"JDC" (space) message & send to 7575

ناقابلِ فراموش افراد

ہم میں اکثر افراد ایسے ہیں جو بقول اکبر الہ آبادی‘ پیدا ہوتے ہیں بی اے کرتے ہیں،ملازمت کے بعد ریٹائر ہوتے ہیں اور چند سال بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جلد فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ ان کی شخصیات بھی سپاٹ سی ہوتی ہیں وہ کوئی کارہائے نمایاں بھی انجام نہیں دے پاتے۔ آج میں اپنے لاہور کے زمانے کے اُن لوگوں کا ذکر کروں گا جو اپنے نمایاں کاموں یا وکھری ٹائپ کی شخصیات کی وجہ سے مجھے آج بھی یاد ہیں۔
ان میں سرفہرست حبیب جالب ہیں۔ جالبؔ کا 1960ء کی دہائی میں طوطی بول رہا تھا۔ میں نے انہیں دو تین مرتبہ سنا۔ پہلی مرتبہ 1967ء میں لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں‘ جہاں وہ بھٹو صاحب کو ملنے آئے تھے۔ اس زمانے میں وہ بھٹو صاحب کے گرویدہ تھے اور بھٹو صاحب بھی ان کے مداح تھے۔ حاضرین کی فرمائش پر جالب نے اپنی مشہور نظمیں سنائیں۔ ان میں وہ نظم بھی شامل تھی جو 1966ء میں بھٹو صاحب کے کابینہ چھوڑنے پر لکھی گئی تھی اور انہیں کہا گیا تھا کہ اپنا چمن دستِ خزاں میں چھوڑ کر نہ جائیں۔ جالب بنیادی طور پر مزاحمت کا شاعر تھا۔ بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو ان کی آمرانہ سوچ اور اقدامات کے خلاف لکھنے لگا۔ 1973ء میں لاہور کے انٹرنیشنل لاہور میں ایک نجی محفل میں اسے سنا اور گفتگو بھی ہوئی۔ اس زمانے میں جالب کی نظم ''لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘ بہت مشہور ہوئی تھی۔ جالب کو اُن دنوں ڈرایا، دھمکایا بھی جا رہا تھا اور لالچ بھی دیا جا رہا تھا۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ حکومت کی آفرز پر غور کیوں نہیں کرتے؟ شاعر نے جواب دیا کہ کوئی تو ایسا ہونا چاہیے جسے خریدا نہ جا سکے‘ میں بکائو مال نہیں ہوں۔ ضمیر کا سو دا نہیں کر سکتا۔ جالب کے یہ الفاظ میرے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جالب کی زندگی تنگی اور عسرت میں گزری۔ 
غالباً 1964ء کی بات ہے جہلم سے ایک لڑکا بی اے کر کے آیا گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخل ہوا۔ وہ بلا کا ذہین تھا، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شاعری کرتا تھا‘ تخلص جوگیؔ اختیار کیا۔ احمد رفیق اختر کو اکثر لوگ اس زمانے میں رفیق جوگی کے نام سے جانتے تھے۔ ایم اے کیا اور تدریس کے پیسے سے منسلک ہو گئے۔ انگریزی زبان اور ادب کے علاوہ نفسیات اور یونانی دیو مالا سے بھی شغف تھا۔ بعد میں اسلام اور تصوف کا شوق ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ رفیق جوگی کی شخصیت میں چند چیزیں بڑی نمایاں تھیں اور یہ تھیں وسیع و عمیق مطالعہ، قادر الکلامی اور درویشانہ زندگی۔ میں ایم اے کر کے اسلامیہ کالج سول لائنز پڑھانے لگا تو رفیق صاحب ایم اے او کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ دن کو پڑھاتے، شام کو مال روڈ پر میلوں پیدل چلتے اور دوستوں سے لمبی گفتگو کرتے۔ پاکستان سے بے پناہ محبت ان کی باتوں سے ہمیشہ عیاں ہوتی تھی۔ بات چیت بہت مدلل ہوتی اور حوالے مستند۔ انگریزی ہو یا اردو‘ دونوں میں بہت روانی سے بولتے۔ میری ان سے ڈائریکٹ دوستی نہیں تھی۔ نفسیات کے پروفیسر محمد عرفان ہمارے مشترکہ دوست تھے۔ عرفان صاحب مجھے ایک روز رفیق صاحب کے گھر راج گڑھ لے گئے۔ جہاں وہ اور چند کالج اساتذہ قیام پذیر تھے۔ پروفیسر صاحب گھر پر نہیں تھے لیکن مجھے یاد ہے کہ طرزِ رہائش درویشانہ تھا۔ بیڈ کے بجائے چٹائی پر سوتے تھے۔ چند سال پڑھانے کے بعد شعبۂ تدریس کو خیر باد کہا اور گوجر خان واپس آ گئے۔ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ بے شمار لوگ ان کے معتقد ہیں اور ذاتی مسائل پر ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ صائب مشوروں کے علاوہ دعائیں بھی پڑھنے کے لیے بتاتے ہیں۔ ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ فیض کا سلسلہ جاری ہے اور کبھی کسی معاوضے کا تقاضا نہیں ہوتا۔ سنا ہے کہ بڑے بڑے مقتدر لوگ ان کے مشوروں اور دعائوں سے مستفیض ہوتے رہے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر گھنٹوں بڑی مدلل تقریر کر سکتے ہیں اور سننے والے ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔ پاکستان اور زندگی کے بارے میں رجائیت ان کے مزاج کا حصہ ہے۔
جب میں 1961ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تو مجھے سپورٹس کا شوق تھا لیکن وہاں اچھے سے اچھے سپورٹس مین موجود تھے اور میں کسی ٹیم کا حصہ نہ بن سکا۔ البتہ کھیلوں کا صفحہ میں پورے انہماک سے پڑھتا تھا۔ ٹینس اور پیراکی میں مجھے خاص دلچسپی تھی۔ پیراکی میں گورنمنٹ کالج کی ٹیم بہت مضبوط تھی۔ حمیر ہاشمی، ثاقب بصیر اور وحید اللہ وائیں چیمپئن پیراک تھے۔ کھیلوں کے صفحے میں اکثر ان کا ذکر ہوتا تھا وہ کالج کے لیے میڈل تواتر سے جیتا کرتے تھے۔ ان تینوں پیراکوں میں وحید اللہ وائیں کا امتیاز یہ تھا کہ اس کے تعلیمی نتائج بھی شاندار تھے۔ وہ کوہ پیما کلب میں تھا، کشتی رانی کا اسے بہت شوق تھا۔ فرسٹ ایڈ گروپ‘ جسے ایمبولینس کلب کہا جاتا تھا‘ کا بھی سرگرم رکن تھا۔ اس وقت کے گورنمنٹ کالج کے طلبہ کی اکثریت پڑھاکو تھی لیکن غیر نصابی سرگرمیاں بھی بہت متنوع تھیں۔ وحید اللہ کو میوزک کا بھی شوق تھا وہ بینجو اور گٹار بہت اچھا بجاتا تھا۔ کالج کے سینئرز کلب کا ممبر ہونا بڑے اعزاز کی بات تھی۔ سینئرز کلب میں کالج یونین کے صدر کے علاوہ چھ ممبر اور ہوتے تھے اور ان کی تعیناتی کالج کونسل کی منظوری سے ہوتی تھی۔ 1964 میں وحید اللہ وائیں کوہ پیمائی کے سلسلے میں لاہور سے باہر تھے کہ سینئرز کلب کی تشکیل ہوئی اور اس میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔ وحید اللہ نے سیدھے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد کے آفس کا رخ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے دفتر کے دروازے طلبہ کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ وحید اللہ نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میرا نام سینئرز کلب میں نہیں اور کالج میں میری سرگرمیاں آپ کو معلوم ہیں۔ اب مشکل یہ تھی کہ سات ممبر انائونس ہو چکے تھے اور رولز میں آٹھویں کی گنجائش نہیں تھی۔ ڈاکٹر نذیر احمد عظیم انسان تھے انہیں فوراً احساس ہوا کہ وحید اللہ جیسے منفرد سٹوڈنٹ کو اس کا حق نہیں ملا؛ چنانچہ کالج کونسل کا اجلاس بلایا گیا اور رولز میں عارضی تبدیلی کر کے وحید اللہ کو سینئرز کلب کا آٹھواں ممبر بنا دیا گیا۔
ایک اور ناقابل فراموش شخصیت اصغر جاوید ملک کی تھی جو کالج کے چند خلیفوں میں شامل تھے۔ ہر سال فیل ہونا ان کا محبوب مشغلہ تھا اور وہ بھی ایسے کالج میں جہاں معیارِ تعلیم انتہائی شاندار تھا۔ ملک صاحب سکائوٹنگ کلب کے سرگرم رکن تھے۔ دوستیاں لگانا اور گپ شپ ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ گفتگو بہت دلچسپ کرتے تھے۔ پورے لاہور کے کالجوں میں ان کے دوست تھے۔ کالج لائف سے انہیں اس قدر لگائو تھا کہ کم و بیش دس سال گورنمنٹ کالج میں رہے۔ ایم اے کرنے کے بعد صوبائی اور فیڈرل سطح کے تمام امتحان دیے اور سب میں فیل ہوئے۔ حکومت پنجاب کی ملازمت کی لیکن اپنے کالج کے چکر باقاعدگی سے لگاتے رہے۔ کالج کے اکثر طالبعلم انہیں جانتے تھے۔ لاہور سے باہر والے دوستوں کو متعدد خطوط روزانہ لکھتے، ایسے وفاشعار اور وضع دار لوگ اب کم ہی ہیں۔ گورنمنٹ کالج کی فروٹ شاپ کا ٹھیکا طفیل محترم کے پاس تھا۔ محترم کی تعلیم تو واجبی تھی لیکن اس کے ہاتھ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب ضرور ہوتی تھی۔ خیالات کے لحاظ سے سوشلسٹ تھا۔ اپنے گاہکوں کے ساتھ اس کی دوستی پکی تھی ایک دفعہ وحید اللہ اور خالد عباس ڈار کوہ پیمائی کے لیے شمالی علاقوں کو جا رہے تھے کہ محترم صاحب خاص فرمائش کر کے ساتھ ہو لئے۔ ایسا فروٹ شاپ اونر میں نے اور نہیں دیکھا۔نوید رحمن، شمیم احمد اور نگار احمد لڑکیوں میں ممتاز تھیں۔ ڈراما کلب میں آگے آگے ہوتی تھیں۔ ان میں سے نگار احمد اس لیے بھی ناقابل فراموش ہیں کہ یونیورسٹی میں ایم اے اکنامکس میں اول آئیں۔ عورت فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے خواتین کے حقوق کا دفاع کیا، چند سال پہلے انتقال ہوا۔ اللہ انہیں جنت نصیب فرمائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں