"JDC" (space) message & send to 7575

دولے شاہ کے چوہے

کسی بھی قوم سے بدلہ چکانے کا تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ اس کا تعلیمی نظام خراب کر دیا جائے اور اگر قوم خود باوصف ہو‘ گھوسٹ سکول بنانا جانتی ہو‘ نقل کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں ماہر ہو تو پھر کیا ہی بات ہے۔ وطن عزیز میں کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ پچیس تعلیمی پالیسیاں اب تک آ چکی ہیں لیکن ہم 1947 سے لے کر اب تک ڈاکٹر عبدالسلام‘ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے علاوہ کوئی انٹرنیشنل لیول کا معروف سائنس دان پیدا نہیں کر سکے۔ اپنا دارالحکومت بنانے کے لیے ہمیں ٹائون پلانر یونان سے امپورٹ کرنا پڑا۔ فیض احمد فیض کے بعد ہم بین الاقوامی شہرت والا کوئی شاعر بھی پیدا نہ کر سکے۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پاکستانیوں کا شمار دنیا کی ذہین اقوام میں ہوتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ ہمارا ملک تعلیم میں پیچھے رہ گیا ہے جبکہ یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ اچھی تعلیم اور اقتصادی ترقی لازم و ملزوم ہیں۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہماری تعلیم کی پس ماندگی کی بڑی وجہ وسائل کی کمی ہے‘ یعنی ہمارا تعلیم کے شعبے کا بجٹ کم ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن اس کے علاوہ اور بھی وجوہات ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ ہوتی ہے، اسی طرح تعلیم کا میدان بھی کرپشن سے پاک نہیں۔ چند ادارے پی ایچ ڈی کرانے کے لیے جو ماہرانہ کرتب کرتے ہیں وہ اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ چند سال پہلے مجھے آفر ہوئی کہ ایک فارنر پاکستان پی ایچ ڈی کرنے آیا ہوا ہے‘ اس کی انگلش کمزور ہے‘ اگر آپ اس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ (Thesis) لکھ دیں تو معقول معاوضہ ملے گا۔ ظاہر ہے کہ اس سارے ریکٹ میں اس فارن سٹوڈنٹ کے علاوہ کچھ پاکستانی اور ایک یونیورسٹی بھی شامل ہو گی۔ بہرحال میں نے انکار کر دیا اور کافی دیر حالتِ صدمہ میں رہا۔ تعلیمی اداروں سے کرپشن ختم کرنا از حد ضروری ہے۔
ہمارا معاشرہ فکری تنوع اور آزادیٔ رائے کا مخالف ہے۔ یہاں فرد کو اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرنے کی آزادی بھی کم کم ہے۔ ہر فرد اپنی زندگی میں دو اہم فیصلے کرتا ہے۔ ایک یہ کہ اس نے پیشہ کیا اختیار کرنا ہے اور دوسرے اس نے شادی کس سے کرنی ہے۔ ہمارے ہاں روایتی طور پر یہ دونوں فیصلے والدین کیا کرتے تھے۔ دیہی سماج میں آج بھی پسند کی شادی کرنے پر لڑکیاں قتل کر دی جاتی ہیں۔ تو جس معاشرے میں فرد کو اپنی زندگی کی پلاننگ کرنے کی بھی اجازت نہ ہو وہی فرد بڑا ہو کر قومی پلاننگ کیسے کرے گا۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں ذرا ہٹ کے سوچنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ بقول احمد ندیم قاسمی؎
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا حد نظر سے آگے دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے
تو جناب جب تک فکری آزادی نہیں آئے گی، کیوں اور کیسے پوچھنے کا اختیار فرد کے پاس نہیں ہو گا تو فکری ترقی ممکن نہیں ہو گی۔ سوچ پر پابندی اور سوالوں پر قدغن معاشرے کو بند تالاب بنا دیتی ہیں جس سے جلد یا بدیر بو آنے لگتی ہے۔ مشہور برطانوی ماہر ریاضیات اور فلاسفر برٹرینڈ رسل (Bertrand russel) نے ایک مسیحی معاشرے میں آنکھ کھولی اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ بیسویں صدی کے وسط میں رسل نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Why I am not a christian لکھی۔ کیا اس قسم کی کوئی کتاب ہمارے ہاں لکھی جا سکتی ہے اور اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یورپ میں علم و دانش کا احیا تب ہی ممکن ہوا جب ریاست اور کلیسا ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے۔
ہمارے تعلیمی نظام میں نصابی مواد کو یاد کرنا بلکہ رٹا لگانا بہت ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس عمل سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ امریکی نظام تعلیم میں تحریری امتحان کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں طالب علم کی روزانہ کی پرفارمنس کو دیکھا جاتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کا شمار دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ نوبل انعام جیتنے والے سب سے زیادہ امریکہ میں ہیں۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کا تعلیمی نظام طوطے پیدا نہیں کرتا۔
ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اچھے اساتذہ کم ہیں اور ہمارا معاشرہ چونکہ جبر والا معاشرہ ہے لہٰذا لوگ سکول ٹیچر کے بجائے تھانیدار اور پٹواری کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ میری بہو امریکہ میں ہائی سکول ٹیچر ہے اور اسے اس بات پر فخر ہے۔ اپنی ہی زندگی کا دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ 1970ء کی بات ہے‘ میں لاہور میں ایک کالج میں پڑھاتا تھا اور میرا چھوٹا بھائی آرمی آفیسر تھا۔ ایک دن میری والدہ مجھے کہنے لگیں کہ پچھلے چند دنوں سے کچھ لڑکیوں کے والدین ہم سے رابطہ کر رہے ہیں، لیکن ان میں نے اکثر تمہارے چھوٹے بھائی سے رشتہ کرنا چاہتے ہیں‘ لہٰذا تم جلد از جلد سی ایس ایس کا امتحان دو؛ چنانچہ ہم نے والدین کی اطاعت کی‘ لیکن میری تدریس کے پیشے کو چھوڑنے کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں ریسرچ نہ ہونے کے برابر تھی۔ دو چار معروف نصابی کتابیں تھیں جو میں نے تین سال طلبا کو پڑھائیں اور محسوس کیا کہ ساری عمر یہی کام کرنا بہت ہی بور عمل ہو گا۔ ہمارے ہاں تدریس کے شعبے میں جدت بہت کم ہے۔
پاکستان میں گورنمنٹ سکولوں کا نظام بالکل بیٹھ گیا ہے۔ تدریس کا شعبہ ایک منظم کاروبار بن گیا ہے۔ سکول‘ ٹیچر اور کالج کے پروفیسر اب پرائیویٹ اکیڈمیاں چلا رہے ہیں۔ اور تو اور اب سی ایس ایس کی تیاری کے لیے بھی اکیڈمیاں بن گئی ہیں۔ میٹرک اور ایف ایس سی میں ہر مضمون کے ایم سی کیو (MCQ) زبانی یاد کرا دیئے جاتے ہیں۔ زبوں حال گورنمنٹ سکولوں کا خلا ایک حد تک پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں نے پورا کیا ہے۔ کیمبرج کا او اور اے لیول (O & A level) یقینا بہتر ہے کیونکہ امتحانوں کے پرچے انگلینڈ سے بن کر آتے ہیں اور ان میں ہر سال جدت لائی جاتی ہے‘ لیکن پرائیویٹ سکولوں کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ غریب آدمی وہاں بچہ بھیجنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
میرے دوست ڈاکٹر خالد آفتاب گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل رہے اور بعد میں جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی۔ کالج کے کچھ پروفیسر شام کو ٹیوشن سنٹر چلاتے تھے اور خوب کماتے تھے۔ خالد صاحب نے ڈانٹ ڈپٹ کی کیونکہ یہ پروفیسر کالج میں جان بوجھ کر محنت سے نہیں پڑھاتے تھے مگر تنخواہ پوری وصول کرتے تھے۔ جب وارننگ کے باوجود وہ ٹیوشن کے قبیح کاروبار سے باز نہ آئے تو ڈاکٹر صاحب نے محکمہ تعلیم کو لکھا کہ ان پروفیسروں کا کسی اور کالج تبادلہ کر دیا جائے۔ اس وقت کے وزیر تعلیم جی سی پرنسپل کے آفس سفارش کرنے آئے کہ پروفیسرز کے سر سے دست شفقت نہ اٹھایا جائے، یعنی ٹیوشن کا دھندا جاری رہے۔
ہمارے ملک کی نمبر ون یونیورسٹی نسٹ (Nust) ہے اور اس کی بین الاقوامی رینکنگ تین سو پچاس 350 ہے۔ سی ایس ایس کے امتحان میں نوے فیصد سے زائد امیدوار انگلش مضمون (Essay) کے پیپر میں فیل ہوتے ہیں اور جو پاس ہو کر افسر بنتے ہیں سنا ہے وہ بھی غیر ملکی وفود کے سامنے کم اعتمادی کا شکار نظر آتے ہیں‘ اس لیے کہ ہمارا تعلیمی نظام ناقص ہے۔ ہم دانش ور، اعلیٰ سائنس دان اور لیڈروں کے بجائے روبوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ طوطے پڑھا کر ہم لیڈنگ قوم نہیں بن سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں