"JDC" (space) message & send to 7575

عرب ممالک کی چند خصوصیات

ہر ملک کا نظام اس کے تاریخی پس منظر‘ عوام کے تعلیمی لیول‘ سیاسی شعور‘ اقتصادی حالات اور معاشرے میں کلچرل روایات پر مبنی اقدار سے ترتیب پاتا ہے۔ قبائلی معاشروں میں سردار یا امیر کی اطاعت لازمی قرار پاتی ہے۔ نیم خواندہ معاشروں میں جمہوریت آ بھی جائے تو وہ لنگڑا کر ہی چلتی ہے۔ وہ معاشرے جو صدیوں تک غیر ملکی تسلط میں رہتے ہیں وہاں عوام جبر اور سخت کنٹرول کے عادی ہو جاتے ہیں۔ حکمران کتنا بھی سخت ہو اگر لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہوں اور ملک میں امن و امان ہو تو وہ خاموشی سے ہر سختی برداشت کر لیتے ہیں۔
عرب ممالک میں مغربی طرز کی جمہوریت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہاں یا خاندانی اور موروثی ملوکیتیں ہیں یا آمر لمبے عرصے تک حکومت کرتے نظر آتے ہیں۔ جمہوریت نہ مصر کو راس آئی اور نہ ہی تیونس کو۔ عراق اور لبنان میں جمہوریت لنگڑا کر چل رہی ہے۔ وہاں سیاسی جماعتیں ہیں لیکن فرقہ واریت کا عفریت اور بیرونی مداخلت ڈیموکریٹک نظام کو اچھی طرح سے چلنے نہیں دے رہے۔ لبنان میں روزانہ کرپشن کے خلاف نعرے لگتے ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ اکثر خلیجی ممالک میں سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت نہیں۔ شاہ فیصل مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اگر سیاسی پارٹی بنانے کی اجازت دے دی جائے تو ہر پارٹی کوئی نہ کوئی غیر ملکی ایجنڈا اپنا لے گی۔ بات شاہ فیصل کی وزنی تھی اور مدلل بھی۔ سرد جنگ کے زمانے میں تھرڈ ورلڈ کی دائیں بازو کی جماعتیں امریکہ کی چہیتی ہوتی تھیں جبکہ بائیں بازو کی پارٹیاں ماسکو کی جانب دیکھتی تھیں۔ برصغیر میں سیاسی جماعتوں کا وجود برطانوی طرز حکومت کو دیکھ کر شروع ہوا اور غیر ملکی حکمرانوں نے کانگریس اور مسلم لیگ‘ دونوں کی پذیرائی کی۔ مصر اور لبنان میں سیاسی جماعتیں ہیں لیکن کمزور۔ مصر میں اکثر کنونشن لیگ کی طرز کی کنگز پارٹی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم بن جاتی ہے۔ چند سال پہلے اخوان المسلمین نے ایک الیکشن جیتا تھا‘ جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ لبنان میں سیاسی جماعتیں اشخاص کے تابع ہیں اور ایک نان سٹیٹ ایکٹر نے سب کو آگے لگایا ہوا ہے۔ تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں موجود لنگڑی لولی جمہوریت عرب ممالک سے توانا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے جبکہ اکثر خلیجی ممالک میں مجلس شوریٰ حکمرانوں کو صرف مشورہ ہی دے سکتی ہے۔
میڈیا کی آزادی عرصے تک عرب دنیا میں سرے سے نا پید تھی۔ 1970 ء کی دہائی میں اکثر عرب با خبر رہنے کے لیے بی بی سی ریڈیو کی عربی سروس سنتے تھے۔ مقامی پرنٹ میڈیا‘ ریڈیو اور ٹی وی مکمل طور پر حکومتوں کے کنٹرول میں تھے۔ شام میں بعث پارٹی کی حکومت تھی اور البعث اس کا اخبار تھا۔ دوسری جماعتوں میں اتنا دم خم ہی نہ تھا کہ اپنا آزاد اخبار نکال سکیں۔ میڈیا کی غلامی کو کسی حد تک الجزیرہ نے 1996ء میں توڑا۔ آزادیٔ رائے کے اعتبار سے یہ ٹی وی چینل عرب دنیا میں تازہ ہوا کا جھونکا تھا‘ لیکن اس چینل کو بھی اپنی حکومت کے خلاف کچھ کہنے کی آزادی نہیں تھی۔ 2000ء کے آس پاس لندن سے القدس العربی نکلا تو عرب حکمرانوں پر کھل پر تنقید ہونے لگی۔ جمہوریت کی طرح آزادیٔ رائے میں بھی عرب دنیا انڈیا اور پاکستان سے پیچھے ہے۔
عرب ممالک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں انصاف کا حصول پاکستان کے مقابلے میں آسان اور تیز تر ہے۔ یہ بات خاص حد تک درست بھی ہے۔ مقدمات میں وقت وہاں بھی لگتا ہے لیکن عشروں تک کیس نہیں چلتے۔ سعودی عرب میں فوجداری مقدمات میں وکیل کرنے کی اجازت نہیں مدعی اور مدعا علیہ خود عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ حکومتی پراسیکیوٹر پولیس کی تفتیش کی روشنی میں اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے‘ عدالت طرفین سے ڈائریکٹ سوال کرتی ہے اور جلد ہی حتمی فیصلے پر پہنچ جاتی ہے۔ فوجداری مقدمات کا فیصلہ وہاں جلد ہو جاتا ہے اور سزائے موت کے مجرموں کے سر برسر عام تن سے جدا ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں جرائم کی شرح کم ہے۔
مصر میں ایک اور عجیب روایت ہے‘ خطرناک جرائم میں ملوث لوگ آہنی پنجرے میں عدالت میں لائے جاتے ہیں اور ان میں اہم سیاسی مجرم بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ مناظر ہم نے خود ٹی وی سکرین پر دیکھے کہ سابق صدر حسنی مبارک کو آہنی قفس میں عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔ دنیا بھر کے قوانین ملزم اور مجرم میں تفریق کرتے ہیں لیکن مصر میں ملزم بھی آہنی پنجرے میں قید ہو کر عدالت کے روبرو آتا ہے۔ مجھے یہ انسانیت کی تذلیل لگتی ہے۔
خلیجی ممالک میں ایک اچھی روایت یہ ہے کہ جرم کی تشہیر میڈیا میں نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے سنسنی پھیلتی ہے۔ لوگوں کا سسٹم کے انصاف ڈلیور کرنے پر اعتماد اٹھنے لگتا ہے۔ پولیس اور متعلقہ ادارے خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ میڈیا اپنی رائے زنی سے مکمل پرہیز کرتا ہے۔ جب جرم ثابت ہو جاتا ہے‘ مجرم پکڑا جاتا ہے اور اسے سزا ہو جاتی ہے تب معلومات میڈیا کو جاری کی جاتی ہیں کہ مجرم کس طرح پکڑا گیا۔ پولیس نے کن خطوط پر تفتیش کی۔ جرم کیسے ثابت ہوا اور کتنی سزا ملی۔ اس طرح ہوتا یہ ہے کہ لوگوں کا سرکاری اداروں پر اعتماد قائم رہتا ہے۔
چند عشرے پہلے تک اکثر عرب ممالک میں ویلفیئر یعنی فلاحی سٹیٹ کا تصور نمایاں تھا۔ میں سعودی عرب میں سات سال سے زائد رہا۔ بنیادی ضروریات زندگی یعنی روٹی‘ چینی اور ڈبے کے دودھ کی قیمت ایک ہی رہی تبدیل نہیں ہوئی کیونکہ حکومت ایک بھاری رقم بطور سبسڈی ادا کرتی تھی۔ کسی خلیجی ملک میں نہ انکم ٹیکس تھا اور نہ سیلز ٹیکس۔ پچھلے دو تین سال سے جنرل سیلز ٹیکس وہاں لاگو ہو گیا ہے۔
عرب ممالک میں کچھ سماجی تبدیلیاں تیزی سے آ رہی ہیں۔ ایک خلیجی ملک میں خواتین کو کار ڈرائیو کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب مل گئی ہے۔ یو اے ای کی ایک ریاست یعنی امارات میں نوجوان جوڑوں کو بغیر شادی اکٹھے رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ خلیجی ممالک عام طور پر بہت قدامت پسند سمجھے جاتے تھے‘ خواتین میں حجاب اور برقعے کا رواج عام تھا اب یہ معاشرے بدل رہے ہیں اور حکومت کی اجازت سے بدل رہے ہیں جبکہ سماجی تبدیلیاں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ سیاسی آزادیوں پر اب بھی قدغن ہے۔ یہی وہ آزادیاں ہیں جن کی تلاش میں عرب سپرنگ کی چھتری تلے کئی ممالک میں عوامی بغاوتیں ہوئیں مگر انہیں سختی سے دبا دیا گیا۔ یہاں عوام کی سوچ حکومتی آرا سے خاصی مختلف ہے۔ عوام آمروں سے آزادی چاہتے ہیں لیکن ڈکٹیٹر اقتدار میں آ کر انہیںچھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ حکمرانوں کے باہمی اختلافات نے عرب دنیا کو خاصا کمزور کیا ہے اور آج وہاں کی مؤثر طاقت اسرائیل ہے۔
عرب ممالک کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ پوری دنیا میں سب سے مؤثر اور خطرناک نان سٹیٹ ایکٹر وہاں وجود میں آئے ‘مگر کیوں؟ معاملہ اخوان المسلمین اور پی ایل او سے شروع ہوا اور القاعدہ‘ داعش‘ حماس اور حزب اللہ تک پہنچا۔ جب عرب حکمران اسرائیل کے ظلم کا سد باب نہ کر سکے تو عوام نے سوچا کہ ہم ہی کوشش کریں تو کوئی بات شاید بن جائے۔ ان تنظیموں میں صرف حزب اللہ نے 2006ء میں اسرائیل کو جنوبی لبنان سے نکالنے کا ہدف حاصل کیا۔ باقی تنظیموں سے الٹا عرب دنیا کو نقصان ہوا۔
میں سمجھتا ہوں کہ عرب سپرنگ فی الحال خاموش کر دیا گیا ہے۔ ختم نہیں ہوا اور اس کی کیا وجہ یہ ہے کہ بادشاہتوں نے عرب سپرنگ کو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا۔ یہ بحث پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں