"JDC" (space) message & send to 7575

پاک ایران تعلقات کا تازہ جائزہ

پچھلے دنوں کورونا کی وبا کا پاکستان میں آغاز ہوا تو کہا گیا کہ یہ متعدی مرض ایران سے آیا ہے۔ میڈیا میں چند لوگوں نے یہ رائے بھی دی کہ ایران نے جلدی میں پاکستانی زائرین کو اپنے ملک سے نکالا اور تفتان لا پھینکا، جبکہ انڈین زائرین کی رخصت کا انتظام طریقے سلیقے سے کیا گیا۔ میرے ایک دوست جو بین الاقوامی میڈیا کو غور سے دیکھتے ہیں کہنے لگے :فروری کے اواخر میں ایران میں کچھ لوگوں نے افواہیں پھیلائیں کہ کورونا دراصل پاکستان سے آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں جانب ایسے گروپ موجود ہیں جو غلط فہمیاں پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ شکر ہے کہ حکومت پاکستان نے ایسی منفی کوششوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور وزیراعظم عمران خان نے امریکہ سے درخواست کی کہ کورونا کی وبا کے پیش نظر ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیاں اٹھائی جائیں۔
1947 میں نوزائیدہ پاکستانی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے والا سب سے پہلا ملک ایران تھا۔وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1948ء میں ایران کا دورہ کیا۔ 1950ء میں شاہ ایران پاکستان آئے اور پاکستان کا دورہ کرنے والے وہ پہلے ہیڈ آف سٹیٹ تھے۔ دونوں ممالک مغربی دفاعی معاہدوں کا حصہ بنے۔ ایران اور پاکستان باہم شیر و شکر تھے۔ آر سی ڈی تشکیل پائی تا کہ پاکستان ، ایران اور ترکی میں اقتصادی روابط بڑھائے جائیں۔ 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو نئی انقلابی حکومت کو تسلیم کرنے والا پاکستان اولین ملک تھا‘ مگر افسوس کہ یہ گرمجوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ انقلاب کے بعد ایران کی سیاست میں جو مسلکی رنگ آیا اس کی وجہ سے تعلقات پہلے والے نہ رہے۔ میں اس بات کو تسلیم کرنے سے قاصر ہوں، دونوں ممالک کا دین ایک ہے اور مبادی پر کوئی اختلاف نہیں، دوسرے پاکستان اپنے دوستوں کو مذہبی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتا ورنہ ہمارے چین کے ساتھ اتنے قریبی تعلقات نہ ہوتے۔ انٹرنیشنل تعلقات قومی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ دراصل ہوا یہ کہ انقلاب کے بعد ایران اور امریکہ کی راہیں الگ ہو گئیں۔ ساتھ ہی افغانستان پر سوویت یونین نے حملہ کر دیا اور پاکستان امریکہ تعلقات میں سکیورٹی تعاون کا نیا دور شروع ہوا جو آٹھ سال جاری و ساری رہا۔
جو لوگ اس استدلال کے حامی ہیں کہ انقلابی حکومت کے مسلکی رنگ نے دو طرفہ تعلقات میں ارتعاش پیدا کیا وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ 1980ء میں جب حکومت پاکستان نے زکوٰۃ کی ادائیگی کو لازمی قرار دیا تو ایک مسلک کے لوگوں نے فیڈرل سیکرٹریٹ اسلام آباد پر قبضہ کر لیا اور کام ایک دن بند رہا۔ یہ لوگ شاید یہ غور نہیں کرتے کہ پاکستان کی حکومت وقت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے تمام پہلوئوں کا بغور جائزہ نہیں لیا تھا۔ آرڈیننس جلدی میں صادر ہوا اور اس کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔ آج بھی پاکستانیوں کی اکثریت زکوٰۃ ضرور دیتی ہے مگر اسے انفرادی فرض کے طور پر ادا کرنے کو بہتر سمجھتی ہے۔
مجھے یہ بھی علم ہے کہ شاہ کے زمانے میں تہران کی بہت سی مساجد کو تالے لگے ہوتے تھے۔ لوگ رسم قل وغیرہ کی غرض سے محکمہ اوقاف کو مسجد کھولنے کی درخواست دیتے تھے۔ شاہ آف ایران سخت مغرب زدہ تھے۔ وہ ایران کو یورپی کلچر میں رنگ دینا چاہتے تھے ۔ آج ایران میں مذہبی طبقہ حکومت کر رہا ہے، جس کی سوچ شاہ کے افکار سے بالکل مختلف ہے لیکن پاکستان کو اس سے کوئی غرض نہیں اس لئے کہ پاکستان کی دوستی ایران سے ہے، ایران کی عوام سے ہے حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اس دوستی میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔
انڈیا کے ساتھ ہمارے تعلقات مزید خرابی کی جانب جا رہے ہیں اور اس میں زیادہ عمل دخل انڈیا کی غلبے والی سیاست کا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی ترش ہوتے ہیں تو کبھی شیریں۔ ان حالات میں پاکستان کسی تیسرے فرنٹ کو کھولنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے بدخواہ بڑی دیر سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں، لیکن یہ فرنٹ کبھی نہیں کھلے گا۔ پاک ایران تعلقات میں زہر گھولنے کی خواہش ان کے دل میں ہی رہے گی۔ لیکن ریجنل امن کو تباہ کرنے کی خواہش رکھنے والے 1990ء کی دہائی میں کامیاب ہوا ہی چاہتے تھے۔ اس بدنصیب عشرے میں افغانستان اور پاکستان میں دو پراکسی جنگیں ہوئیں۔ ایک کا رنگ لسانی تھا تو دوسری کا مسلکی۔ افغانستان میں 1996ء میں پاکستان نے طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کیا۔ یہ ایک بڑی سٹریٹیجک غلطی تھی۔ طالبان کی حکومت کو ساری دنیا میں صرف تین ممالک نے تسلیم کیا تھا۔ اقوام متحدہ بھی برہان الدین ربانی کو قانونی صدر مان رہی تھی حالانکہ عملاً وہ اقتدار کھو چکے تھے۔ اس غلط فیصلے سے پاکستان نے نہ صرف اپنی سیاسی تنہائی کا بندوبست کیا بلکہ ایران کو بھی سخت ناراض کر لیا۔ افغانستان میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی۔ پاکستان اور ایران مخالف دھڑوں کی سپورٹ کر رہے تھے۔ جب مزار شریف میں ایرانی قونصلیٹ کے نو کارندے مارے گئے تو ایران نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا کیونکہ یہ قتل عمداً طالبان نے کئے تھے۔ ایران کی انڈیا کے ساتھ دوستی پہلے بھی تھی لیکن اب یہ دوستی سٹریٹیجک تعاون میں بدلنے لگی۔ ایران نے تاجکستان میں انڈیا کا فضائی بیس کھلوانے میں مدد کی۔
اور ادھر پاکستان میں دو بڑے مسالک کے اختلافات بڑھے۔ ایران اور اس کے علاقائی حریف اپنے اپنے مہروں کو شہ دے رہے تھے۔ سب سے زیادہ خون پاکستانیوں کا بہا لیکن ایرانی بھی اس جنگ کی آگ سے محفوظ نہ رہے۔ لاہور کے خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر صادق گنجی شہید ہوئے۔ راولپنڈی میں ایرانی فوج کے کیڈٹ شہید کر دیئے گئے جو فوجی ٹریننگ کے لیے سرکاری طور پر پاکستان آئے تھے۔ اسلام آباد میں مولانا اعظم طارق کو دن دہاڑے شہید کیا گیا۔ ہمارے سست رو نظام عدل کی وجہ سے آقائے صادق گنجی کے قاتل کو سزا ملنے میں گیارہ سال لگے۔ اس وقت پاکستان میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ اقتدار کے باری باری مزے لے رہی تھیں۔
1990ء کی دہائی میں ہی ایران نے تجویز پیش کی کہ وہ پاکستان اور انڈیا کو پائپ لائن کے ذریعے گیس ایکسپورٹ کرنا چاہتا ہے۔ پہلے تو ہمارے ہاں انڈیا مخالف لابی نے شور مچایا کہ ہماری وجہ سے انڈیا کو فائدہ کیوں کر ہو۔ بعد میں ایران مخالف قوتیں بیچ میں کود پڑیں اور ہماری کمزور حکومتوں نے پائپ لائن بچھانے کا ایک سنہری موقع ضائع کر دیا۔ اگر یہ پائپ لائن بن جاتی تو پاکستان میں لوڈ شیڈنگ تک نوبت نہ آتی۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ایرانیوں میں رعونت پائی جاتی ہے یعنی بے جا تفاخر۔ اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے ۔اس کی وجوہات تاریخی بھی ہیں اور نظریاتی بھی۔ آج سے دو ہزار چار سو سال پہلے ایران ایک عظیم ایمپائر تھا۔ تب ایرانی نیوی نے یونان پر بحری حملہ کیا تھا۔ سولہویں صدی کے آغاز میں انڈیا میں مغلیہ خاندان کی حکومت قائم ہوئی تو ایران میں صفوی ایمپائر بنی۔ صفوی سلطنت میں افغانستان، سنٹرل ایشیا اور بلوچستان کا کچھ حصہ شامل تھا۔ ہمایوں نے ایران میں پناہ لی تو مغلوں اور صفوی حکمرانوں میں دوستی کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ جہانگیر اور شاہ جہاں دونوں کی بیگمات ایرانی نژاد تھیں۔ صفوی عہد میں ایران نے اپنا مسلک بدلا لیکن اس عزیز داری میں مسلک آڑے نہیں آیا تھا۔ آئیے تاریخ کو چھوڑ کر موضوع کی جانب لوٹتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی اہم شخصیات کی بیگمات ایرانی النسل تھیں اور ان میں ناہید سکندر مرزا، بیگم نصرت بھٹو اور بیگم صاحبزادہ یعقوب خان بھی شامل ہیں۔ صدر سکندر مرزا جلاوطنی کی حالت میں لندن میں فوت ہوئے، مگر ایران میں انہیں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سزا ہوئی تو شاہ ایران نے سخت بُرا منایا۔ مشرقی روایت کے مطابق ایرانی اپنے عزیزوں کا خیال رکھتے ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں