"JDC" (space) message & send to 7575

تسلیم کریں یا نہ کریں؟

عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے بعد یہ سوال پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے پھر سے اہم ہو گیا ہے کہ ہمیں کیا مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان پر کچھ دبائو ہے لیکن ساتھ ہی ان کا مؤقف تھا کہ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں دیتا پاکستان اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ ماضی میں یہی سٹینڈ اکثر عرب ممالک کا تھا لیکن اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور ہمارے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ صورت حال پر مسلسل نظر رکھیں۔
اسلام آباد کے ایک مؤقر تھنک ٹینک نے اس موضوع پر بحث کرنے کے لیے ایک نشست کا اہتمام کیا اور مجھے سامعین سے گفتگو کرنے کی دعوت دی۔ میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ کہا کہ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا آغاز پارلیمنٹ میں مباحثے سے کرنا چاہیے۔ اہم سٹیک ہولڈر اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو بریف کر سکتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس بارے میں سوچ بچار ہونی چاہئے۔ بہر حال یہ عمل بتدریج ہونا چاہیے اور قطعاً ضروری نہیں کہ ہم فلسطین کے بارے میں اپنا اصولی سٹینڈ ترک کر دیں۔
میرا استدلال یہ تھا کہ فارن پالیسی کے بنیادی اصولوں میں ملکی بقا، سلامتی اور دفاع، معاشی ترقی شامل ہیں۔ اسرائیل موجودہ دور کی ایک حقیقت ہے جسے اب کچھ عرب ممالک بھی تسلیم کر رہے ہیں۔ میں فارن آفس کا حصہ رہا ہوں اور اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں کہ فارن پالیسی میں کچھ تلخ حقیقتوں کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً پاکستان کو بیرونی جارحیت کے ذریعے دولخت کیا گیا اور نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا‘ لیکن پاکستان نے نہ چاہتے ہوئے بھی بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا۔ انڈیا کے ساتھ ہمارے بے شمار اختلافات ہیں لیکن ہمارے سفارتی تعلقات قائم ہیں اور ہم کشمیر پر اپنے اصولی مؤقف سے بھی نہیں ہٹے۔
میرا ایک اور استدلال یہ تھا کہ پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ صرف بیرونی قرضہ ایک سو بارہ (112) ارب ڈالر ہے۔ داخلی قرضہ اس سے تقریباً ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ دونوں قسم کے قرضوں کو ملائیں تو ٹوٹل رقم ہماری سالانہ آمدنی سے زائد ہے‘ لہٰذا پاکستان کو فی الوقت مزید اقتصادی امداد کی بھی ضرورت ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری بھی بھاری حجم کے ساتھ ہماری معیشت میں ہونی چاہیے اور ہمیں اپنی برآمدات کو بھی بڑھانا ہے کیونکہ اس سے اقتصادی ترقی کو تحریک ملتی ہے۔
اقتصادی لحاظ سے چار ملک ہمارے لیے بہت اہم ہیں اور وہ ہیں امریکہ، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔ ان میں سے تین کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات ہیں اور سعودی عرب تسلیم کئے بغیر کئی شعبوں میں اس سے تعاون کر رہا ہے اور اس میں سعودی فضائی حدود کا استعمال بھی شامل ہے۔ اس وقت تقریباً اسی لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں اور ان میں سے نصف صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کام کر رہے ہیں۔ زر مبادلہ کی ترسیلات میں ان دونوں ممالک میں مقیم پاکستانی سب سے آگے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کا ایک رہنما اصول ''سب سے دوستی اور کسی سے دشمنی نہیں‘‘ ہے۔ آج کے مشکل حالات میں ہمیں سب سے بنا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پھر اپنے دفاع کے لیے ہمیں عسکری ساز و سامان کی ضرورت ہے اور اسرائیل ملٹری ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر کا بڑا ایکسپورٹر ہے۔ 
اسرائیل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہماری حکومتیں بعض تحفظات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ صدر پرویز مشرف واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حق میں تھے لیکن اسی خوف کی وجہ سے وہ کوئی بڑا فیصلہ نہ کر پائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم فیصلے سڑکوں پر جذباتی نعرے لگانے والوں کے حوالے کر دینے چاہئیں؟ قطعاً نہیں کیونکہ مملکت کے اہم فیصلے ٹھنڈے دل اور لمبی سوچ بچار کے بعد ہونے چاہئیں اور اس فکری عمل اور بحث مباحثے کے لیے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے۔
تقریب میں میرے سامعین اچھے پڑھے لکھے لوگ تھے۔ ان میں ریسرچ سکالر، ریٹائرڈ ملٹری افسر اور سفارت کار شامل تھے۔ مجھے احساس تھا کہ اس موضوع پر جو کلیئر کٹ پوزیشن میں نے لی ہے وہ شاید سامعین میں زیادہ مقبول نہ ہو؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سوال جواب کے دوران سامعین نے اپنے تحفظات کا اظہار صراحت کے ساتھ کیا۔
پہلا سوال یہ تھا کہ خلیجی حکمرانوں کو ایران سے خدشات لاحق ہیں۔ ایک دو ممالک میں آبادی کی فرقہ وارانہ ہیئت ایسی ہے کہ وہاں ایران کا اثر و رسوخ ہے لہٰذا یہ ممالک اور ان کے لیڈر اپنے تحفظ کی خاطر اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہے ہیں‘ پاکستان کو تو ایران سے کوئی خطرہ نہیں لہٰذا خلیجی حکمرانوں والی مجبوری ہمیں لاحق نہیں ہے اس لئے ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کی عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرا سوال تھا کہ سوڈان نے تو اسرائیل کو تسلیم کر کے اپنے اوپر لگی پابندیاں ختم کرا لیں پاکستان کو ایسا کرنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ کیا ہمارا بھی قرضوں کا بوجھ کم ہو جائے گا اور پھر سوال کنندہ نے خود ہی کہہ دیا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔
ایک سینئر ریٹائرڈ ملٹری افسر کا کہنا تھا کہ اسرائیل اگر سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد پاکستان کو حربی سامان ایکسپورٹ کرنا بھی چاہے تو امریکہ اسے روک سکتا ہے اور یہ کہ انڈیا اور اسرائیل کے تعلقات اب اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ انڈیا کو اگنور کر کے اسرائیل پاکستان کی اس طرح کی حساس مدد نہیں کرے گا جس سے انڈیا کو نقصان پہنچے۔
میری رائے یہ ہے کہ اسرائیل کے بارے میں سوچ بچار کرنے سے پاکستان کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہو گا۔ اس طرح مغربی ممالک میں ہمارا امیج بہتر ہو سکتا ہے۔ ہمارے سفارت کار جو امریکہ میں کام کر چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہاں اسرائیلی لابی اتنی سٹرونگ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی بہتری میں حائل ہوتی رہتی ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے مغربی ممالک ہمارے لیے اہم ہیں۔ چین اور ترکی ہمارے با اعتماد دوست ہیں۔ دونوں کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں بلکہ ترکی نے تو حال ہی میں اپنے سفیر کو واپس تل ابیب بھیجا ہے۔ یہ دونوں ممالک فلسطینی حقوق کے پُر جوش حمایتی بھی ہیں۔ اسی طرح پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر بھی فلسطینی بھائیوں کی حمایت جاری رکھ سکتا ہے۔
فارن پالیسی کو متحرک ہونا چاہیے جامد نہیں خصوصاً موجودہ حالات میں جب دنیا میں صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، اسرائیل سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے اور بارانی زراعت اور کم پانی سے فصلیں اگانے کو خوب سمجھتا ہے۔ ہم اس کے اس تجربے سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 
عنقریب اسرائیل اور خلیجی ممالک کے مابین بڑے پیمانے پر تجارت شروع ہو جائے گی اور اس لحاظ سے بحیرۂ عرب کی تجارتی سکیورٹی پاکستان کے مفاد میں ہو گی۔ عرب تنازعات اور معاملات کے بارے میں ہماری پالیسی یہ رہی ہے کہ ہم ان کے تنازعات میں فریق نہیں بنیں گے؛ البتہ تنازعات کے حل کے لیے عرب اکثریت کے فیصلوں کا ساتھ دیں گے اور یہ صائب پالیسی ہے اس پالیسی کی روشنی میں ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ معروضی حالات کی روشنی میں کرنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں