"JDC" (space) message & send to 7575

چین مخالف ثلاثی اور رباعی اتحاد

آج کا امریکہ چین کی ابھرتی طاقت اور دنیا میں پھیلتے ہوئے اثرورسوخ سے پریشان نظر آتا ہے۔ چین کے خلاف رباعی یعنی چار ملکوں کی یکسو سوچ اور انڈرسٹینڈنگ چند سال سے واضح ہے۔ ان چار ممالک میں امریکہ کے علاوہ جاپان، انڈیا اور آسٹریلیا شامل ہیں اور حال ہی میں صدر بائیڈن نے سہ ملکی اتحاد اوکس (AUKUS) کے نام سے بنایا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ نیا اتحاد امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا پر مشتمل ہے۔ دونوں گروپ تشکیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ان کے کوئی باضابطہ ہیڈ کوارٹرز نہیں ہیں۔ یہ ہم خیال ممالک کے گروپ ہیں جن کا مشترکہ مقصد چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے آگے بند باندھنا ہے۔
عالمی سطح پر اس نئی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلی اور متوقع سرد جنگ کا فرق سمجھ لیا جائے۔ دنیا میں پہلی کولڈ وار پچھلی صدی میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر 1945ء میں شروع ہوئی۔ یہ کولڈ وار امریکہ اور سوویت یونین کے مابین تھی۔ یہ دونوں ممالک جنگ میں فتحیاب ہوکر سپر پاورز بن چکے تھے۔ جنگ میں دونوں حلیف تھے مگر جنگ کے بعد حریف بن گئے۔ دونوں نے پوری دنیا میں اپنے اثرورسوخ کے حلقے قائم کیے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے میدان میں مقابلے اور مخاصمت کی صورت واضح نظر آئی۔
دونوں عالمی طاقتوں کے مابین اصل مقابلہ یورپ سے شروع ہوا اور ایک طرح سے برلن کی دیوار گرنے پر اختتام پذیر ہوا۔ عالمی جنگ کے بعد مشرقی یورپ کے متعدد ممالک بشمول پولینڈ، مشرقی جرمنی، چیکو سلواکیہ اور ہنگری سوویت یونین کے زیر اثر آ گئے۔ امریکہ اور مغربی یورپ کو ڈر تھا کہ اشتراکی نظام یورپ میں نہ پھیل جائے چنانچہ صدر ٹرومین نے مارشل پلان کے ذریعے مغربی یورپ کی اقتصادی بحالی میں بھرپور حصہ لیا۔ نیٹو کا عسکری اتحاد بنا۔ دوسری جانب سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے ہمنوا ممالک کو اکٹھا کرکے وارسا پیکٹ کی صورت میں عسکری اتحاد کھڑا کیا۔ دونوں دھڑوں میں شدید مقابلے اور تنائوکی کیفیت رہی۔ ویتنام کی جنگ، 1979 میں سوویت یونین کی افواج کی افغانستان میں آمد‘ 1962 میں کیوبا میں میزائل بحران سب اسی سرد جنگ کے شاخسانے تھے۔ یہ جنگ بنیادی طور پر جیوپولیٹیکل نوعیت کی تھی۔
آج جس سرد جنگ کا آغاز ہوتا نظر آ رہا ہے اس کی نوعیت مختلف ہے۔ یہ سرد جنگ امریکہ اور چین کے مابین ہے اور اس کی نوعیت جیواکنامک ہے۔ چینی روز افزوں اقتصادی طاقت کو محدود کرنا اس مقابلے کا ہدفِ اول ہے۔ ٹیکنالوجی اس دوڑ کا اہم ستون ہے کہ عصر حاضر میں جو قوم ٹیکنالوجی میں آگے ہوگی وہی تیز اقتصادی ترقی کرسکے گی۔
ٹیکنالوجی کی جنگ کی ایک مثال چین کی ہواوے (Huawei) کمپنی ہے جو ٹیکنالوجی میں خاصی آگے ہے۔ امریکی کمپنیاں ایک عرصے سے ہواوے کو شک کی نظر سے دیکھتی آ رہی ہیں۔ پہلا الزام ٹیکنالوجی چوری کا لگا‘ دوسرا الزام یہ لگا کہ اس چینی کمپنی نے یہ ٹیکنالوجی ایران کو منتقل کر دی ہے۔
اور اب موضوع کی جانب واپس آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب چاروں ممالک میں چین مخالف ایجنڈا پر ہمنوائی کسی حد تک موجود تھی تو پھر تین ممالک کا نیا گروپ چہ معنی دارد؟ انڈیا کی سابق سیکرٹری خارجہ مسز نروپاما رائو نے نئے ثلاثی اتحاد کو رباعی اتحاد کی پیٹھ میں سٹریٹیجک چُھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ آسٹریلیا نے فرانس سے آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ کیا ہوا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ نے آسٹریلیا سے کہا کہ وہ فرانس سے معاہدہ ختم کر دے تو اسے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس آبدوزیں مہیا کی جائیں گی۔ پچھلے دنوں امریکہ اور فرانس کے تعلقات میں تنائو کی وجہ بھی یہی تھی۔
امریکی حکومت کا افغانستان سے عسکری انخلا کا فوری فیصلہ بھی اس بات کا غماز ہے کہ امریکہ مزید وسائل افغانستان کی لایعنی جنگ میں ضائع کرنے کے بجائے اپنی پوری توجہ چین پر مرکوز کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس دفعہ سرد جنگ میں وہ تیزی نظر نہیں آئی جو گزشتہ صدی کی کولڈوار کا طرۂ امتیاز تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اس وقت امریکہ اور سوویت یونین یعنی دونوں حریفوں کے درجنوں عسکری اڈے دنیا بھر میں تھے جبکہ چین کا صرف ایک فوجی اڈہ جیبوتی میں ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پچھلی سرد جنگ میں یورپی ممالک پوری یکسوئی سے امریکہ کے ساتھ تھے۔ وہ نیٹو میں بھی شامل ہوئے جبکہ اکیسویں صدی کی کولڈوار کے ساتھی بشمول انڈیا اور جاپان دل و جان سے امریکہ کے ساتھ نہیں لگتے۔ ان کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں اور تو اور خود امریکہ آج بھی چین کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
افغانستان اور عراق کی جنگوں میں وسائل کے ضیاع کے بعد امریکہ خود کئی اندرونی مسائل کا شکار ہے۔ صدر بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ ایک کھرب ڈالر انفراسٹرکچر کی تعمیرومرمت پر خرچ کیے جائیں گے لہٰذا یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگلے دس پندرہ سال امریکہ اپنے اندرونی مسائل پر فوکس کرے گا۔ بیرون ملک کسی جنگ کا آغاز نہیں کرے گا۔
اس صورت میں امریکہ کی کوشش ہوگی کہ دوسروں کے کندھوں پر رکھ چین کے خلاف بندوق چلائے‘ لیکن کیا دوسرے ممالک بشمول جاپان اور انڈیا اپنے کندھے آسانی سے امریکہ کو پیش کردیں گے۔ میرا جواب نفی میں ہوگا۔ عددی اعتبار سے چینی افواج دنیا میں اول نمبر پر ہیں، جبکہ انڈیا نفری کے لحاظ سے چوتھے نمبرپر ہے۔ 1962 سے انڈیا چین سے خائف نظر آتا ہے۔ ماضی قریب میں ایک محدود سی عسکری جھڑپ میں چائنا کے مقابلے میں انڈیا کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ چین اقتصادی اعتبار سے انڈیا سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ چین اس وقت انڈیا کا سب سے اہم تجارتی پارٹنر ہے اوراس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انڈیا کسی حد تک اپنی نیوٹرل پوزیشن بھی رکھنا چاہتا ہے‘ باوجود اس حقیقت کے کہ اب وہ واضح طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔ انڈین لیڈرشپ خوب جانتی ہے کہ امریکہ انہیں چین سے لڑا کر ایک طرف ہو جائے گا اور نتائج انڈیا بھگتے گا۔ اس لیے انڈیا امریکہ کی خاطر چین سے نہیں لڑے گا بلکہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلے گا۔ امریکہ سے وہ پہلے ہی کافی فائدے اٹھا چکا ہے لیکن پھر بھی انڈین ذہن میں پرخاش ضرورہے کہ آخر ایٹمی آبدوزیں آسٹریلیا کوکیوں مل رہی ہیں۔
چین اور جاپان کی تجارت کا حجم 350 ارب ڈالر ہے۔ 2018 کی بات ہے میں‘ ایک پاکستانی تھنک ٹینک کے ساتھ چین کے دورے پر گیا۔ ایک سینئر چینی اہلکار نے ہمیں بریفنگ میں بتایا کہ جاپان کا خوشحال ہونا ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ ایک وجہ دوطرفہ تجارت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جاپانی سیاح بڑی تعداد میں چین آتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے وعدہ کیا کہ وہ ملک سے باہرکسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ جاپان کی مسلح افواج بہت محدود سی ہیں اور انہیں سیلف ڈیفنس فورسز کہا جاتا ہے لہٰذا جاپان کی رباعی اتحاد میں شرکت صرف سیاسی نوعیت کی ہے۔
رباعی اتحاد کی کوشش رہی ہے کہ خطے کے دوسرے ممالک مثلاً جنوبی کوریا، ویتنام اور فلپائن چین مخالف ایجنڈے پر پرجوش حامی بنیں‘ لیکن آسیان کے تمام ممبر ممالک کے تجارتی مفادات چین سے جڑے ہوئے ہیں گو کہ ویتنام اور فلپائن سائوتھ چائنا سی کے حوالے سے چین مخالف بیان دیتے رہتے ہیں۔
چین نے آزادی کے بعد کسی ملک پرخود سے حملہ نہیں کیا۔ 1962 کی جنگ بھی انڈیا نے شروع کی تھی۔ چین کا کہنا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ محض اقتصادی ہے انڈیا اور امریکہ کے مقابلے میں چینی خارجہ پالیسی خاصی دھیمی اور سمجھ دار رہی ہے مجھے لگتا ہے کہ فی الحال چین مخالف رباعی اور ثلاثی اتحاد زیادہ فعال نہیں ہو سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں