"JDC" (space) message & send to 7575

وینڈی شرمن کا دورۂ جنوبی ایشیا

وینڈی شرمن امریکہ کی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ یعنی فارن سیکرٹری ہیں۔ ان کا حالیہ دورہ کئی اعتبار سے اہم تھا۔ صدر بائیڈن کے آنے کے بعد امریکن سائیڈ سے وہ سب سے نمایاں سویلین اہلکار تھیں جو پاکستان آئیں۔ اس دورے میں یہ بھی بڑی حد تک واضح ہو گیا کہ امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے سے کیا چاہتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ دونوں جانب کے نقطہ ہائے نظر اب خاصے مختلف ہیں۔
انڈیا میں وینڈی شرمن نے اپنے ہم منصب ہرش شرنگلا سے وفود کی سطح پر مذاکرات کئے۔ فارن منسٹر جے شنکر سے خود ملنے گئیں‘ اسی طرح بھارتی قومی سلامتی امور کے ہیڈ اجیت دوول کو بھی ملنے گئیں۔یاد رہے کہ اپنے سے سینئر شخص کو جب سرکاری دورے پر آیا ہوا آفیشل اپنی خواہش کے مطابق ملنے جائے تو اسے کال آن(Call on) کہا جاتا ہے۔ سفارتی پروٹوکول میں منصب کے درجات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں شاید ہم یہ بنیادی بات بھول گئے ہیں‘ اس کا تفصیلی ذکر ذیلی سطور میں آئے گا۔
انڈیا میں امریکی سفارت کار نے وہ باتیں کیں جو انڈین سننا چاہتے تھے۔ افغانستان کے بارے میں کہا کہ امریکہ اور انڈیا کے خیالات میں مطابقت ہے۔ دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ وہاں وسیع البنیادحکومت ہو جس میں تمام نسلی اور مسلکی گروہوں کی نمائندگی ہو اور آئندہ افغانستان دہشت گردوں کیلئے محفوظ جگہ نہ بن سکے لیکن پاکستان کے بارے میں امریکی سفارت کار نے جو کہا اسے سن کر ہمیں حقیقت پسند ہو جانا چاہیے۔ موصوفہ کا کہنا تھا کہ میں پاکستان بڑے محدود ایجنڈے کے ساتھ جا رہی ہوں۔ وہ دن گئے جب ہم انڈیا اور پاکستان کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے تھے۔ پاکستان میں اب ہماری دلچسپی افغانستان کے حوالے سے ہے اور خاص طور پر دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے۔
وینڈی شرمن دہلی کے علاوہ ممبئی بھی گئیں اور وہاں بزنس کمیونٹی سے ملیں۔ انڈین فارن سیکرٹری ہرش شرنگلا نے کہا کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات اتنے اچھے کبھی نہ تھے جتنے آج ہیں۔ ممبئی میں ایک انڈین چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ اب ہمارے تعلقات وسیع البنیاد نہیں ہوں گے۔ یاد رہے کہ ماضی میں امریکہ کے ساتھ ہمارے روابط میں عسکری تعاون‘ تجارت‘ سرمایہ کاری اورتعلیم کے شعبے میں تعاون نمایاں تھے۔ اب امریکہ انڈیا کو تسلی دے رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ہماری اصل دوستی صرف آپ کے ساتھ ہے۔ البتہ پاکستان سے افغانستان کے حوالے سے اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بات چیت کرنا ہماری مجبوری ہے۔
انڈین دورے میں چین کے بارے میں بھی بات ہوئی۔ امریکہ اور انڈیا دونوں چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کے بارے میں شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ دونوں کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس وزٹ کے دوران کہا گیا کہ چین نے سری لنکا‘ مالدیپ اور پاکستان کو جو قرضے دیے ہیں‘ ان کی شرائط بہت سخت ہیں۔ خیر یہ سب باتیں تو متوقع تھیں لیکن پاکستان کے بارے میں موصوفہ کے ریمارکس سفارت کاری کے اصولوں کے خلاف تھے۔ خاص طور پر جب یہ دیکھا جائے کہ وہ انڈیا سے سیدھی پاکستان آ رہی تھیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ پاکستان سے اب ہمارے تعلقات بہت محدود نوعیت کے ہوں گے‘ بہت ہی بھونڈی بات تھی۔ سینئر ترین امریکی سفارتکار کے منہ سے نکلے یہ الفاظ سن کر مجھے وہ کتاب ''Ugly American‘‘ یاد آ گئی جو کالج کے زمانے میں پڑھی تھی۔ لب لباب پہ تھا کہ امریکن دیگر اقوام کی حساسیت کا خیال نہیں کرتے۔
وینڈی شرمن پاکستان آئیں تو کہنے لگیں کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات پرانے ہیں اور ہم کئی شعبوں میں ہم کاری کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور کورونا وائرس کے مقابلے کا ذکر کیا۔ منافقت سفارت کاری کا کسی حد تک حصہ رہی ہے‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اکیسویں صدی میں خبریں برقی رفتار سے سفر کرتی ہیں اور پاکستان کے بارے میں ان کے افکار ان کی اسلام آباد آمد سے پہلے ہی آشکار ہو چکے تھے۔پاکستان میں وینڈی شرمن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے وفود کی سطح پر دو طرفہ مذاکرات کیے جو غیر مناسب تھا۔ پاکستان میں ان کے ہم منصب فارن سیکرٹری سہیل محمود ہیں جو منجھے ہوئے سفارتکار ہیں مگر اس کا کیا کیا جائے کہ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ کے علاوہ فارن سیکرٹری کے فرائض سر انجام دینے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ دو طرفہ مذاکرات فارن سیکرٹری سہیل محمود کے ساتھ ہونا چاہئیں تھے۔ یہ نہ صرف پروٹوکول کی صریحاً خلاف ورزی تھی بلکہ ریاست کی سبکی بھی تھی۔ وزیر خارجہ کو اپنے ملک کی عزت اور وقار کا خیال رکھنا چاہیے ‘وہ اب لمبا عرصہ اس عہدے پر رہ چکے ہیں۔ سفارت کاری میں پروٹوکول کے اصولوں کا انہیں بخوبی علم ہونا چاہیے اور وہاں وزارتِ خارجہ کے تجربہ کار افسروں میں اتنی صلاحیت ضرور ہو گی کہ وہ یہ باتیں انہیں بتا سکیں۔ اگر یہ افسر مسلمہ اصول اپنے وزیر خارجہ کو نہیں بتا رہے تو اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہیں۔ وزیر خارجہ سے زیادہ خوددار تو وزیراعظم عمران خان ہیں کہ امریکی سفارت کار سے ملنے کا کوئی شوق ظاہر نہیں کیا‘ حالانکہ پہلے وزرائے اعظم یہ کام کرتے رہے ہیں۔
اسلام آباد میں وینڈی شرمن نے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔ انڈیا میں وہ آرمی چیف سے نہیں ملیں۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کی توجہ کا مرکز اس وقت طالبان کا افغانستان ہے اور یہ خوف کہ نیا افغانستان کہیں القاعدہ اور داعش کی آماجگاہ نہ بن جائے۔ اسی دورے کے دوران امریکہ کے عربی چینل الحرّہ نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ہم وینڈی شرمن کے وزٹ کے حوالے سے خصوصی پروگرام کر رہے ہیں۔ آپ کے علاوہ ایک امریکی تجزیہ کار کو بھی دعوت دے رہے ہیں۔ پروگرام شروع ہوا تو امریکی تجزیہ کار نے کوئی منطقی بات کرنے کے بجائے پاکستان اور طالبان کی حکومت پر سخت تنقید سے آغاز کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ امریکہ کی افغانستان میں ناکامی کی بڑی وجہ پاکستان کی دوغلی پالیسی ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ طالبان اور القاعدہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ پاکستان میں افغان طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں رہی ہیں اور یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ طالبان بالکل نہیں بدلے۔
میرا جواب یہ تھا کہ پاکستان کو سمجھنے میں آپ پھر غلطی کر رہے ہیں۔ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کا سخت مخالف ہے۔ ہماری فوج نے دہشت گردی کے خلاف لمبی جنگ لڑی ہے۔ اب اگر اشرف غنی اچانک ملک سے فرار ہوگئے اور افغان نیشنل آرمی ریت کی دیوار ثابت ہوئی تو کیا اس کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟ اس کے بعد موصوف کا لہجہ خاصا بدل گیا۔
اصل سوال یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟ اصل صورتحال یہ ہے افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں سے کوئی اور ملک ایسا نہیں جس سے مدد کی توقع کر سکے۔ ایران سے امریکا کے تعلقات اب بھی ایسے ہیں کہ واشنگٹن اور تہران میں القاعدہ یا داعش کے خلاف ہم کاری فی الحال نا ممکن ہے۔ دیگر ہمسایہ ممالک میں وہ صلاحیت نہیں جو پاکستان کے پاس ہے اس سلسلے میں امریکہ کو پاکستان کا انٹیلی جنس تعاون درکار ہے۔ اس کی یہ بھی خواہش ہو گی کہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کا دو طرفہ معاہدہ جاری رہے۔ پاکستان اس لحاظ سے اچھی پوزیشن میں ہے۔ ظاہر ہے کہ پاک امریکی مراسم پہلے والے نہیں ہو سکتے لیکن ہمارے ہاتھ میں اب بھی چند مضبوط پتے ہیں۔ ہم فنکشنل سطح پر امریکہ سے مناسب تعلقات رکھ سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں