"JDC" (space) message & send to 7575

خطرے کی گھنٹیاں … (2)

پچھلے کالم کا آغاز آبادی کے بپھرے ہوئے سیلاب سے ہوا تھا۔ چونکہ 1951ء کے مقابلے میں آج ہماری آبادی چھ گنا ہے‘ لہٰذا زمین اور پانی کے وسائل پر دبائو بہت بڑھ گیا ہے۔جب آبادی تیزی سے بڑھتی ہے تو جنگل کٹتے ہیں‘ جنگل کٹتے ہیں تو حدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آبادی وسائل سے زیادہ ہو جائے تو جرائم میں اضافہ ہوتا ہے‘ کیونکہ بے روزگار لوگوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ حدت میں اضافہ ہو تو گلیشئر تیزی سے پگھلتے ہیں‘ سیلاب آتے ہیں اور طویل مدت کا سوچیں تو گلیشئر ہمارے مستقبل کے پانی کے مخزون ہیں‘ لہٰذا ہماری مستقبل کی واٹر سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ صرف پاکستان کو نہیں‘ ساری دنیا کو ہے۔ آسٹریلیا میں جنگل کوآگ لگی تو لاکھوں ایکڑ جل گئے۔ شمالی برطانیہ میں سیلاب آیا‘ جاپان میں زلزلوں اور سمندری طوفان (Cyclone) کی شدت میں اضافہ ہوا ہے‘ مگر قابلِ فکر یہ بات ہے کہ پاکستان ان ممالک کی لسٹ میں شامل ہے جنہیں موسمی تبدیلی سب سے زیادہ متاثر کرے گی۔ آپ کی تسلی کیلئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ انڈیا بھی اس فہرست میں شامل ہے‘ مگر ہمیں تو اپنے گھر کی فکر کرنی ہے۔ 2010ء میں پاکستان میں جو سیلاب آیا تھا ایسے سیلاب شاذو نادر ہی آتے ہیں اور اب مارچ کے دوسرے ہفتے میں گلیات میں برف باری ہو رہی ہے۔ یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کی نشانیاں ہیں۔ کبھی بہت سردی تو کبھی سخت گرمی۔ ایک سال بہت بارشیں اور سیلاب تو اگلے سال خشک سالی۔ ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان زراعت کے شعبے کا ہوگا‘ احتمال ہے کہ فی ایکڑ پیداوار کم ہوتی جائے گی لیکن پاکستان میں اگر اسی رفتار سے نورِ نظر اور لختِ جگر پیدا ہوتے رہے تو ان کی خوراک کہاں سے آئے گی؟ اگر ایران اور بنگلہ دیش اپنی آبادی کی افزائش کم کر سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا ‘جبکہ ہمارے ہاں ایوب خان کی حکومت نے بڑا فعال فیملی پلاننگ پروگرام چلایا تھا‘ اس کے بعد صرف محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت نے اسے اہمیت دی۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے بچ سکتے تھے؟یہ ذرا مشکل سوال ہے‘ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اگر ہماری آبادی آج بنگلہ دیش جتنی ہوتی تو ہمارے ہاں جنگل زیادہ ہوتے اور موسموں کی انتہا پسندی کم ہوتی‘لیکن یہاں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ موسمی تبدیلی کا سب سے بڑا سبب ترقی یافتہ ممالک میں تیل کا بے دریغ استعمال بھی ہے اور اس زمرے میں امریکہ پہلے نمبر پر ہے‘ مگر ہم وہاں کی انڈسٹری کو تو بند کرنے سے رہے۔ خوش آئند بات یہ ہے ترقی یافتہ ممالک خود انرجی کے ذرائع تبدیل کرنے پر فوکس کر رہے ہیں۔ ہالینڈ میں تمام ریلوے ٹرینیں ہوا والی بجلی سے چلتی ہیں۔ چند سال میں پٹرول اور ڈیزل والی کاریں مغربی ممالک کی سڑکوں سے غائب ہو جائیں گی۔ہمارے ہاں موسمی تبدیلی کے بارے میں 2013ء میں قومی پالیسی ضرور بنی۔ 2015ء میں جسٹس منصور علی شاہ کا تاریخی فیصلہ بھی آیا۔ وہ اُس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے۔ ہمارے ہاں شاندار پالیسیاں ضرور بنتی ہیں لیکن ان پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوتا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ فیڈرل ماحولیات کی وزارت ختم کردی گئی ہے۔ اب یہ مکمل طور پر صوبائی معاملہ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم ملک کیلئے کئی مسئلے چھوڑ گئی ہے۔ جلد بازی میں اور بغیر کسی بحث مباحثہ کے کی گئی قانون سازی کبھی سود مند نہیں ہوتی۔
درجہ حرارت بڑھنے سے سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ پاکستان کی دس فیصد آبادی ساحلِ سمندر کے قریب آباد ہے۔ ہماری چالیس فیصد انڈسٹری ساحل کے آس پاس ہے۔ بحیرہ عرب کی سطح بلند ہونے کا زیادہ نقصان سندھ کے ساحلی علاقوں کو ہے۔ مکران کوسٹ بوجوہ اتنا زیادہ متاثر نہیں ہوگا۔ ٹھٹھہ اور بدین میں قابلِ کاشت زمین کم ہو رہی ہے۔ کراچی کے سیوریج کے پانی سے آبی حیات کو مسلسل خطرہ ہے۔ سیوریج سے براہ راست خطرہ ساحلی فاریسٹ کو ہے اور سمندر کے کنارے اُگنے والے پودوں میں مینگروو( Mangrove) سب سے اہم ہے۔ اس درخت کی پیچیدہ جڑیں کچھ زیر زمین ہوتی ہیں‘ مگر خاصی زیادہ پانی میں نظر آتی ہیں۔ یہ جنگلات آبی حیات کیلئے آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ حکومت سندھ اس قیمتی جنگل کا کتنا خیال رکھ رہی ہے‘ لیکن عمومی طور پر کراچی کا ساحل مسائل کا شکار رہا ہے‘ مثلاً غیر ملکی جہاز اپنا استعمال شدہ گندا ڈیزل یہاں نکالتے رہے ہیں۔ اگر ہم ساحلی جنگل کا مناسب خیال رکھیں تو ہمارا ماحول بھی بہتر ہوگا اور مچھلیوں کی پیداوار بھی بڑھے گی۔
قرآن کریم کے مطابق تمام زندگی پانی سے شروع ہوئی اور آج بھی اس کادارومدار پانی پر ہے۔ اس وقت پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی ایک ہزار کیوبک میٹر فی سال ہے۔ اندازہ ہے کہ 2025ء میں جو پانی ایک پاکستانی کے حصے میں آئے گا وہ آج کے مقابلے میں نصف ہوگا‘ یعنی چند سالوں بعد پاکستان پانی کی شدید قلت کا شکار ہو جائے گا۔ اس صورتحال کا بڑا سبب آبادی میں تیز اضافہ ہے‘د وسرا سبب موسمیاتی تبدیلیاں ہیں‘ تیسرا سبب پانی کا ضیاع ہے۔ خاص طور پر زراعت کے شعبے میں۔ ساری دنیا کھیتوں کو بجلی کے فواروں سے سیراب کر رہی ہے یا پلاسٹک کی باریک پائپ یعنی ڈرپ (Drip) کے ذریعہ آبپاشی کر رہی ہے۔ اس طرح پانی قطرہ قطرہ پودوں کی جڑوں میں گرتا ہے پورے کھیت کو فلڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسرائیل نے پانی کی شدید کمی کے باوجود اپنے ملک کو سر سبز بنا لیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ ہماری صنعتوں‘ کاروں اور ہوائی جہازوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ ہمارا انرجی پروڈکشن کا نظام بھی اصلاح طلب ہے۔ ہماری بیشتر بجلی کوئلے اور تیل سے پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں جلدی سے انرجی پروڈکشن کے نئے اور قابل تجدید (New and renewable)ذرائع اپنانا ہوں گے۔ الحمدللہ پاکستان میں سال میں تین سو دن دھوپ ہوتی ہے‘ ہم سولر انرجی وافر مقدار میں پیدا کر سکتے ہیں۔ یہی صورت ونڈ انرجی کی ہے۔ مکران کے ساحل پر سارا سال خوب ہوا چلتی ہے۔ سرسید احمد خاں نے آج سے 170سال پہلے کہا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنانا چاہیے‘ ان کی یہ حکیمانہ نصیحت آج بھی صائب ہے۔ ہمیں کوئلے اور تیل سے چلنے والے بجلی گھروں سے نجات حاصل کرنا ہوگی‘ کیونکہ یہ ماحول دشمن ہیں۔ پاکستان میں کاروں کی تعداد کم ہونی چاہیے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کرنا ضروری ہے۔
کتنی زیادتی ہے کہ ہماری حکومتوں نے تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا۔ گویا چالیس سال ضائع کر دئیے۔ ہمارے دریائوں میں 85فیصد پانی موسم گرما میں آتا ہے‘ جبکہ صرف 15فیصد موسم سرما میں۔ زیر آب بھل جمع ہونے سے منگلا اور تربیلا کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ نئے ڈیم بنانا بے حد ضروری ہے۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی اور پانی کو سردیوں کیلئے سٹور کرنے کے لئے بھی۔ ہم صرف نوفیصد بجلی نئے ذرائع سے پیدا کر رہے ہیں‘ جبکہ انڈیا 17فیصد بجلی ان وسائل سے بناتا ہے۔
چونکہ بات ممکنہ اور موجودہ خطروں کی ہو رہی ہے تو اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں جو ایک کینسر سپیشلسٹ نے اگلے روز مجھے بتائی۔ سرطان کے معالج کا کہنا تھا کہ کولون کینسر پاکستان میں پھیل رہا ہے۔ شہری علاقوں میں اس موذی مرض کا پھیلائو زیادہ ہے۔ بڑی آنت کے اس سرطان کی بڑی وجہ جنک فوڈہے‘یعنی قدرتی آفات اور خطرات کے علاوہ کئی ایسے خطرے ہیں جو ہم نے خود پالے ہیں‘ ان میں ایک بڑا خطرہ ہمارے لالچ اور کرپشن کی وجہ سے ہے۔ 2005ء میں زلزلہ آیا تو اسلام آباد کی بیشتر عمارتیں محفوظ رہیں‘ مگر مارگلہ ٹاور زمین بوس ہو گیا۔ ان کامالک آج بھی انگلینڈ میں بیٹھا ہوا ہے۔کراچی‘ گولیمار میں پانچ منزلہ عمارت کے گرنے کا واقعہ تازہ ترین ہے۔ جب تک ہمارے ہاں ہر کسی کا کڑا احتساب نہیں ہوگا خطرات یونہی منڈلاتے رہیں گے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں