتہ یہ کشمیریوں اور پاکستان کی اخلاقی اور نفسیاتی فتح ضرور ہے۔ سید علی گیلانی جیسے مسلمہ لیڈر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ کشمیر کا کیس امریکہ میں احسن طریقے سے پیش ہوا ہے۔ انڈیا کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان بین الاقوامی مجالس میں کشمیر کا ذکر بھی کرے اور اس لحاظ سے انڈیا کو کچھ پشیمانی اور کچھ خجالت ضرور ہوئی ہے لیکن یہ چند روز میں غائب ہو جائے گی۔
پاکستان کی امریکہ کی نظروں میں فی الوقت اہمیت کی وجہ افغانستان ہے۔ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ نومبر 2020 سے پہلے پہلے افغانستان میں امن ہو جائے اور کیا ہی اچھا ہو کہ امریکی صدارتی انتخاب سے پہلے وائٹ ہاؤس میں ان کی موجودگی میں امن معاہدے پر دستخط ہوں اور اس کامیابی کی بنا پر امریکی ووٹر انہیں فراخ دلی سے ووٹ دیں۔ امن معاہدے کی تکمیل کے لئے امریکہ کو پاکستان کی بھرپور مدد درکار ہے۔
افغانستان میں امن کی تلاش ایک پیچیدہ عمل ہے۔ دہائیوں سے جاری جنگ چند روز میں ختم نہیں ہو گی۔ ابھی تو طالبان اور اشرف غنی حکومت کے مابین مذاکرات بھی شروع نہیں ہوئے۔ طالبان اور امریکہ کے نقطہ ہائے نظر فوجوں کی واپسی کے حوالے سے بھی الگ الگ ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ امریکہ اپنی افواج چھ ماہ کے اندر اندر واپس لے جائے جبکہ امریکی اس عمل کے لئے ڈھائی سال مانگ رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ میں اس بات کا واضح عندیہ دیا ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے وہ طالبان سے ڈائریکٹ رابطے کریں گے۔
اب اہم سوال یہ بھی ہے کہ آیا افغان طالبان پاکستانی حکومت کی بات آسانی سے مان جائیں گے۔ مجھے اس ضمن میں زیادہ خوش فہمی نہیں‘ باوجود اس بات کے کہ طالبان کے رویے میںکچھ لچک ضرور آئی ہے‘ لیکن ان کے حملے بھی جاری ہیں۔ طالبان حکومت کو صرف تین ممالک نے تسلیم کیا تھا اور ان میں پاکستان سرفہرست تھا۔ پاکستان نے اُس وقت طالبان سے کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کو مستقل بارڈر تسلیم کر لیں۔ طالبان کا جواب تھا کہ مسلمان برادر ممالک کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان نے بین الاقوامی برادری کی جانب سے درخواست کی کہ بامیان میں گوتم بدھ کے مجسموں کو تباہ نہ کیا جائے کیونکہ یہ مجسمے محمود غزنوی کے زمانے میں بھی محفوظ رہے تھے۔ طالبان کا جواب تھا کہ ہم کفر کی ان نشانیوں کو تباہ کرکے ہی دم لیں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پاکستان نے کہا کہ اسامہ بن لادن کو کسی اور ملک شفٹ ہونے کو کہہ دیں۔ ہماری قیادت کو معلوم تھا کہ صرف ایک شخص کی وجہ سے ہمارے خطے میں تباہی آئے گی۔ طالبان کا جواب تھا کہ مہمان کو گھر سے رخصت ہونے کیلئے کہنا پستون روایات کے خلاف ہے۔ تو کیا اب افغان طالبان پاکستان کے مشورے آسانی سے مان لیں گے؟ اس بات کا انحصار بڑی حد تک اس امر پر بھی ہے کہ امریکہ اور کابل حکومت پاور شیئرنگ فارمولا کے تحت طالبان کو اقتدار میں کتنا حصہ دیتے ہیں۔
میں تجزیے کی غرض سے اس دورے کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہوں گا۔ پہلا حصہ ہے Optics یعنی مناظر۔ آپٹکس میں دونوں اطراف کا جوش اور ولولہ شامل ہے۔ باڈی لینگوئج اہم ہے اچھے جملوں کا تبادلہ اپنی الگ اہمیت کا حامل ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبران کی وہ قرارداد ہے جس میں عمران خان اور نئے پاکستان کی فراخدلی سے تعریف کی گئی ہے۔ مناظر میں آرمی چیف کو دی جانے والی اکیس توپوں کی سلامی بھی شامل کی جانی چاہئے‘ جو انہیں پینٹاگون یعنی امریکی وزارت دفاع میں دی گئی۔ مناظر کے لحاظ سے یہ دورہ اے ون رہا اور مجھے وزیر خارجہ شاہ محمود سے مکمل اتفاق ہے کہ دورے کے نتائج توقعات سے بڑھ کر رہے۔
لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہتا چلوں کہ آپٹکس اور دور رس نتائج میں بڑا فرق ہے۔ کیا امریکہ دوطرفہ تعلقات میں وسعت اور گہرائی لائے گا۔ کیا امریکی مارکیٹ میں پاکستانی برآمدات کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔ کیا خطے میں القاعدہ اور داعش کی واپسی کا راستہ روکنے کے لئے پاکستان کے ساتھ مالی اور عسکری تعاون پھر سے شروع کیا جائے گا؟ کیا امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں ہونہار پاکستانی طلبہ کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں داخلے ملیں گے؟ کیا امریکی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں پیسہ لگانے میں حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ کیا عوامی اور کلچرل رابطے بڑھانے کے لئے پاکستانی شہریوں کو آسانی سے امریکی ویزے مل سکیںگے۔ جب ان سوالوں کے مثبت جواب ملیں گے تو میں یہ مانوں گا کہ دورہ واقعی کامیاب رہا۔
لیکن اس دورے میں یہ تو ضرور ہوا ہے کہ دونوں قیادتوں میں گرم جوشی اور باہمی تفاہم پیدا ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو برف پگھلی ہے وہ پھر سے منجمد نہ ہونے پائے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہماری قیادت کو بڑی محنت کرنا ہو گی اور اگر ہماری کوششیں کامیاب ہوئیں تو فائدہ بھی سب سے زیادہ پاکستان کو ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں