"JDC" (space) message & send to 7575

اسرائیل میں حکومتی تبدیلی

اسرائیل میں وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت تبدیل ہوا چاہتی ہے۔ موصوف مارچ میں ہونے والے انتخابات میں پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے تھے، اگرچہ باقی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ان کی لیکود (Likud) پارٹی کی سیٹیں اب بھی سب سے زیادہ ہیں۔ اسرائیلی کنیسٹ (Knesset) میں کل 120 نشستیں ہیں۔ وہاں کم از کم 61 نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی یا گروپ حکومت بنا سکتا ہے۔
وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے 12 سال حکومت کی ہے۔ ان پر یہ الزام تواتر سے لگا ہے کہ آمرانہ مزاج رکھتے ہیں۔ موصوف نے یہودی بستیاں آباد کر کے ویسٹ بینک کے علاقے کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ میری نظر میں اب یہ علاقہ آزاد فلسطینی حکومت بنانے کے لیے موزوں نہیں رہا۔ اوسلو معاہدے کو موصوف نے طاقِ نسیاں میں رکھ دیا اور وہاں رکھ کر مکمل طور پر بھول گئے۔ ان کی ویسٹ بینک پالیسی نریندر مودی کی کشمیر کے بارے میں پالیسی سے ننانوے فیصد ملتی جلتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ اسرائیل کی سیاست میں لیبر پارٹی بہت اہم تھی۔ اس پارٹی نے گولڈا مائیر (Golda meir) اور شمعون پیریز (Shamoon perez) جیسے سیاست دان پیدا کیے۔ لیبر پارٹی‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ بائیں بازو کی سیاسی جماعت تھی۔ یہ لوگ مذہبی نعرے بہت کم لگاتے تھے، اور فلسطین کے دو ریاستی حل کے حامی تھے۔ اوسلو معاہدہ بھی لیبر پارٹی کی شراکت سے ممکن ہوا۔ لیکوڈ پارٹی دائیں بازو کی جماعت ہے۔ یہ متعصب قسم کے صہیونی ہیں جو پورے فلسطین پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ نیتن یاہو کا تعلق اسی جماعت سے ہے۔ اس جماعت میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو گریٹر اسرائیل (Greater israel) کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس گھنائونے خواب کے مطابق اسرائیل کا رقبہ دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک ہو گا۔
وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے بارہ سال خاصے ہنگامہ خیز رہے۔ چار مرتبہ غزہ پر جارحیت ہوئی۔ پچھلے دو سالوں میں چار مرتبہ الیکشن ہوئے۔ وزیر اعظم پر کرپشن، فراڈ اور اعتماد توڑنے کے الزامات لگے۔ کئی نئی غیر قانونی یہودی بستیاں مقبوضہ علاقے میں آباد کی گئیں۔
وزیر اعظم کے خلاف کرپشن کے کیس میں تفتیش جاری رہی۔ پولیس اور متعلقہ ادارے ان سے پوچھ گچھ کرتے رہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل میں ادارے مضبوط ہیں۔
کرپشن کے تین الزامات وزیر اعظم پر لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک کیس یہ ہے کہ دو ارب پتی لوگوں سے وزیر اعظم اور ان کی بیگم سارہ کو قیمتی تحائف تواتر سے ملتے رہے۔ یہ دونوں بہت متمول بزنس مین ہیں۔ ان میں سے ایک اسرائیلی ہے جو ہالی ووڈ (Hollywood) میں فلم پروڈیوسر ہے اور دوسرا آسٹریلیا میں تجارت کرتا ہے۔ ان دونوں کی جانب سے وزیر اعظم کو اعلیٰ قسم کی شمپین (Champagne) اور قیمتی سگار ملتے رہے۔ یاد رہے کہ شمپین وہ قیمتی قسم کی شراب ہے جو عموماً خوشی کے موقعوں پر جامِ صحت تجویز کرنے کے لیے انڈیلی جاتی ہے۔ ایک اور الزام رشوت لینے کا ہے۔ 2014ء سے 2017ء تک نیتن یاہو کے پاس مواصلات کی وزارت کا اضافی چارج تھا۔ الزام ہے کہ انہوں نے رشوت کے عوض اسرائیل کی سب سے بڑی مواصلاتی کمپنی بیزق (Bezeq) کی مدد کی۔
پاکستان میں سیاست دان کنسٹرکشن والوں سے تحفے میں عالی شان گھر لے لیتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتا۔ اسرائیل میں وزیر اعظم سگار اور شراب کے تحفے قبول کر لیتا ہے تو کیس اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا حالانکہ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ تحفوں کے بدلے میں وزیر اعظم دونوں اشخاص کی کیا مدد کی۔ اسی طرح بیزق مواصلاتی کمپنی بھی کہہ رہی ہے کہ نیتن یاہو نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اور اگر کی ہے تو ثبوت پیش کیا جائے۔ بادی النظر میں دونوں کیس خاصے کمزور لگتے ہیں‘ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اسرائیل میں احتساب کا عمل پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ہے اور اس سے سرونگ وزیر اعظم بھی نہیں بچ سکتا۔
پچھلے سالوں میں دنیا کے کئی ممالک میں دائیں بازو کے چند متعصب لیڈر سامنے آئے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اسی قبیل کے رہنما ہیں۔ ان تینوں میں آپ کو نسلی اور مذہبی تعصب نظر آئے گا۔ لیکن شومئی قسمت سے اسرائیل کا ہونے والا وزیر اعظم نفتالی بینیٹ (Naftali bennet) اس سے بھی دو قدم آگے ہے۔ وہ ویسٹ بینک کے علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے حق میں ہے۔ اس کا اپنا گھر بھی ایک مقبوضہ علاقے پر بسائی گئی یہودی بستی میں ہے۔
ہم پاکستانی عمومی طور پر اسرائیل کی اندرونی سیاست میں زیادہ دل چسپی نہیں رکھتے، لیکن اس مرتبہ سوشل میڈیا کی وساطت سے ایک عجیب واقعہ ہوا۔ شفا ہسپتال اسلام آباد میں بھی ہے اور غزہ میں بھی۔ کہا جاتا ہے کہ حماس کا ہیڈ کوارٹر غزہ میں شفا ہسپتال کے پاس ہے۔ اسرائیل کے ہونے والے وزیر اعظم نے سوشل میڈیا پر غلطی سے شفا ہسپتال اسلام آباد کی تصویر لگا دی اور لکھا کہ یہ حماس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ پاکستانی فارن آفس کو اس کی اس حماقت پر باقاعدہ بیان ایشو کرنا پڑا۔ اس عجیب واقعے سے ایک تو سوشل میڈیا استعمال کرنے والے پاکستانیوں کو کچھ اسرائیلی سیاست کا پتہ چلا اور شفا ہسپتال اسلام آباد کو انٹرنیشنل لیول پر پبلسٹی مل گئی۔
نفتالی بینیٹ پیشے کے لحاظ سے بزنس مین ہیں۔ والدین نے امریکہ سے ہجرت کی تھی اور کیلی فورنیا سے آ کر اسرائیل میں آباد ہوئے تھے۔ اسرائیلی فوج میں کچھ عرصے کے لیے شرکت اسرائیل کے ہر نوجوان کے لیے لازمی ہے۔ نفتالی بینیٹ نے کمانڈو ٹریننگ لی۔ بعد میں سیاست میں آ گئے اور 2009ء میں نیتن یاہو کی انتخابی مہم کے انچارج بنائے گئے۔ یہ نیتن یاہو کی بطور پارٹی لیڈر اولین الیکشن مہم تھی۔ پھر نفتالی بینیٹ امریکہ چلے گئے۔ نیو یارک شہر میں آئی ٹی کا بزنس کیا اور خوب دولت کمائی۔ پھر اسرائیل واپس آئے۔ ان کی پارٹی کا نام یمینا (Yamina) ہے۔
دراصل بینیٹ آٹھ پارٹیوں پر مشتمل ایک کولیشن حکومت کے ہیڈ ہوں گے۔ وہ صرف دو سال وزیر اعظم رہیں گے اور بقیہ دو سال ان کے کولیشن کے ساتھ اور Yesh atid پارٹی کے لیڈر یائر لاپیڈ (Yair lapid) وزیر اعظم ہوں گے۔ لاپیڈ سابق صحافی ہیں۔ وہ ٹی وی اینکر بھی رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کا تعلق نہ دائیں بازو سے ہے اور نہ بائیں بازو سے۔ وہ وزیر خزانہ رہے ہیں اور اپنی پارٹی کو مرکز کی جماعت Centrist party کہتے ہیں۔ اس بھانت بھانت کی کولیشن میں لیبر پارٹی بھی شامل ہو گی لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کی سیاسی جماعت رعم (ra'am) بھی نئی حکومت کا حصہ ہو گی۔ اس پارٹی کے لیڈر منصور عباس ہیں۔ ان کے پاس کنیسٹ کی چار نشستیں ہیں۔ منصور عباس کا خیال ہے کہ وہ نئی حکومت کو کوئی بھی فلسطین مخالف فیصلہ کرنے سے روک سکیں گے کیونکہ کولیشن کی اکثریت بہت معمولی ہے، اسی وجہ سے عام خیال یہ ہے کہ نئی حکومت کوئی بڑا کام نہیں کر پائے گی۔
اور آخر میں آپ کے لئے ایک سوال چھوڑے جا رہا ہوں۔ مصر کی آبادی اسرائیل سے دس گنا ہے جبکہ اسرائیل کی فی کس آمدنی مصر سے دس گنا ہے۔ یعنی ایک عام اسرائیلی عام مصری سے بہت خوش حال ہے۔ وجوہات پر بحث آئندہ کبھی سہی۔
نوٹ: تا دم تحریر صورت حال یہ ہے کہ نئی حکومت کا فیصلہ پارلیمنٹ میں 14 جون کو ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں