"JDC" (space) message & send to 7575

آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے!

گزشتہ ماہ ایک نفیس انسان، شاندار سول سرونٹ اور مخلص دوست اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ ریاض الحق جیسے صاف ستھرے، ذہین اور علم دوست لوگ کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔ سرخ و سفید رنگت والا یہ اونچا لمبا انسان اپنی سیرت میں اور بھی خوبصورت تھا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا میری اُن سے اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں واک کرتے ہوئے آخری ملاقات ہوئی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ریاض بھائی اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گے۔ دو ہفتے بعد معلوم ہوا کہ صاحب فراش ہیں۔ فون کیا تو ملازم نے کہا: صاحب کو ڈاکٹروں نے فون پر بھی بات کرنے سے منع کیا ہے۔ چند روز میں ان کے بیٹے اعزاز امریکہ سے آ گئے اور مجھے فون کیا کہ ابو کی صحت بہتر ہے لیکن ہسپتال آنا جانا لگا رہتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ مرض شدید ہے لیکن اطمینان ہوا کہ مرض کا کورونا سے کوئی تعلق نہیں۔
ریاض صاحب کی فیملی 1947ء میں انڈیا سے ہجرت کر کے حیدرآباد سندھ آئی اور جلد ہی یہ لوگ ملتان منتقل ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم ملتان کے لاسال مشنری سکول سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں داخل ہوئے۔ کالج یونین کے صدر منتخب ہوئے‘ رول آف آنر حاصل کیا اور شاندار مارکس لے کر بی اے پاس کیا۔ انگلش مباحثوں میں حصہ لیتے رہے۔ ان کی نصف بہتر یعنی انجم بھابھی بھی اس وقت کی معروف انگلش ڈیبیٹر تھیں۔ بی اے کے بعد ریاض صاحب گورنمنٹ کالج لاہور آگئے اور ایم اے انگلش امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ 1964ء میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں انگلش کے لیکچرر مقرر ہوئے اور دو سال بعد سی ایس ایس کے امتحان میں پورے پاکستان میں اول آئے۔ یاد رہے کہ مشرقی پاکستان کے ذہین و فطین طلبا بھی اس زمانے میں سی ایس ایس کا امتحان شوق سے دیتے تھے۔ سول سروس اکیڈمی میں ایک سالہ تربیت کے بعد فائنل پاسنگ آئوٹ امتحان ہوتا ہے۔ وہ اس میں بھی اول پوزیشن لے کر پاس ہوئے۔
ان کی پہلی پوسٹنگ بطور اسسٹنٹ کمشنر ہالہ سندھ میں ہوئی مگر ایک سال بعد ان کا تبادلہ پنجاب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کر دیا گیا۔ ایک دفعہ سندھ میں اپنی پوسٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ مجھے دو باتیں اب بھی اچھی طرح یاد ہیں‘ ایک یہ کہ ون یونٹ سندھ میں بے حد غیر مقبول تھا اور دوسرے سندھی بھائی بہت شیریں زبان اور رکھ رکھائو والے لوگ ہیں۔
سندھ کے بعد پنجاب میں بھی ان کی پوسٹنگ تقریباً سال بھر ہی رہی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ اس وقت بہت بڑی تحصیل تھی اور اس کا سالانہ مالیہ ایک کروڑ روپے سے متجاوز تھا۔ یہ 1968 کی بات ہے جب پانچ سو روپے بڑی تنخواہ ہوتی تھی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی‘ کسی حد تک بدامنی کا زمانہ تھا۔ ریاض صاحب کو ان کے تحصیلدار نے بتایا کہ شاید اس سال مالیہ کا ہدف پورا نہ ہو سکے۔ ریاض صاحب نے وجہ پوچھی تو پتا چلا کہ چند ایک بڑے بڑے زمیندار ڈیفالٹر ہیں اور انتظامیہ ان پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہے۔ پھر پتا چلا کہ ان بڑے زمینداروں میں ایک شخص صدر ایوب خان کا سابق اے ڈی سی بھی ہے۔ ریاض صاحب نے تحصیلدار کو حکم دیا کہ اس شخص کے گھر پر قرقی کا نوٹس لگا دیا جائے۔ تحصیلدار نے ادب سے کہا کہ صاحب سوچ لیں‘ اس شخص کی پہنچ بہت دور تک ہے۔ ریاض صاحب کا جواب تھا کہ آپ ابھی جا کر قرقی کا نوٹس لگا کر آئیں‘ میری ٹرانسفر پہلے ہی مشرقی پاکستان ہو چکی ہے‘ قانون کی بالادستی ہر صورت میں ضروری ہے۔ چنانچہ قرقی کا نوٹس زمیندار کے گھر کے باہر آویزاں کر دیا گیا اور چند روز میں مالیے کا ہدف بھی پورا ہو گیا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ریاض صاحب ایسٹ پاکستان چلے گئے۔ یہ 1969 کی بات ہے‘ جب عوامی لیگ کی مقبولیت زوروں پر تھی۔ ایک محفل میں ریاض صاحب ایسٹ پاکستان کے بارے میں اپنے تاثرات بتا رہے تھے۔ کہنے لگے کہ وہاں سیاسی شعور مغربی پاکستان سے زیادہ تھا‘ لوگ سیاسی جلسوں میں آنا فرض سمجھتے تھے، سب سے زیادہ ہجوم شیخ مجیب الرحمن کے جلسوں میں ہوتا تھا۔ ساتھ ہی گویا ہوئے کہ بنگالی ہم سے بہتر مسلمان تھے وہاں چونکہ فیوڈل نظام نہیں تھا‘ لہٰذا یہ لوگ عیاش بھی نہ تھے۔ وہاں دو ہی طبقے تھے‘ مڈل کلاس اور غریب لوگ اور غربت انتہا کی تھی۔ ایک دفعہ میں نے ریاض بھائی سے پوچھا کہ مشرقی پاکستان کے سانحے پر سب سے اچھی کتاب کونسی ہے، کہنے لگے حسن ظہیر کی کتاب۔ پھر پوچھا کہ تمہارے پاس یہ کتاب ہے؟ میرا جواب نفی میں تھا۔ اگلے روز ریاض بھائی نے یہی کتاب محبت بھرے الفاظ لکھ کر میرے گھر بھجوا دی۔
سابق فارن سیکرٹری ریاض کھوکھر اکیڈمی میں ریاض الحسن کے 1966 میں ساتھی تھے۔ میں نے ان کے تاثرات پوچھے تو کہنے لگے: انتہائی نفیس انسان، فرض شناس اور وقت کے بے حد پابند۔ میں نے کبھی اس کے منہ سے کسی کی برائی نہیں سنی۔ اس سے زیادہ کسی بشر کی تعریف اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایک اور بات جو میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ ہے کہ ریاض صاحب سے اگر کسی نے سخت بات بھی کر دی تو وہ درگزر کرتے تھے وہ کینہ کے لفظ سے ہی ناآشنا تھے۔ 2010ء میں اسلام آباد میں میرے گھر میں ڈکیتی کی واردات ہوئی۔ ریاض صاحب نے اخبار میں خبر پڑھی اور دونوں میاں بیوی ہمارے گھر آئے‘ تب ہماری ان سے کوئی خاص دوستی بھی نہیں تھی۔ میرے لیے یہ بات ناقابل فراموش ہے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اکثر لوگ سی ایس پی بن کر پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ریاض صاحب کا معاملہ الٹ تھا‘ وہ آخری ایام تک کتابیں پڑھتے رہے۔ ان کی ذاتی لائبریری میں پندرہ سو سے زائد کتابیں تھیں۔ ہسپتال داخل ہوئے تو شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ''کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ ساتھ لے کر گئے۔ وہ کتاب ختم ہوئی تو Brain cloughley کی کتاب A history of Pakistan Army ہسپتال منگوائی۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ اور اچھی موسیقی سننا ان کے محبوب مشغلے تھے۔ مجھے دو بہت اچھے تھنک ٹینکس سے متعارف کرایا۔ پاکستان اکنامک فورم کی ماہانہ میٹنگ میں باقاعدگی سے آتے۔ آرٹ کونسل کے موسیقی اور ڈرامہ کے پروگرام بھی شوق سے اٹینڈ کرتے۔ریاض بھائی وسیع المشرب مسلمان تھے، ایک دفعہ حج کے لیے گئے ہوئے تھے کہ وہاں خواب دیکھا ان کے ملتان والے سکول کی پرنسپل خواب میں آئیں اور کہنے لگیں کہ نیک لوگ ہر مذہب میں ہوتے ہیں۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے ریاض صاحب نے بتایا کہ وہ خاتون گوا (Goa) کی کرسچین تھیں اور خود بہت نیک تھیں۔
ریاض صاحب گیارہ سال ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB) منیلا میں رہے۔ ان کی بیگم یونیسکو (UNESCO) میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہیں۔ بچے دونوں باہر چلے گئے۔ ایک مرتبہ بیٹی کو ملنے کے لیے کینیڈا کے ویزا کے لیے اپلائی کیا تو کینیڈا کے ہائی کمشن نے انکار کر دیا۔ انہیں شک گزرا کہ والدین بھی ملک سے باہر بچوں کے پاس سٹیل ہونا چاہتے ہیں۔ ریاض صاحب نے کینیڈن ہائی کمشنر کو خط لکھا کہ آپ اسلام آباد میں میرے گھر آ کر میرے ساتھ چائے پئیں۔ آپ خود دیکھ لیں گے کہ جو آسائشیں مجھے پاکستان میں میسر ہیں وہ کینیڈا میں نہیں مل سکتیں اور اس میں میرے نصف درجن ملازم بھی شامل ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ نصف درجن ملازمین کی بات ریاض صاحب کو مجبوراً اپنا نقطۂ نظر سمجھانے کے لیے کرنا پڑی‘ ورنہ تواضع اور انکساری ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔ انہوں نے ایک شاندار کیریئر بڑی کامیابی سے گزارا تھا۔ بہر حال ویزا انہیں مل گیا۔
اب یہ ریاض بھائی مجھے ایف نائن پارک میں سیر کرتے ہوئے ملیں گے اور نہ ہی کسی تھنک ٹینک میں ذہانت بھرے سوال کرتے ہوئے۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ جنت میں بیٹھے کوئی کتاب ضرور پڑھ رہے ہوں گے۔ میری نظر میں وہ نابغۂ روزگار تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں