"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کی عہد ساز شخصیات

ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اکثر کرپشن اور وائٹ کالر کرائم کی داستانیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ مجموعی تاثر یہ ابھرتا ہے کہ ہماری دھرتی چور اور ڈاکو وافر تعداد میں پیدا کر رہی ہے۔ اچھے کاموں کی تشہیر کم کم ہی ہوتی ہے۔ بداعمالیوں کی زیادہ تشہیر کر کے میڈیا نے خاصی مایوسی اور بے یقینی پھیلائی ہے۔ 
لیکن ہمارے ملک نے بہت سی کامیابیاں بھی تو حاصل کی ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں ہم خوراک میں خود کفیل نہیں تھے۔ ہماری گندم کی ضروریات ایک حد تک امریکہ پوری کرتا تھا۔ آج ہم آبادی پانچ گنا بڑھنے کے باوجود گندم اور چاول میں خود کفیل ہیں۔ 1947ء میں ہمارے پاس انڈسٹری نہ ہونے کے برابر تھی آج ملک میں بے شمار کارخانے ہیں۔ جو سائیکل چلاتے تھے وہ آج موٹرسائیکل پر ہیں جو ذاتی تانگے کی وجہ سے رئیس سمجھتے جاتے تھے وہ آج چمکدار کاروں میں گھوم رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے اور ہماری کامیابیاں کئی مخلص ،ایماندار، محنتی ، تعلیم یافتہ اور ذہین پاکستانیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں۔ ہمارے وطن نے ایسے ایسے ایماندار اور مخلص لوگ بھی پیدا کئے ہیں کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔
پچھلے ہفتے اسلام آباد کی ایک قدیم اور معتبر این جی او نے سید بابر علی کو Living legend ایوارڈ دینے کے لیے ایک تقریب منعقد کی۔ اس عظیم پاکستانی نے اپنی زندگی میں اتنے کام کئے ہیں کہ انسان سن کر دنگ رہ جاتا ہے۔ 93 سال کی عمر میں بھی انہوں نے ریٹائر ہونے کا فیصلہ نہیں کیا۔ سید بابر علی کی طرح چند لوگ اور بھی ہیں جنہوں نے کامیاب ادارے بنائے اور ہمارے ملک کی ترقی میں کلیدی رول ادا کیا۔
تو آئیے ابتدا تعلیم کے شعبے سے کرتے ہیں، کیونکہ ملک کی ترقی میں ایجوکیشن کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ اس شعبے کی عہد ساز شخصیت ہیں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر صاحب کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہے، ان میں سے تین یعنی سندھ یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی اپنے ابتدائی مراحل میں تھیں۔ ڈاکٹر صدیقی نے نہ صرف ان جامعات کو پائوں پر کھڑا کیا بلکہ انہیں پائے کی دانش گاہیں بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ بی اے تک جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں تعلیم حاصل کی۔ ریاضی کے مضمون میں امتیازی پوزیشن کے حقدار ٹھہرے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے ریاضی میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی گئے۔
علم ریاضی اور فزکس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ صدیقی صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ جرمنی میں انہیں عالمی شہرت یافتہ سائنس دان آئن سٹائن ڈاکٹریٹ کے مقالے کے سپروائزر کے طور پر میسر آیا۔ پی ایچ ڈی مکمل کر کے حیدرآباد دکن واپس آ گئے اب وہ ریاضی اور فزکس دونوں علوم کے ماہر بن چکے تھے۔ جامعہ عثمانیہ میں پروفیسر رہے اور پھر اپنی مادر علمی کے وائس چانسلر بنے۔ 1947ء میں وہ حکومت پاکستان کی دعوت پر ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور کراچی یونیورسٹی میں تدریس کا فریضہ سر انجام دینے لگے۔ جلد ہی انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا گیا۔ 1950 کی دہائی کے آغاز میں پشاور یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی تو ڈاکٹر صاحب وہاں وائس چانسلر تھے۔ 1957ء میں وہ قائداعظم یونیورسٹی کے پہلے وی سی متعین ہوئے۔ سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی ہوئی اس دانش گاہ کا شمار ملک کے ٹاپ کے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ طلبااور طالبات کی تعداد تقریباً پندرہ ہزار ہے۔ اس یونیورسٹی کا طرّہ امتیاز یہاں ہونے والا ریسرچ ورک ہے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ابتدائی سائنس دانوں میں سے تھے۔ 1971 کے سانحے کے بعد پاکستانی لیڈر شپ نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ پاکستانی دفاع کو آہن کی طرح مضبوط بنانا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ وہ وواپس اٹامک انرجی کمیشن آ جائیں۔ اب یہ بھی غور فرمائیں کہ 1947ء میں ہماری قیادت نے ڈاکٹر صاحب جیسے گوھر نایاب کو پاکستان بلایا تھا جبکہ 1972ء میں ہماری قیادت نے ہی فیصلہ کیا کہ اس ممتاز سائنس دان کو قومی ایٹمی پروگرام میں فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کے بعد 1990تک وہ قائداعظم یونیورسٹی سے منسلک رہے۔ اس یونیورسٹی کی لائبریری انہی کے نام سے منسوب ہے آپ نے علم ریاضی اور فزکس سے متعلق دو علیحدہ علیحدہ نیشنل گروپ بنائے جو ان مضامین کی قومی سطح پر ترویج و ترقی کے لئے کام کرتے رہے۔ اس عہد ساز شخصیت نے ایسے ادارے بنائے جو لمبے عرصے تک ان کی یاد تازہ کرتے رہیں گے۔ وہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے بانی ہیں۔
ادارہ سازی میں دوسرا بہت بڑا نام جناب غلام فاروق خان کا ہے۔ اس عظیم شخصیت نے ایوب خان کے زمانے میں پاکستان کو صنعتی ملک بنانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ اس ایک شخص نے کراچی شپ یارڈر بنایا۔ پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن یعنی بی آئی ڈی سی بنائی۔ پاکستان سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے بانی تھے۔ 1958میں واپڈا کے اولین چیئرمین بنے اور تین سال میں اسے شاندار ادارہ بنا دیا۔ آرڈی ننس فیکٹری واہ کے چیئرمین رہے۔ ایسٹ پاکستان کے گورنر رہے۔ قومی اسمبلی کے ممبر اور پھر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ صدر ایوب خان کے عہد میں فیڈرل منسٹر بھی رہے۔ ایک مختصر عرصے میں اس دیوہیکل شخصیت نے کتنا کچھ کر ڈالا یہ سوچ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اپنی بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر اس شخص نے جس ادارے میں بھی قدم رکھا وہ کامیاب ہو گیا۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک ایسا پروجیکٹ تھا جس پر قوم کام مکمل اتفاق رائے رہا۔ اسے ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تو جنرل ضیا الحق اور صدر غلام اسحاق خان نے پوری تندہی سے جاری رکھا۔ جناب آغا شاہی اور اے جی این قاضی نے پوری توجہ اور محنت اس قومی پروجیکٹ کی کامیابی پر صرف کی اور پھر اسے ڈاکٹر رضی الدین صدیقی‘ ڈاکٹر عبدالسلام‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے سائنس دان ملے۔ 1987میں جب انڈیا نے براس ٹیک (Brass Tack) نامی بڑی فوجی مشق کی اور لاکھوں فوجی پاکستان کے بارڈر پر لاکھڑے کئے تو پاکستان نے راجیو گاندھی کو خاموشی سے پیغام بھیجا کہ ہم ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔ چند روز میں ہی انڈین افواج واپس چلی گئیں تو ہمارے ایٹمی پروگرام نے ہمیں احساس تحفظ بھی دیا ہے اور اس سے بڑھ کر برصغیر کو بڑی جنگ سے بچایا ہے۔ اس بڑی صلاحیت کے لئے ہمیں مذکورہ بالا شخصیات کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے نامساعد حالات کے باوجود اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور خاص طور پر جناب غلام اسحاق خان کا جنہوں نے اس ہدف کے لئے کبھی فنڈز کی کمی نہیں آنے دی۔
عدلیہ کے شعبے میں پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا سب سے بڑا نام جسٹس اے آر کارنیلیس کا ہے۔ وہ آگرہ میں ایک اینگلو انڈین فیملی میں پیدا ہوئے۔ بے حد ذہین طالب علم تھے۔ سکالر شپ حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم کے لئے کیمبرج یونیورسٹی گئے۔ انڈین سول سروس کا امتحان امتیازی پوزیشن میں پاس کیا۔ 1943میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے۔ 1947میں پاکستان کا انتخاب کیا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ قائداعظم کی سوچ کے حامی تھے۔ رومن کیتھولک تھے لیکن اسلامی شریعہ لاء پر مکمل عبور تھا۔ وہ اپنے آپ کو دستوری مسلمان Constitutional Muslim کہتے تھے۔ آٹھ سال پاکستان کے چیف جسٹس رہے۔ کئی سال لاہور کے ایک ہوٹل کے کمرے میں مقیم رہے۔ پاکستان میں کرکٹ کی ترویج میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ 1954میں گورنر جنرل غلام محمد نے پارلیمنٹ کو تحلیل کیا تو جسٹس محمد منیر نے اس فیصلے پر نظریہء ضرورت لاگو کر کے اس کی تصدیق کر دی۔ جسٹس کارنیلیس بھی بنچ پر تھے۔ انہوں نے بے دھڑک اختلافی نوٹ لکھا اور آزاد جج کے طور پر ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے۔ (جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں