"JDC" (space) message & send to 7575

نو منتخب امریکی قیادت اور مڈل ایسٹ

مڈل ایسٹ کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی کے چار رہنما اصول ہیں: اول یہ کہ اسرائیل کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ دوم‘ ایران کے خطے میں اثر و رسوخ پر کنٹرول ہونا چاہیے۔ سوم‘ حربی سازو سامان کی فروخت کے لیے امیر خلیجی ممالک بہترین مارکیٹ ہیں‘ لہٰذا ان ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں اور چہارم تیل کی بلا رکاوٹ ترسیل کے لیے بھی خلیجی ممالک اہم ہیں۔ دوسری جانب یہ ممالک ایران سے خائف ہیں‘ اس لئے انہیں تحفظ فراہم کرنا گویا ایک تیر سے دو شکار کرنے کے مترادف ہے‘ لہٰذا بحرین اور قطر میں امریکی بحری اور فضائی بیسز موجود ہیں۔ 
یاد رہے کہ 2017ء میں صدارت سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ نے سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا تھا۔ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں کسی نئی جنگ کا آغاز نہیں کیا، مگر موصوف اسرائیل کے لیے بہت نرم گوشہ رکھتے تھے۔ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرانے میں صدر ٹرمپ کا ڈائریکٹ رول تھا۔ ان کے آنے تک عرب ممالک اپنے اندرونی خلفشار کی وجہ سے خاصے کمزور ہو چکے تھے۔ مصر اور عراق میں پہلے والا طمطراق ختم ہو چکا تھا‘ لیبیا عملاً دو حصوں میں منقسم تھا‘شام میں خانہ جنگی کی سی کیفیت تھی اور روس، ترکی اور ایران اپنا اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے تھے‘ جبکہ دو بڑے خلیجی ممالک یمن کی جنگ میں فریق بن چکے تھے اور خلیجی ممالک میں ایران کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس عروج پر تھا۔ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کیا تو ان ممالک نے سُکھ کا سانس لیا۔ذرا غور کریں کہ ان سب عوامل نے اسرائیل کو بھی خطے کی طاقتور اور پائیدار حقیقت بنا دیا ہے۔
اور اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر بائیڈن کے آنے سے امریکی پالیسی کس حد تک بدلے گی۔ جن چار رہنما اصولوں کا ا وپر ذکر کیا گیا ہے وہ جوں کے توں رہیں گے‘ اس لیے کہ ان چاروں پر امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے۔ اسے امریکہ میں بائی پارٹیزن سپورٹ(Bipartisan Support) کہا جاتا ہے اور یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ امریکی عوام اب بیرون ملک جنگوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ شام میں امریکی عسکری وجود اب برائے نام ہے۔ عراق میں بھی چند ہزار فوجی رہ گئے ہیں۔ افغانستان سے واپسی کا عمل جاری ہے۔ صدر بائیڈن کے عہد میں یہ عمل جاری و ساری رہے گا ‘ لیکن اختلافی نقطۂ نظر بھی سامنے آئے گا کیونکہ جلد بازی میں عراق اور افغانستان سے مکمل انخلا کئی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
ایران کے ساتھ امریکہ کا ایٹمی معاہدہ 2015ء میں ہوا تھا جب بائیڈن نائب صدر تھے۔ اب امید کی جا رہی ہے کہ یہ معاہدہ کسی نہ کسی شکل میں بحال ہو جائے گا۔ صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے کنارہ کشی کی تو اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اسرائیل کے لیے بہت ہی نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ان کے داماد جیرڈ کشنر(Jared Kushner) نے اعلانیہ اسرائیل کے لیے وائٹ ہائوس میں بیٹھ کر کام کیا۔ اسرائیل نے ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کے لیے بہت شور مچایا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ایران کی جوہری طاقت مشرقِ وسطیٰ کے امن کو تباہ کر دے گی اور پھر خلیجی ممالک نے بھی اسرائیلی رائے کی پر زور حمایت کی حالانکہ ایران کے ایٹمی طاقت بننے کے آثار اب بھی دور دور تک نظر نہیں آتے اور 2015ء کے معاہدے نے تو ایران کے ایٹمی پروگرام کو خاصا محدود کر دیا تھا۔
ایران کی خواہش ہے کہ 2015ء کا معاہدہ من و عن بحال ہو جائے لیکن ایسا فوری طور پر ممکن نہیں ہوگا۔ صدر بائیڈن پر اسرائیلی لابی اور خلیجی ممالک کا شدید دبائو ہو گا کہ وہ ایران پر لگی ہوئی پابندیوں کو ختم نہ کریں اور نہ ہی ایٹمی معاہدہ بحال کریں۔ دوسری جانب ایران کی شرط یہ ہے کہ معاہدہ اسی شکل میں بحال کیا جائے جس شکل میں 2015ء میں دستخط ہوئے تھے۔ ایران میں اگلے سال جون میں صدارتی الیکشن ہیں اس لیے ایرانی قیادت اور صدر روحانی کے لیے زیادہ لچک دکھانا ممکن نہیں ہو گا۔ امریکی کانگریس بھی پابندیاں مکمل طور پر ختم کرنے کی حمایت نہیں کرے گی۔ جب صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی تو بائیڈن نے اسے بہت بڑی غلطی قرار دیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران بائیڈن نے کہا تھا کہ صدر اوباما کی صدارت کے آخری ایام میں ایران کے پاس صرف 300 کلو گرام کے لگ بھگ افزودہ یورینیم تھی‘ آج اس کی مقدار آٹھ گنا بڑھ گئی ہے۔ ایٹمی معاہدے نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو بہت محدود کر دیا تھا، جبکہ معاہدہ ختم ہونے کے بعد ایران شرائط سے آزاد ہو گیا ہے؛ البتہ اس بات کی قوی امید ہے کہ صدر بائیڈن جلد ہی انسانی بنیادوں پر ایران کی کورونا کا مقابلہ کرنے کی استطاعت میں اضافہ کرنے کے لیے قدام کریں گے۔
ڈیموکریٹک پارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کی علمبردار ہے اس زاویے سے دیکھا جائے تو خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں ٹرمپ کے عہد کی گرمجوشی شاید اب نظر نہ آئے اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ صدر بائیڈن خلیج کے دو بڑے ممالک پر یمن کی جنگ ختم کرنے کے حوالے سے دبائو ڈالیں یا کم از کم امریکی رول یمن میں کم کر دیں۔ بہر صورت اسلحہ کے خریدار اور تیل کی بلا رکاوٹ سپلائی کے لحاظ سے خلیجی ممالک کی اہمیت ختم نہیں ہو گی گو کہ امریکہ اپنی کھپت کا 60 فیصد تیل اب خود پیدا کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کا فارن افیئرز کو چلانے کا انداز خاصا نرالا تھا۔ اب سٹائل روایتی اور ادارہ جاتی ہو گا۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یعنی امریکی فارن آفس کی رائے اب زیادہ غور سے سنی جائے گی۔ فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد بحال ہونے کا قوی امکان ہے اور مشرقی القدس میں امریکی قونصلیٹ بھی دوبارہ کھل جائے گا۔ رملہ میں فلسطینی اتھارٹی سے ڈیل کرنا اسی قونصلیٹ کا کام ہو گا۔
ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کے وقت بائیڈن نائب صدر تھے‘ قارئین کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ یہ واقعہ جولائی 2016ء میں ہوا تھا۔ ترک قیادت کو یقین تھا کہ بغاوت میں امریکہ میں مقیم مشہور ترک شخصیت فتح اللہ گولن کا ہاتھ تھا۔ امریکہ سے گولن کو ڈی پورٹ کرنے کی درخواست کی گئی لیکن امریکہ نے اسے نظر انداز کیا؛ چنانچہ تعلقات میں تنائو آیا۔ صدر ٹرمپ کے عہد میں دو طرفہ تعلقات میں کچھ بہتری ضرور آئی لیکن لگتا ہے کہ صدر بائیڈن کے عہد میں ترکی کے ساتھ گرمجوشی والا ماحول واپس نہیں آئے گا۔ صدر اردوان کے عہد میں ترکی کے دو بڑے خلیجی ممالک اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں واضح تنائو نظر آیا ہے۔ اس کے برعکس ترکی اور روس کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
صدر بائیڈن کو مسلمان ووٹ خاصی تعداد میں ملا ہے۔ امریکہ میں مقیم فلسطینی بھی ان کی حمایت میں آگے آگے نظر آئے تو‘ کیا اگلے چار سال میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھایا جائے گا؟ میں اس بارے میں اتنا پُر امید نہیں ہوں‘ اس لیے کہ عربوں کی طاقت بھی اب کم ہے اور اتحاد کا فقدان بھی ہے۔ اسرائیل پہلے سے زیادہ پر اعتماد ہے۔ صدر بائیڈن کے عہد میں اسرائیل اور مزید عرب ممالک کے مابین تعلقات استوار ہوں گے‘ البتہ ایک چیز واضح نظر آ رہی ہے کہ اب خطے میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ چند غلط فہمیوں والا موجودہ دور عارضی ہے۔ تفصیل پھر سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں