"JDC" (space) message & send to 7575

قصور ہمارا ہے‘ پی آئی اے کا نہیں

پاکستان میں اب تک تیرہ فضائی حادثات ہو چکے ہیں۔ ایک حادثے میں صدرِ مملکت جو آرمی چیف تھے مع کئی سینئر فوجی افسران اور امریکی سفیر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک اور فضائی حادثے میں اُس وقت کے ائیر چیف مصحف علی میر شہید ہوئے۔ ہر حادثے کی انکوائری ہوئی لیکن پبلک کو کبھی نہیں بتایا گیا کہ وجوہات کیا تھیں۔ کیا ذمہ داران کا تعین کیا گیا؟کس کو کیا سزا ملی یا سارا معاملہ قسمت کے سپرد کر کے مٹی ڈال دی گئی؟ اس دفعہ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کہتے ہیں کہ کراچی کے فضائی حادثے کی نہ صرف شفاف تحقیق ہوگی بلکہ انکوائری کی رپورٹ پارلیمان کے سامنے پیش کی جائے گی۔ انہوں نے تمام فضائی حادثات کی رپورٹیں پبلک کرنے کا عندیہ دیا۔ اُن کے منہ میں گھی شکر۔ 
چند عشرے پہلے پی آئی اے دنیا کی اعلیٰ ترین فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی۔ 1970ء کی دہائی کا واقعہ ہے جناب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے اور ائیر مارشل نور خان پی آئی اے کے سربراہ‘ وزیراعظم ایک میٹنگ کے لیے کراچی گئے اور انہیں شام کی فلائٹ سے واپس آنا تھا۔ میٹنگ نے طول کھینچا تو وزیراعظم کی جانب سے ائیر مارشل نور خان کو پیغام بھجوایا گیا کہ فلائٹ آدھے گھنٹے کے لیے روک لی جائے۔ پی آئی اے کی وقت کی پابندی کا ریکارڈ شاندار تھا‘ ائیر مارشل نے جواب دیا کہ فلائٹ وقت پر ہی روانہ ہوگی‘ وزیراعظم بھاگے بھاگے ائیر پورٹ آئے اور جہاز عین وقت پر اڑا۔ اور اب سنئے 1990ء کی دہائی کا واقعہ‘ مسلم لیگ کی حکومت تھی‘ اس وقت کے وزیر داخلہ لاہور سے اسلام آباد پی آئی اے کی فلائٹ سے آ رہے تھے‘ جہاز پرواز کے لیے تیار تھا‘ ائیر ہوسٹس حفاظتی بیلٹ باندھنے کا اعلان کر رہی تھی کہ وزیر داخلہ نے طیارے کے عملے کو کہا کہ ابھی ایک مسافر نے آنا ہے؛ چنانچہ جہاز کو روک لیا گیا۔ کپتان کو بھی وزیر داخلہ کی حکم عدولی کی ہمت نہ ہوئی۔ مذکورہ بالا واقعات میں تقریباً بیس سال کا فاصلہ ہے اور اس عرصے میں ہمارے قاعدے‘ قوانین سیاست دانوں کی لونڈی بن چکے تھے۔ لاہوروالے واقعے کے عینی گواہ میرے قریبی دوست ہیں اور بہت معتبر شخصیت بھی رکھتے ہیں۔
1972ء میں مجھے زندگی کا پہلا فضائی سفر کرنے کا موقع ملا۔ سول سروس اکیڈمی لاہور میں زیر تربیت افسر کراچی کے سٹڈی ٹور پر جا رہے تھے ‘ جہاز عین وقت پر روانہ ہوا۔ صاف ستھرا ماحول‘ چاک و چوبند مسکراتا ہوا عملہ‘ کیبن کریو کی مسکراہٹ کے ساتھ شاندار سروس۔ وقت کا پتہ ہی نہ چلا کہ جہاز کراچی لینڈ کر گیا۔ کپتان نے ایسی شاندار لینڈنگ کی کہ پتہ بھی نہ چلا۔ اس زمانے میں ہماری ائیر لائن عظیم لوگوں پر مشتمل تھی۔ Great People to Fly With کا جملہ امریکی خاتونِ اول نے پی آئی اے پر سفر کرنے کے بعد کہا تھا۔
اور اب آتے ہیں 2018ء کی جانب۔ میں ایک معروف تھنک ٹینک کی جانب سے اسلام آباد سے بیجنگ بذریعہ پی آئی اے جا رہا تھا۔ پرواز تاخیر سے روانہ ہوئی۔ جہاز کی اندرونی حالت بھی قابلِ رشک نہ تھی۔ عملے کے چند لوگ عمر رسیدہ تھے‘ لہٰذا زیادہ مستعد نہ تھے۔ میں واش روم گیا تو اس کا دروازہ بند نہ ہوا۔ میں نے سٹیورڈ کو بلایا اور اسے مسئلہ بیان کیا۔ اس کا جواب تھا: سر آپ کسی دوسرے واش روم میں چلے جائیں ۔میں سیٹ پر واپس آیا اور اسی سٹیورڈ کو بلا کر پوچھا کہ جہاز کی حالت خستہ کیوں ہے؟ آدمی اچھا تھا اور فرینک بھی‘ کہنے لگا کہ ہمارے چند جہاز خاصے پُرانے ہیں‘ ان کو ہم اگر یورپ یا امریکہ لے جائیں تو بھاری جرمانہ ہونے کا خدشہ رہتا ہے‘ لہٰذا ہم ایسے جہازوں کو چین کے روٹ پر چلاتے ہیں۔ یہ ہمارا دوست ملک ہے اور ایسی باتوں سے چشم پوشی کرتا ہے۔
پی آئی اے کے متعدد فضائی حادثات میں سے کچھ چیدہ چیدہ کا ذکر ضروری ہے۔ 1965ء میں پی آئی اے کی تعارفی بوئنگ پرواز قاہرہ ائیر پورٹ پر لینڈنگ سے قبل حادثے کا شکار ہوئی۔ تمام کے تمام 124 مسافر زندگی کی بازی ہار گئے۔ 1979ء میں جدہ کے حادثے میں 154 حاجی شہید ہوگئے۔ 1989ء میں گلگت کے قریب پی آئی اے کا فوکر لاپتہ ہو گیا۔ 1992ء میں کٹھمنڈو کے حادثے میں 167 مسافر جان سے گئے اور پھر 2016ء کا وہ افسوس ناک حادثہ جو حویلیاں کے قریب ہوا ‘جس میں میرے دوست فیض احمد کا بیٹا اسامہ وڑائچ مع فیملی شہید ہوگیا۔ اسامہ اس وقت ڈپٹی کمشنر چترال تھا اور بہت ہی ہونہار افسر۔ اور اب کراچی کے حادثے میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ مختلف فضائی حادثات میں وفات پانے والے پاکستانیوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے‘ اور پی آئی کے چیف ایگزیکٹو ارشد ملک کہتے ہیں کہ کراچی حادثے والا جہاز بھی ٹھیک تھا ‘ لاہور میں انجینئرنگ عملے نے بھی صحیح سرٹیفکیٹ دیا تو پھر لینڈنگ گیئر کیوں نہیں کھلا؟ اس مرتبہ ذمہ داروں کے نام قوم کے سامنے آنے چاہئیں اور انہیں سزا بھی ملنی چاہیے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وزارت ایوی ایشن نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ پی آئی اے میں 466 ملازمین جعلی ڈگریوں کے حامل ہیں۔ اب قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہو گی کہ ان کے نام اور عہدے بتائے جائیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ 466 انمول موتی پانچ سال پہلے بھرتی کئے گئے تھے۔ آج سے پانچ سال پہلے حکومت اسی پارٹی کی تھی جنہیں سوشل میڈیا میں عموماً پٹواری کہا جاتا ہے۔ 2018ء میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اسی پارٹی کے ایک سینیٹر پر الزام لگایا تھا کہ پی آئی اے ان کی فیملی کے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ سینیٹر صاحب خود میڈیا رپورٹس کے مطابق 1990ء میں پی آئی اے میں لوڈر بھرتی ہوئے تھے۔
ائیر سیفٹی کے لحاظ سے آسٹریلیا کی ائیر لائن کینٹاس Qantas دنیا میں بہترین تصور کی جاتی ہے۔ یہ ائیر لائن 1920ء سے آپریٹ کر رہی ہے اور سو سال میں اسے ایک آدھ حادثہ ہی پیش آیا ہے اور ٹوٹل مرنے والوں کی تعداد اکیس ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک کی تین ائیر لائنز کا سیفٹی ریکارڈ بھی بہت اچھا ہے۔ دنیا بھر میں بوئنگ یا ائیر بس کمپنیوں کے جہاز اڑائے جاتے ہیں‘ یہی جہاز پی آئی اے کے پاس بھی ہیں‘ فرق صرف اتنا ہے کہ باقی ائیر لائنز میں بھرتیاں میرٹ پر ہوتی ہیں‘ جبکہ ہمارے ہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں نے قومی ائیر لائن کو سفارشیوں سے بھر دیا تھا۔پی آئی اے کے زوال کی ایک بڑی وجہ یونین بازی بھی ہے۔ یہاں پر سیاسی پارٹی نے اپنے اپنے مہرے رکھے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت پچھلے چند ماہ سے اصلاح احوال کی کوشش میں مصروف ہے۔ پی آئی اے کو ضروری خدمات کی کلاس میں شامل کیا گیا ہے اور جب کوئی ادارہ Essential services کی کیٹیگری میں آ جائے تو اس کے ملازمین کے پاس یونین سازی کا اختیار نہیں رہتا۔ یہ فیصلہ آیا ہی تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی بولے‘ یونین سازی تو پی آئی اے کے ملازمین کا دستوری حق ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر یونین سازی پی آئی اے کے ملازمین کا آئینی حق ہے تو مسافروں کی جان کی حفاظت حکومت کا فرض ہے۔چند سال پہلے اخبار میں پڑھا تھا کہ مشرق بعید کے ایک معروف ملک نے اپنے شہریوں کو ٹریول ایڈوائزری ایشو کی تھی کہ وہ پی آئی اے پر سفر نہ کریں۔ صاف ظاہر ہے کہ کوئی پڑھا لکھا صاحبِ استطاعت آدمی ایسی ائیرلائن پر کیوں سفر کرے گا جس کا سیفٹی ریکارڈ اچھا نہیں۔ دنیا بھر میں متعدد ہوائی جہاز کریش لینڈنگ کر کے مسافروں کو بچا چکے ہیں۔ مجھے برٹش ائیر کی 2008ء کی لندن ائیر پورٹ ہیتھرو پر کریش لینڈنگ یاد ہے۔ پی آئی اے میں جہازوں کی نسبت عملہ بہت زیادہ ہے۔ بہت سے خلیجی ائیر لائنز کے پاس پی آئی اے سے آدھا عملہ ہے تو اصلاح احوال کا پہلا کام تو یہ کریں کہ سفارشیوں اور جعلی ڈگری والوں کو نکالیں‘ باقی ماندہ افسران اور عملے کی تنخواہ بڑھائیں‘ یونین بازی کا خاتمہ کریں۔ پی آئی اے پھر سے عظیم لوگوں کی ائیر لائن بن جائے گی۔ قصور پی آئی اے کا نہیں ہمارا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں