"JDC" (space) message & send to 7575

باتیں چند سفارت کاروں کی

پاکستان ایک اہم اور حساس خطے میں واقع ہے‘ اس کے علاوہ ہم نے آزادی برطانوی سامراج سے بھی لی اور ہندوؤں کے تسلط سے بھی‘ لہٰذا بات کشمیر کے حوالے سے ہو یا گرم پانیوں تک سوویت یونین کی رسائی کے خواب سے منسلک‘ ہماری سکیورٹی کو لاحق خدشات کبھی کم نہیں ہوئے۔ اسی لیے اپنی بقا کے لیے کبھی پاکستان مغربی طاقتوں کا حلیف بنا تو کبھی چین کا قریبی ساتھی۔ بقا کے اس سفر میں چند قابل اور با صلاحیت سفارت کار ہمارے ممد و معاون ثابت ہوئے۔
وزارت خارجہ کے بارے میں عامۃ الناس کے اذہان میں ابہام اکثر نظر آتا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وزارت فارن پالیسی بناتی ہے ‘ جو کہ درست نہیں کیونکہ فارن پالیسی کئی ادارے مل کر بناتے ہیں۔ چند لوگوں کا خیال ہے کہ فارن آفس باہر کے ممالک کے ویزے لے کر دیتا ہے‘ یہ بات بھی صائب نہیں کیونکہ ویزہ دینا یا نہ دینا ہر ملک کا اپنا اختیار ہے۔ کوئی پرانی بات نہیں ایک وزیر صاحبہ گویا ہوئیں کہ فارن منسٹری والے صرف اچھے سوٹ اور کلف لگے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان سے کسی کو پوچھنا چاہئے تھاکہ خوش پوشی میں کیا برائی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وزارت خارجہ ہمارے تمام بیرونی مفادات کا دفاع کرتی ہے۔ بیرون ملک سفارتخانے ہمارے دفاعی‘ تجارتی‘ سیاسی‘ مالیاتی مفادات کے پاسبان ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ‘ پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت‘ ٹورازم کی پروموشن پاکستان کے مثبت امیج کی پروجیکشن اور اہم شخصیات سے رابطہ یہ سب کام سفارت خانوں کے کرنے کے ہیں۔ سفارت کاری ملک کی پہلی دفاعی لائن ہوتی ہے۔ حساس خارجی معاملات پر حکومت مشاورت بھی وزارتِ خارجہ سے کرتی رہتی ہے۔اس تمہید کے بعد آتے ہیں چند قابلِ ذکر سفارتکاروں کی جانب جو ہمارے موجودہ سفارت کاروں کیلئے آج بھی رول ماڈل ہیں۔ جمشید مارکر گو کہ فارن سروس سے نہیں تھے لیکن ان کا ذکر بے حد ضروری ہے کیونکہ وہ تیس سال تک دس ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے‘ جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ انہوں نے گھانا‘ رومانیہ‘ جرمنی‘ فرانس‘ روس‘ امریکہ‘ اقوام متحدہ اور کئی دیگر ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ شروع میں ان کی وجہ شہرت کرکٹ کی کمنٹری تھی جہاں وہ اور عمر قریشی لازم و ملزوم تھے۔ مارکر صاحب کا تعلق مشہور پارسی صنعت کار گھرانے سے تھا۔ خوش اخلاقی اور اعلیٰ لیاقت ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ جن لوگوں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے وہ آج بھی ان کا ذکر احترام سے کرتے ہیں۔ ہر عید پر سارے سٹاف کو خود عیدی دیتے تھے۔ جب افغانستان کے بارے میں جنیوا مذاکرات ہو رہے تھے تب وہ واشنگٹن میں سفیر تھے‘ اس سے پہلے وہ ماسکو میں سفارت کر چکے تھے اور سوویت لیڈر شپ سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ جنیوا مذاکرات کی کامیابی کے لیے پس پردہ رول ادا کرتے رہے۔
آغا شاہی پاکستان کی سفارتی تاریخ کا بہت اہم نام ہے۔ پاک چین دوستی استوار کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے معاون رہے۔ 1979ء میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان کی سفارتکاری کا بڑا امتحان شروع ہوا۔ آغا شاہی ان دنوں وزیر خارجہ تھے۔ وہ امریکہ کیلئے زیادہ نرم گوشہ نہیں رکھتے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ امریکہ قابل اعتماد دوست نہیں لہٰذا ہمیں امریکہ کے ساتھ اتنا آگے نہیں بڑھنا چاہیے کہ کابل اور ماسکو کی مخاصمت مول لے لیں۔ جنرل ضیا الحق کے افکار البتہ مختلف تھے‘ وہ سمجھتے تھے کہ امریکہ کو بڑا رول دینے سے ہی افغانستان سوویت تسلط سے آزاد ہو گا اور پاکستان کو مالی اور عسکری امداد ملے گی‘ لیکن دل ہی دل میں سوچتے ہوں گے کہ اس سے میرے اقتدار کو طوالت بھی ملے گی۔ شاہی صاحب نے جنرل ضیا الحق کی رائے کی مخالفت کی‘ لہٰذا جلد ہی انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔ آج جب ہم سوچتے ہیں کہ افغانستان کی دلدل میں گھس کر ہمیں کیا ملا تو ہمیں آغا شاہی کی فراست کی قدر کرنا پڑتی ہے۔
عبدالستار مرحوم پاکستان کے سفارتی سفرکا اہم کردار ہیں۔ دو مرتبہ انڈیا میں ہائی کمشنر رہے۔ فارن سیکرٹری بنے‘ جو کہ فارن سروس کے افسران کے لیے اعلیٰ ترین عہدہ ہے۔ مشرف کے دور میں وزیر خارجہ رہے۔ ستار صاحب اپنی لیاقت ‘ ایمانداری اور کفایت شعاری کیلئے مشہور تھے۔ شملہ معاہدہ کیلئے گرائونڈ ورک محنت سے کیا۔ نیو دہلی میں سفارت کے دوران مرسڈیز کار چھوڑ کر سستی گاڑی خریدی۔ فارن سیکرٹری بنے تو سفیروں کو مرسڈیز خریدنے سے منع کر دیا۔ ہندوستانیوں سے دو ٹوک بات کرتے تھے‘ اس لیے انڈیا میں کچھ اہم لوگ انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی رویے کو دیکھ کر انڈیا میں دوسری سفارت کے دوران خود اپنی حکومت سے درخواست کی کہ مجھے واپس بلا لیا جائے‘ یہاں کچھ لوگ مجھ سے الرجک ہیں اور یہ ان کی پیشہ ورانہ عظمت کی دلیل تھی ورنہ کون سفارت چھوڑتا ہے۔ستار صاحب جنرل ضیا کے زمانے میں فارن سیکرٹری تھے۔ آئین کی بالادستی پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ ان کی مصمم رائے تھی کہ منتخب وزیراعظم محمد خان جونیجو کو اہم فیصلے کرنے کا حق ہے۔ جونیجو صاحب اور ستار صاحب اس بات پر متفق تھے کہ ہمیں جنیوا معاہدے پر دستخط کر کے افغانستان میں امن کی راہ جلد از جلد ہموار کر دینی چاہیے جبکہ جنرل صاحب کا مصمم ارادہ تھا کہ کابل میں کوئی آپس میں فیصلہ ہو جائے اور ڈھنگ کی حکومت بن جائے تبھی جنیوا معاہدے پر دستخط ہوں۔ ادھر سوویت یونین میں بھی سٹنگر میزائلوں کے مزید وار سہنے کی سکت نہیں رہی تھی‘ لہٰذا انہیں بھی افغانستان سے نکلنے کی جلدی تھی۔ جنیوا معاہدہ ہو گیا اور سول ملٹری تعلقات میں دراڑ آئی مگر ستار صاحب اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ جنرل ضیا الحق کی ناراضی بھی انہیں رائے تبدیل کرنے پر مجبور نہ کر سکی۔مشرف دور کا آغاز ہوا تو ستار صاحب کو وزیر خارجہ بنایا گیا۔ انعام الحق سیکرٹری خارجہ تھے‘ جو ایک قابل‘ نڈر اور با اصول افسر مشہور تھے۔ انہیں اطلاع ملی کہ مشرف اپنے چند افسر فارن آفس میں لگانا چاہتے ہیں۔ دونوں نے مشورہ کیا اور متفق رائے یہ تھی کہ ایسا قدم فارن آفس کے افسروں کے مورال کیلئے اچھا نہیں ہو گا؛ چنانچہ دونوں تحریری سمری تیار کر کے حاکم وقت کے پاس گئے‘وہاں سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ انعام صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ سر اگر آپ نے فارن آفس میں اپنے افسر متعین کرنے ہیں تو کوئی اور فارن سیکرٹری تلاش کرلیں اور معاملہ وہیں دب گیا۔ جنرل مشرف کی بھی بڑائی تھی کہ بات دل میں نہیں رکھی ‘ انعام صاحب نے اپنی مدت مکمل کی اور کچھ عرصے کیلئے مشرف حکومت میں ہی وزیر مملکت بھی رہے۔
وزیراعظم بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں ڈاکٹر ہمایوں خان سیکرٹری خارجہ تھے۔ وزیراعظم آفس کی طرف سے ایک خاتون کو نیویارک میں قونصل جنرل لگانے کا حکم آیا۔ یہ خاتون وزیراعظم کے خاصا قریب تھیں‘ سیکرٹری خارجہ نے جواب میں لکھا کہ قونصل جنرل کوئی حاضر سروس افسر ہی بن سکتا ہے‘ نجی شعبے کے کسی شخص کا تعین خلاف ِقانون ہو گا۔ ڈاکٹر ہمایوں خان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا‘ لیکن وہ خاتون بھی نیویارک نہ جا سکیں۔دسمبر 2007ء میں محترمہ بینظیر بھٹو راولپنڈی میں دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔اگست 2008ء میں زرداری صاحب صدر بنے تو ان کی رائے تھی کہ جہاں قتل کی اور انکوائریاں ہوئی ہیں تو ایک تفتیش اقوام متحدہ سے بھی کرا لی جائے۔ اس وقت ریاض محمد خان سیکرٹری خارجہ تھے۔ فارن آفس سے کہا گیا کہ اقوام متحدہ کو ٹیم بھیجنے کیلئے اپروچ کیا جائے۔ ریاض محمد خان اعلیٰ پائے کے قابل افسر تھے‘ وہ اس تجویز کے سخت مخالف تھے کیونکہ اقوام متحدہ کی انکوائری کسی صورت بنتی ہی نہیں تھی۔ ریاض صاحب اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے اور انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ یو این کی ٹیم آئی۔ انکوائری ہوئی‘ خزانے کی خطیر رقم ضائع ہوئی اور نتیجہ صفر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں