"JDC" (space) message & send to 7575

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جانب سفر …(2)

ٹوبہ ٹیک سنگھ کے لوگ محنتی اور ذہین ہیں۔ وہ تعلیم کی افادیت کے ایک عرصے سے قائل ہیں۔ یہاں زمینداریاں چھوٹی چھوٹی ہیں اور ضلع کے جنوبی علاقے میں زرعی پانی کی قلت بھی ہے۔ زیر زمین پانی کھارا ہے۔ مگر ان انتھک لوگوں نے ہمت نہیں ہاری، کئی ایک سندھ اور جنوبی پنجاب چلے گئے۔ ایک خاصی بڑی تعداد انگلینڈ، امریکہ، کینیڈا اور خلیجی ممالک کی جانب چلی گئی اور وہاں اپنی محنت سے بڑی ترقی کی۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ اب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مڈل کلاس نظر آتی ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں وڈیرے نہیں ہیں۔ اسی لیے لوگ اپنی بقا کے لیے محنت کرتے ہیں۔ بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کا رجحان عام ہے۔
ٹوبہ میں جو بھی ترقی ہوئی ہے اُس میں زیادہ دخل افراد کی اپنی محنت کا ہے۔ منفی جانب دیکھیں تو آبادی کا سیلاب آ رہا ہے، سڑکیں غیر محفوظ ہو گئی ہیں‘ خاص طور پر رات کے وقت۔ مجھے یاد ہے کہ گوجرہ میں ہمارا سکول گھر سے پیدل تقریباً پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ سخت سردی ہو یا چلچلاتی دھوپ ہم پیدل سکول آتے جاتے تھے، مگر آج یہ ٹوبہ میں ممکن ہے اور نہ ہی گوجرہ میں۔ ہمارا سکول اعلیٰ معیار کی ہاکی کے لیے مشہور تھا اور یہ وہ لڑکے تھے جو تازہ خوراک کھاتے تھے اور خوب پیدل چلتے تھے۔ ہماری سڑکیں ، گلیاں اور محلے تب محفوظ تھے۔ ہاکیاں اٹھائے یہ لڑکے سرشام سکول کی گرائونڈ میں جمع ہو جاتے تھے اور سورج غروب ہونے کے بعد گھروں کو پیدل لوٹتے تھے۔ آج یہ باتیں خواب و خیال لگتی ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کنو خوب ہوتا ہے گو کہ کوالٹی سرگودھا والی نہیں ہوتی۔ کنو کے باغات نے یہاں کے کسان کو کافی سہارا دیا ہے۔ دوسرے دن گائوں میں ایک کزن نے شام کے کھانے پر بُلایا ہوا تھا۔ سوچا کہ موٹر وے کی بجائے وریام والا روڈ سے جاتے ہیں۔ گائوں میں لوگ شام کا کھانا جلدی کھا لیتے ہیں؛ چنانچہ مغرب سے ذرا پہلے گائوں پہنچے۔ گائوں میں نماز کا وقت آئے تو کوشش ہوتی ہے کہ با جماعت نماز ادا کی جائے۔ اس طرح مختصر وقت میں کئی سارے لوگوں سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ اس دفعہ محسوس ہوا کہ مسجد میں آ کر نماز ادا کرنے والوں کی تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے۔
گائوں کے لوگوں کا لائف سٹائل بھی بہت بدل گیا ہے اس میں کچھ تو بجلی کے کمالات ہیں اور کچھ حالات کے۔ پہلے گرمیوں میں دیہاتی لوگ گھروں کے باہر چار پائیاں بچھا کر بیٹھتے تھے۔ تازہ حقہ درمیان میں ہوتا تھا جو حقہ کشوں میں گھومتا رہتا تھا۔ لوگ پورے دن کے واقعات شیئر کرتے تھے۔ دکھ، درد اور خوشیاں سانجھی تھیں۔ کئی مرد حضرات انہی چارپائیوں پر گلیوں ہی میں سو جاتے تھے۔ اب گھروں میں پنکھے لگ گئے ہیں اور گھر گھر ٹی وی بھی موجود ہیں۔ اب لوگ گھر کے کمروں میں قید ہو گئے ہیں۔ پُرانا اجتماعی گپ شپ والا ماحول قصۂ پارینہ ہو چکا ہے۔ جرائم کی شرح بڑھی ہے۔ لہٰذا رات کو گائوں کی گلیوں میں سونا بھی محفوظ نہیں رہا۔
اور اب ذکر ہو جائے ٹوبہ وریام والا سڑک کا جو چند سال پہلے پنجاب کے محکمۂ شاہرات نے بنائی تھی اور آج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس سڑک پر ایک پولیس چوکی بھی بن چکی ہے لیکن لوگ پھر بھی رات کو سفر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ عام شکایت ہے کہ ٹھیکے دار اور انجینئر مل کر ٹھیکے کی خاصی رقم اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ اس گھنائونے کھیل کا نتیجہ ناقص سڑکوں اور خستہ سرکاری عمارات کی شکل میں نکلتا ہے۔ انڈیا میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی‘ پھر اس کے سدباب کے لیے وہاں معلومات تک رسائی کا قانون بنا جس کی بدولت عوام مختلف سرکاری محکموں سے معلومات حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ مثلاً ٹوبہ وریام والا سڑک اگر انڈیا میں بنتی تو عوام ٹینڈر کے تمام کاغذات حاصل کر چکے ہوتے۔ وہ یہ بھی پوچھ رہے ہوتے کہ بجری اور کولتار کیا ٹینڈر کے کاغذات کے مطابق لگائی گئی ہیں؟ اور اگر کام ناقص ہوا ہے تو وہ کون سا انجینئر تھا جس نے ٹھیکیدار کے بل پاس کئے۔ پاکستان میں مشرف دور میں ایسا قانون بنانے کی تجویز تھی جسے بعد میں مفاد پرست اور پیسے کے پجاری ٹولے نے غائب کروا دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت چونکہ کرپشن مخالف نعرے پر آئی ہے لہٰذا لازم ہے کہ اس ڈرافٹ بل کو سرد خانے سے نکال کر قانون کی شکل دی جائے‘ ورنہ بے لگام بیوروکریسی اس ملک کا حشر کر دے گی۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسی کو یہ کہتے سنا کہ ریاستی رٹ بہت کمزور ہو گئی ہے۔ کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ لوگوں کے دلوں سے قانون کا احترام اٹھ گیا ہے۔ ایک صاحب‘ جو افسر شاہی کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے‘ کا کہنا تھا کہ افسر اپنے آپ کو بہت غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ لہٰذ اپنا مالی مستقبل محفوظ بنانے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
ایک دفعہ بزرگ بیورو کریٹ روئیداد خان صاحب سے کسی نے پوچھا: ریاست کی رٹ کا مفہوم آسان الفاظ میں سمجھا دیں۔ خان صاحب بولے کہ ریاست کی رٹ دراصل قانون اور حکومت کے احکام کا احترام ہے مگر شرط یہ ہے کہ حکومت کا آرڈر قانون کے مطابق ہو۔ تشریح کرتے ہوئے بولے کہ انگریز کے زمانے میں تھانیدار ملزمان کو پکڑتا تھا۔ فرنٹیئر جسے اب خیبرپختونخوا کہتے ہیں کے راستے پہاڑی اور دشوار گزار تھے۔ تھانیدار عموماً مجرموں کو ہتھکڑی لگا کر پیدل چل کے تھانے لے جاتے تھے۔ اگر راستہ میں کسی وجہ سے وقفہ لینا پڑ جاتا تھا تو تھانیدار ملزم کو زمین پر ایک لائن کھینچ دیتا تھا کہ اس پر بیٹھ جائو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ ملزم کی یہ مجال نہ تھی کہ اُس لائن سے ایک انچ بھی آگے پیچھے ہٹے۔ یہ ہوتی ہے رٹ آف سٹیٹ۔
دور حاضر یا ماضی قریب میں رٹ آف سٹیٹ انگریز کے عہد میں تھی اور اس کے بعد نواب کالا باغ کامیاب گورنر تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں دو سوٹ کیس لے کر گورنر ہائوس آیا تھا اور وہی دو سوٹ کیس لے کر واپس جائوں گا۔ انگریز کے ٹرین کئے ہوئے افسر ابھی موجود تھے۔ نواب کالا باغ نے اچھے سے اچھے افسر فیلڈ میں لگائے ۔ سب سے زیادہ اہمیت وہ لیاقت اور ایمانداری کو دیتے تھے۔ حکومت کی رٹ مکمل طور پر قائم تھی۔ خاندان شریفاں کے آنے تک بیوروکریسی، سیاستدانوں کی ذاتی وفادار بن چکی تھی۔ انگریز کے زمانے میں اگر ڈپٹی کمشنر یا ایس پی کسی ایم این اے یا ایم پی اے کا ناجائز کام کرنے سے انکار کر دیتا تھا تو اسے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا تھا۔ تنخواہیں معقول ہوتی تھیں۔ سرکاری افسر رشوت کو بہت ہی معیوب سمجھتے تھے۔ آج کے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بیورو کریسی کے بارے میں جو کہانیاں گردش کر رہی ہیں وہ مایوس کن ہیں۔ آج کا بیورو کریٹ ریاست کا وفادار نہیں بلکہ اپنے گاڈ فادر کا وفادار ہے۔
کوئی دس سال پہلے تک نمبرداری کی پوزیشن موروثی تھی۔ یعنی نمبردار کی وفات پر اس کا بڑا بیٹا نمبردار بنتا تھا۔ اب نئے نمبردار کا تقرر ڈپٹی کمشنر کا صوابدیدی اختیار ہے اور یہ یاد رکھیں کہ جہاں افسر شاہی کے پاس صوابدیدی اختیارات زیادہ ہوں گے۔ وہاں کرپشن بھی زیادہ ہو گی۔
نواب کالا باغ کے بارے میں مشہور تھا کہ انہیں ہر ضلع کے حالات کا علم ہوتا تھا۔ وہ ایک ایک سینئر افسر کی عادات سے واقف تھے۔ کیا تخت لاہور والوں کو علم ہے کہ ٹوبہ اور دوسرے اضلاع میں کیا ہو رہا ہے؟ عمران خان نے اگر 2023ء کا الیکشن جیتنا ہے، تو اضلاع پر فوکس ضروری ہے۔ لوگ انصاف چاہتے ہیں۔ گڈ گورننس مانگتے ہیں اور ان دونوں مقاصد کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ ہمارا ٹوبہ ٹیک سنگھ تو یقینا کرپشن اور بیڈ گورننس کی زد میں ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں